غربت کی لکیر مٹانے کا نسخہ

سعد اللہ جان برق  اتوار 30 دسمبر 2018
barq@email.com

[email protected]

ان دنوں ہمارے پاس کوئی خاص تحقیقی پروجیکٹ نہیں ہے، اس لیے خود کو بہت ہی بے مزہ محسوس کرتے ہیں۔ آخر کوئی کب تک ٹی وی اشتہاروں اور ہراسگی بلکہ خرآسانی کی خبروں یا پریانکاؤں دیپیکاؤں کی شادیوں کی تصاویر سے دل بہلاتا رہے۔

وجہ ہماری اس بے کاری، بے مزگی اور بیروزگاری کی یہ ہے کہ وہ جو کبھی کبھی سیاسی لیڈروں اور وزیروں شہیروں کی تصاویر دیکھ کر رونے اور تقاریر سن کر ہنسنے کا شغل تھا وہ بھی کوئی تین چار مہینے سے مکرر مکرر مکرر اور سہ کرر ارشاد پر ٹھہرا ہوا ہے۔ وہی تین چار شاعر وہی پرانی غزلیں، اسی پرانے ترنم میں سنا رہے ہیں۔

نیا پاکستان بن اور پرانا دفن ہو چکا ہے۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں اور حسب معمول پھر بعد میں بکریوں کا پتہ نہیں چلتا۔ مطلب یہ کہ کرنے کو کچھ کام نہیں تھا اس لیے ہمارا ٹٹوئے تحقیق بھی مارے فراغت کے دنبہ ہو رہا تھا۔ یہاں وہاں پھر کر ’’ٹٹوئینوں‘‘ کی طرف سے ہراسانی و خرآسانی کا مزے لیتا تھا۔

کہ اچانک یعنی ’’بندہ پریشان اور اللہ مہربان‘‘ کے مصداق ایک بڑا ہی زبردست تحقیقی پراجیکٹ ہاتھ لگ گیا۔ ہمارے ایک پڑوسی کالم نگار کا اللہ اور بھی بھلا کرے کہ انھوں نے سنگاپور کے بارے میں خبر دی کہ وہاں کوئی آدھا آدمی بھی غربت کی لکیر کے نیچے نہیں بلکہ سب کے سب اس کے اوپر سوار ہیں۔ جب کہ اپنے ہاں کے آدھے لوگ غربت کی اس خدا ماری لکیر کے نیچے پس رہے ہیں اور آدھے بھی بس لڑھکے ہوئے ہیں، یوں ہمیں ’’ادھیڑنے اور سینے‘‘ کے لیے اچھا خاصا پجامہ مل گیا۔

بڑی مشکل سے ٹٹوئے تحقیق کو ڈھونڈا، پایا اور جوتا ۔ کیونکہ اسے بھی پاکستانیت یعنی کچھ نہ کرنے کی لت پڑ چکی تھی۔

سب سے پہلے تو ہمارے سامنے یہ سوال تھا کہ غربت کی یہ لکیر کھینچی کس نے ہے، کہاں کھینچی ہے اور پھر اسے ہمارے ملک میں کوئی کہاں سے اور کس راستے یا ذریعے سے لایا۔ بلکہ سب سے بڑا سوال یہ کہ آخر یہ لکیر کھینچی ہی کیوں گئی ہے، اس کے بغیر کون سے کام بند تھے جب یہ لکیر نہیں تھی تب بھی غریبوں کا گزارہ بے لکیری اور صرف فقیری میں ہو جایا کرتا تھا۔

بہر حال ہم تو خوش ہوئے کہ پراجیکٹ مل گیا وہ بھی اتنا قریب اور اتنی آسانی سے۔

نہ جہاں کہیں ’’اماں‘‘ ملی جو ’’اماں‘‘ ملی تو کہاں ملی،

مرے جرم غربت کو ترے ’’خط امیر نواز‘‘ میں

خدا کی شان دیکھیے کہ ادھر ادھر دیکھا تو ایک اورجگہ ہمارے ایک اورپڑوسی نے تو جیسے ہمارا مسٔلہ ہی حل کر دیا تھا۔ غربت کی وجوہات کھوجتے ہوئے انھوں نے بھی اس لکیر کو خوب پیٹا تھا بلکہ اس کا حل بھی ہمارے ہاتھوں میں تھما دیا۔ انھوں اپنے وزیر اعظم عمران خان، معمار نیا پاکستان، نجات دہندۂ کرپشنان اور ختم کنندہ ٔ چوران و لٹیران کے اس نسخہ کیمیا کا ذکر کیا تھا جس میں مرغ بانی انڈہ فروشی اور کٹہ بانی کے اجزا شامل کیے گئے۔ پہلے تو ہمیں تھوڑا سا عش عش کرنے دیجیے کہ اس پر سر دھنتے دھنتے ہم خود ’’دھنئے‘‘ گئے کیونکہ یہ نسخۂ کیمیا کوئی نیا نہیں ہے بلکہ ہماری تاریخ میں ایک آزمودہ اور مجرب نسخہ ہے۔

