زراعت سب سے اہم

عبدالقادر حسن  ہفتہ 29 دسمبر 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

چند روز گاؤں میں گزارنے کے بعد واپسی ہوئی ہے لیکن دل ودماغ ابھی تک وہیں گاؤں میں اٹکا ہوا ہے آج کل وادیٔ سون کے کاشتکار جن زبردست مشکل حالات کے شکار ہیں ان مشکل حالات کا مقابلہ بھی پہاڑوں میں بسنے والے یہی جفا کش ہی کر سکتے ہیں جنھیں بارانی کاشتکاری نے مشکل سے مشکل حالات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ بھی دے رکھا ہے۔

گاؤں میں قیام کے دوران جس کاشتکار سے بھی ملاقات ہوئی اس کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ ہم کاشتکاروں کے لیے تبدیلی کب آئے گی ان کے حالات کب بدلیں گے اور کب کوئی ایسا حکمران آئے گا جو شہروں کے رہنے والوں کے ساتھ دیہات کے غریبوں کے دکھوں کا بھی مداوا کرے گا۔ مجھے باخبر اور بااثر سمجھتے ہوئے ان کا مطالبہ تھا کہ میں نئی حکومت تک ان کے حالات پہنچاؤں اور حکمرانوں کو بتاؤں کہ ان کے زرعی ملک میں کاشتکار کس مشکل کے شکار ہیں ۔

وادیٔ سون میں تازہ تازہ آلوکی فصل تیار ہوئی اور منڈیوں تک پہنچا دی گئی لیکن وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ آڑھتیوں نے من پسند نرخوں پر کاشت کاروں سے فصل کی خریداری شروع کردی اور جب آلو کے سیزن کا اختتام ہوا تو میری وادیٔ سون کے کاشتکار جو کہ آلو سے پہلے کاشت کی گئی سبزیوں کے نرخوں سے ڈسے جا چکے تھے ایک بار پھر نئی فصل کے قرضوں کے بوجھ تلے دب گئے ہیں کیونکہ ان کو اپنی کاشت کی اصل رقم سے محروم ہونا پڑا انھوں نے اپنے حالات کو اللہ کے سپرد کر دیا اور نئے جذبے سے گندم کی کاشت شروع کر دی ہے۔

اخبار کی خبر ہے کہ آلو کے کاشتکار لاہور سے اسلام آباد مارچ کر رہے ہیں یہ وہ زمیندار ہیں جن کی زمینوں کا مقابلہ پہاڑی علاقے کے معمولی کاشتکار نہیں کر سکتے کیونکہ پہاڑی علاقے میں چند ایک بڑے کاشتکاروں کو چھوڑ کر زمین کی ملکیت بہت محدود ہوتی ہے لیکن وہ اسی محدود زمین سے رزق تلاش کرتے ہیں جب کہ نہری علاقوں کے زمیندار وسیع و عریض قطعہ زمین کے مالک ہونے کے باعث فصلوں کی بڑے پیمانے پر کاشت کرتے ہیں لیکن اس مرتبہ ان کے حالات بھی وادیٔ سون کے چھوٹے کاشتکاروں کی طرح خراب ہیں اس لیے انھوں نے حکومت تک اپنی بات پہنچانے کے لیے مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔

دراصل بات یہ ہے کہ کاشتکار کو جب اس کی فصل کی لاگت بھی نہ ملے تو وہ کیا کرے اس کے پاس کوئی متبادل ذریعہ آمدن نہیں ہوتا جس سے وہ اپنے خسارے کو پورا کر سکے۔

اس کی کل جمع پونجی فصل کی قیمت سے حاصل ہونے والی آمدن ہی ہوتی ہے اور جب وہ آمدن بھی خسارے میں بدل جائے تو کاشتکار بدحالی کا شکار ہو جاتا ہے ۔اگلی فصل کی کاشت کے لیے اس کو زرعی بینک سے قرضہ یا آڑھتی جیسے ساہوکار سے ادھار لینا پڑ جاتا ہے اور پھر وہ انھی قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے میں نے کئی نامی گرامی زمینداروں اور کاشتکاروں کو زرعی بینک کے قرضوں کی وجہ سے جیل جاتے بھی دیکھا ہے اور پھر اس قرض کی ادائیگی کے لیے ان کی زمین فروخت ہوتے بھی دیکھی۔

دل گرفتگی کے انھی حالات میں اپنی جنم بھومی سے واپسی ہوئی ہے ۔ پہاڑی علاقوں میں پانی کی نایابی ایک مستقل حقیقت ہے اور اس کا ایک تماشہ میں ذاتی طور پر دیکھ رہا ہوں ۔ میری وادی پانی کی قلت کی وجہ سے غیر آباد ہوتی جارہی ہے اور یہاں کے لاکھوں انسان اور لاتعداد پرندے ہجرت کر جانے کی تیاریاں کررہے ہیں ۔ یہ

