الوداع 2018

جاوید قاضی  اتوار 30 دسمبر 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

پھر چاک غریباں، وقت کے ستم اورایک زمستاں کی شام، پھر ہم سے ملے ہمارے اپنے ہماری یادوں کی پگڈنڈیوں کے بہانے پھر کھل گئے سب قصے، سب کہانیاں، وہ باتیں وہ فسانے۔ وقت کی دھول ہے جو اوڑھی ہوئی ہے۔ سب کے سب یہیں تھے جو اب نہیں ہے۔

آج 2018 کا یہ سال اپنی الوداعی رات بتانے کو ہے اور ہم سرد رات میں جیسے لکڑیاں جلائے ان پر اپنے ہاتھوں کو تپش دیتے کسی قہوہ خانے کی چوکھٹ پر جمع ہیں اور وقت رواں ہے کہ اسے رواں ہی رہنا ہے۔ یہ قہوہ خانہ یہ جلتی لکڑیاں، سب پھر سے یادیں قصے اور فسانے بن جائیں گے اور وقت یہیں رہے گا کیونکہ اسے رہنا ہے۔

2018 پورا ایک سال تھا اور اب یوں لگتا ہے کہ جیسے ایک لمحہ ہو۔ نہ جانے کتنے سالوں کی طرح آیا اور آکر چلا گیا۔ اس کے جانے سے اسی چوراہے پر ایک اور سال آن پڑے گا۔ ایک اور داستان،ایک نیا دفتر پھر سے کھلے گا پھر سے رقم ہوں گے وہ قصے جو اس سال کے کشکول میں پڑیں گے ۔ زندگی کاسہ گدائی نہیں توکیا ہے۔جتنے ملے پل تو جی لیے اور جو نہ ملے تو نہ جیے۔ ہم نہ ہوں گے تو کوئی اور ہم سا ہوگا۔ زندگی ٹھہرتی نہیں، تھمتی نہیں ہم بھی اسی راہ گزر پر ہیں جس پر سال 2018 آج ہم ہیں اورکل نہیں۔

آج جب میرے آنگن میں جاڑیں اتری ہیں تو میں نے ڈھیر ساری فلمیں،کتابیں اپنی رات کے سامان میں رکھ دی ہیں کہ میں اس وقت کی کروٹ کو بدلتے ہوئے محسوس کر سکوں۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ یہ رسم جاڑوں میں ہی ہوتی ہے جیسے ہی ایک سال اختتام کو پہنچتا ہے تو دوسرا سال اس کی جگہ لے لیتا ہے، جیسے واہگہ بارڈر کی پرچم کشائی یاتبت میں رہتے ہوئے بھکشوؤں کے عقیدے کی طرح کہ جب ایک دلائی لاما گزرتا ہے تو اسی لمحے جہاں بھی جو نومولود پیدا ہوتا ہے، اسے دلائی لاما بنادیا جاتا ہے۔

ہمارے سائنسدان سٹیفن ہاکنگ یہ معاملہ اور بھی سلیس کرگئے جس طرح فیضؔ کہتے ہیں ’’یہ سخن جو ہم نے رقم کیے سب ورق ہیں تیری یاد کے‘‘ اسٹیفن ہاکنگ کہتے ہیں کہ یہ جوکچھ ہے سب وقت کا پھیلاؤ ہے۔کائنات کچھ بھی نہیں زمان و مکاں کی روانی ہے جو چلے تو وقت رواں ہے اور جو لپٹے تو بلیک ہول ہے۔

ایک چھوٹہ سا تنکا ہے کائنات کے اس بھرے وشال میں یہ میری دھرتی۔ سورج کے گرد گھومتی ہے اور ایسے نہ جانے اربوں کھربوں سورج ہیں، اس زمان و مکاں کے وشال میں جو ہمیں ستاروں کی صورت میں نظر آتے ہیں اور یہ سب عشق کے امتحان ہیں۔ میرے مرشد جلال الدین رومی کو پھر اپنے اندر ایک کائنات نظر آئی وہ اس طرح جھومنے لگے جس طرح دھرتی سورج کے گرد گھومتی ہے اور سورج کہکشاں میں اورکہکشاں خود اپنے زماں میں۔ کہ اربوں کھربوں کہکشائیں ہیں کہ اربوں کھربوں کائناتیں ہیں، یہ سب وقت کا پھیلاؤ ہے۔

بگ بینگ ایک نہیں جو ہوا تھا نہ جانے کتنے بگ بینگ ہیں جو ہوئے تھے، اگر ہم ہاکنگ کی آنکھ سے دیکھیں۔ 2018 اس بھرے کل وشال میں شاید لمحہ بھی نہیں۔کائنات اس گھنٹہ گھر میں شاید ایک سیکنڈ بھی نہیں کہ کروڑوں اربوں،کھربوں سالوں کی تاریخ ہے کہ اس کو نوری سالوں میں گنا جاتا ہے۔ جس گھڑی کا یونٹ روشنی کی رفتار ہے۔

آدمی کیا ہے فقط ایک specie ہے اور نہ جانے کتنے specie اس زمین پر وجود رکھتے ہیں۔ایک نئی تحقیق کے مطابق اس کرہ اراضی پر8.7 ملین specie موجود ہیں۔ یہ سب جاندار ہیں۔ درختوں ،پتوں، جانوروں،کیڑوں، مکوڑوں کی طرح یہ سب ہمارے ساتھ اس زمین پر اپنا حق رکھتے ہیں۔ بنی نوع انسان،اشرف المخلوقات ہیں،کیونکہ ہم بہت چیزوں کا علم رکھتے ہیں جس کی سمجھ وہ نہیں رکھتے اور وہ جان بھی نہیں سکتے جو ہم جانتے ہیں ۔ یہ ہم ہیں جو سائنس سے علم لے کر پوری کائنات کی تلاش میں ہیں اور یہ ہم ہی ہیں جو اس زمین کی گردش اور اس کے درد کے ذمے دار ہیں، لیکن یہ ہم ہی ہیں جو اس زمین کی تمام مخلوقات کے لیے زندگی مشکل بنا رہے ہیں۔ یہ ہم ہی ہیںجو اس عہد میں سرمایہ کاری اور اس کی منڈی کا عکس ہیں اور یہ بھی ہم ہی ہیں جو اس زمین پر carbon dioxide پیدا کرکے ماحولیات کے لیے خطرہ پیدا کررہے ہیں۔

آج کی تہذیب fossil fuels کے استعمال سے نکلی ہوئی تہذیب ہے۔ سرمایہ اور لالچ سے پیدا ہوئی تہذیب۔ اب ہم تجدید برق renewable energies کی طرف جا رہے ہیں۔ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا معرکا دنیا میں آئین کا دینا تھا، جس کی بنیاد میں ہیں انسانی حقوق، جس کو ہم ماڈرن آئین کہتے ہیں۔ ہمارا آئین بھی اس دنیا کے ماڈرن ریاستوں کا آئین ہے، لیکن عمل کے اعتبار سے ہم آئین کی حقیقت سے بہت دور ہیں۔

جب سے صنعتی دورکا آغاز ہوا ہے، دنیا کا درجہ حرارت ایک ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ گیا ہے۔ خدشہ ہے کہ اگر ہم نے ماحولیاتی آلودگی پر قابو نہ پایا تو اس صدی کے آخر تک ایک ڈگری اور بڑھ جائے گا۔ برف پگھل جائے گی،کئی شہر ڈوب جائیں گے۔ ہوسکتا ہے باقی مخلوقات کے ساتھ انسانوں کی آدھی آبادی بھی کرہّ ارض سے مٹ جائے گی۔ ایک بہت بڑا بحران ہے جو انسان نے خود پیدا کیا ہے اور اس کے خطرات اب انسانی آبادی کے لیے ہیں۔ ہوس سے بھرا انسان ان تمام حقائق کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ عقیدوں سے نفی کرتا انسان۔ طبقات، رنگ و نسل کے زاویوں میں جکڑا انسان جو سچ کو بھی لالچ اور نفع کی آنکھ سے دیکھتا ہے، وہ جو اس کیپٹل ازم کے پس منظر میں خود غرض ہوچکا ہے، اسے اپنے مفادات کے سواء کچھ نظر نہیں آتا۔

2018یہ سال جب الوداع کہ رہا ہے تو ہمیں اپنی سوچ و بصیرت سے اس کا جائزہ لینا ہوگا۔ ہمیں اپنے بیانیہ، اپنی فکر اور اپنی سوچ فہم میں تبدیلی لانی ہوگی جس سے ہم دوسروں سے جڑ سکیں۔ آج کا سچ کیا ہے؟ آج کی تحریک کیا ہے کہ ہم کس طرح بحیثیت ایک قوم بحیثیت ایک ملک اور بحیثیت ایک تاریخ اپنے آپ کو محفوظ کرسکتے ہیں۔

آج دنیا میں سوچ وفہم کی نئی کھڑکیاں کھل رہی ہیں، اس دنیا میں صرف ہم ہی باشندے نہیں بلکہ یہ سارے نباتات اور تمام سانس لیتی ہوئی چیزیں اس دنیا میں رہتی ہیں، ہماری طرح ان کو بھی خدا نے بنایا ہے، ان کا بھی اس زمیں پر اتنا ہی حق ہے جتنا ہمارا۔ ہم چاہے خواتین ہوں بچے، بوڑھے، مرد یا عورت، تمام مذاہب اور تمام رنگ و نسل سب اس کرہ ارض پر اپنا وجود رکھتے ہوئے حق رکھتے ہیں۔

ورنہ کیا ہوگا؟یہ دھرتی سورج کے گرد گھومتی تو رہے گی لیکن ایک خاموشی ہوگی،کسی کو کچھ خبر نہ ہوگی اور ہم مریخ، زہرہ کی طرح خاموشی سے سورج کے گرد گھومتے ہی رہیں گے۔ یہ دھرتی جو بظاہر ایک تنکہ ہے اس کا یہ ایجنڈ ہے کہ کائنات کے طویل سفر پر نکلے اور اس کو دریافت کرے، جس طرح اقبال لکھتے ہیں:

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