وہ دن ہیں جب وادیٔ سون کی جھلیں وسط ایشیاء اور روس سے آنے والے پرندوں سے بھر جاتی ہیں اور اس کے پہاڑوں پر خدا جانے کہاں سے اتنے تیتر چکور اور بٹیر پہنچ جاتے ہیں ۔ کلر کہار سے اوچھالی تک چار بڑی جھیلیں سرد علاقوں سے آنے والے ان مہمانوں کی میزبانی کرتی ہیں لیکن بارشوں کی قلت کی وجہ سے یہ جھیلیں تالاب بنتی جارہی ہیں ۔

کنویں جو صدیوں سے انسانوں اور جانوروں کی پیاس بجھا رہے تھے بالکل خشک ہو گئے ہیں اور زیر زمین پانی اتنا گہرا چلا گیا ہے کہ چار سو فٹ گہرے ٹیوب ویل بھی خشک ہونے لگے ہیں۔ خود میرے دو ٹیوب ویل خشک ہو چکے ہیں اور جو چل رہے ہیں ان کے بارے میں کسی بھی وقت اطلاع آسکتی ہے کہ اب پانی نہیں ہے جس کا آسان زبان میں مطلب ہو گا کہ یہاں سے کوچ کر جائیں لیکن جائیں تو جائیں کہاں۔

وہ کون سی جگہ ہے جہاں پانی دستیاب ہے اور زمین مل سکتی ہے بلند وادیٔ سون میں تو نہر بھی نہیں جا سکتی کہ وادی سطح سمندر سے تین ہزار فٹ بلند ہے اس کی زندگی بارشوں اور زیر زمین پانی کے ساتھ باقی ہے اور زیر زمین پانی یا تو بارشوں سے جمع ہوتا ہے یا قرب و جوار کے پانی کے ذخیروں سے ۔ اگر پانی کا کوئی نیا ذخیرہ تعمیر نہیں ہوتا تو زیر زمین پانی بھی نہیں ہوتا کیونکہ پانی کے پہلے ذخیرے ناکافی اورخشک ہو چکے ہیں اور کسی نئے ذخیرے کاکوئی امکان نہیں ۔

عوام کی آواز حکمرانوں تک پہنچانے کی ذمے داری میڈیا کی ہے اور میر ے جیسے لوگ جو حادثاتی طور پر میڈیا میں آئے اور پھر اس کے اسیر ہو گئے لیکن اندر سے کاشتکار اور دیہاتی ہی رہے اس لیے جب بھی گاؤں کے کاشتکاروں کے حالات کا علم ہوتا ہے تو کوشش ہوتی ہے کہ ملک بھر کے کاشتکاروں کی نمایندگی کی جائے اور حکومت وقت تک صحیح صورتحال پہنچائی جائے ۔ ہماری نئی حکومت کاشتکاروں کے حالات بدلنے کا نعرہ بھی لگاتی رہی ہے لیکن ابھی تک ٹیوب ویل کے لیے بجلی کی قیمتوں میں کمی کے علاوہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا کہ جس سے کاشتکاروں کو فصلوں کی کاشت میں آسانیاں ہوں ۔ ڈیزل کے نرخ وہی ہیں ، کھاد بھی پرانی قیمت سے زیادہ مہنگی ہو چکی ہے ، زرعی مشینری بھی ڈالر کی اڑان کی وجہ سے روز بروز مہنگی ہوتی جارہی ہے۔

اس صورتحال میں حکومت سستی زرعی اجناس ہمسایہ ممالک سے برآمد کر رہی ہے جس سے مقامی کاشتکار زبوں حالی کا شکار ہے، ہمسایہ ملک میں کاشتکاروں کو حکومت سبسڈی دے رہی ہے جس کی وجہ سے زرعی اجناس سستے داموں دستیاب ہیں جب کہ ہمارے ہاں حالات اس سے بالکل مختلف ہیں ،کاشتکار مہنگے بیجوں اور زرعی ادویات کے بوجھ تلے دب چکے ہیں، حکومت کو کاشتکاروں کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے زرعی اجناس کی درآمدات فوری طور پر بند کردینی چاہئیں تا کہ زرعی ملک کے کاشتکار منڈی میں اپنی فصلوں کی مناسب قیمت وصول کر سکیں۔

حکومت زراعت کی ترقی کے لیے زرعی شعبے کو سبسڈی کی شکل میں امداد کے ذریعے کوئی ایسا منصوبہ وضع کرے جس سے زرعی شعبے کی سانسیں بحال ہو سکیں۔ ہماری زندگی میں شاید زراعت صنعت سے زیادہ ضروری ہے اور اس کے کئی اسباب ہیں جن پر جلد ہی بات ہوگی۔بہرکیف حکومت کو فوری طور پر زراعت کی خبر لینی چاہیے زراعت کے بغیر ہم زندگی کا تصور نہیں کر سکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