ایک مشہور و معروف بزرگ جس کا نام نامی اسم گرامی کتابوں اور نوشتوں کے مطابق شیخ چلی تھا۔ اس نے ایک انڈے سے اپنی فارمنگ کی ابتدا کی تھی جو بڑھ کر وسیع و غریض پولٹری فارم بن گیا تھا۔ پھر ساتھ ہی ساتھ اس نے کچھ اور فارم ہاؤس اینڈ کیٹل فارم بھی لانچ کیے تھے اور اس طرح غربت کی لکیر کے اوپر اچھل کر امیری کی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔ ویسے تو اس کی کوئی خاص یا دانستہ غلطی نہیں تھی خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آہی جاتی ہے اوراتنی زیادہ دولت پانے پر خیالات میں فکر مندیاں گھس پڑتی ہیں چنانچہ اس سے بھی بے خیالی میں ایک غلطی سرزد ہو گئی۔ باقی قصہ تو سب کو معلوم ہے اس کا پراجیکٹ بھی پرفیکٹ تھا۔ اور غربت بھی تقریباً ملیا میٹ اور لکیر صفا چٹ ہونے ہی والی تھی اگر بے خیالی میں وہ ذرا جذباتی نہ ہو جاتا۔

چنانچہ ہمیں اس منصوبے کو وہیں سے شروع کرنا ہوگا جہاں اس کا سلسلہ ابھی ٹوٹا نہیں بلکہ پہنچا تھا اور اس غلطی سے بچنا ہے جس کا وہ شکار ہو گیا تھا۔

غربت اور اس کی منحوس لکیر کا تیر بہدف علاج یہ اس لیے ہے کہ ہم نے بھی ایک مرتبہ اس منصوبے کو شروع کیا تھا ہم سے بے خیالی میں غلطی بھی نہیں ہوئی تھی اور پہلے ہی سے ہم محتاط تھے کہ اگر اس مقام پر پہنچ گئے جہاں وہ بزرگ شیخ چلی پہنچے تو اس ’’غلطی‘‘ کا شکار ہر گز نہیں ہوں گے۔ لیکن ہمارے ساتھ ایک خلاف توقع حادثہ ہو گیا تھا۔

یہ بات جو اس بزرگ کے دماغ میں اور ہمارے محترم وزیر اعظم کے ’’ذہن رسا‘‘ میں آئی تھی ہمارے ذہن میں بھی آئی تھی۔ایک پیسہ بھی ہمارے پاس نہیں تھا کہ معروف طریقے سے مرغ بانی صرف ایک جگہ مل گئی جہاں یہ منصوبہ شروع کیا تھا۔ چنانچہ ذہن میں ایک تدبیر آئی جو ہم خلق خدا کی فلاح کے لیے اور وزیر اعظم کی صلاح کے لیے آپ کو بھی بتائے دیتے ہیں۔

گاؤں میں جتنی بھی ہماری خالائیں، پھوپھیاں، نانیاں، دادیاں اور دوسری رشتہ دار یا پڑوسن خواتین تھیں ان میں سے جن جن نے مرغیاں انڈوں پر بٹھائی تھیں۔ ان سب سے چار چار پانچ بلکہ دو دو تین تک ’’چوزے‘‘ ادھار پر لیے اور لگ بھگ پچاس ساٹھ چوزوں سے آغاز کیا۔ کسی نہ کسی طرح چوزے بڑے ہوتے گئے اورہم آیندہ منصوبہ جات کی تفصیلات سوچتے رہے۔ ابھی ایک مرغی نے پہلا انڈیا تھا کہ ہم نہال ہو گئے اور اس خوشی میں دوستوں کے ساتھ فلم دیکھنے چلے گئے، بارہ ایک بجے واپس آئے تودیکھا کہ مرغی خانے میں ایک ’’پر‘‘ بھی نہیں۔ کوئی چور کم بخت پورا پورا صفا کر گیا تھا کیونکہ ہم بھول گئے تھے کہ مرغی خانے کی دیوار چھوٹی تھی اور دنیا میں صرف مرغیاں پالنے والے ہی نہیں بلکہ مرغی چور بھی ہوا کرتے ہیں۔

خیر خلاصہ کلام یہ کہ ہم نے غربت اور اس کی منحوس لکیر کے بارے میں جب اپنی تحقیق مکمل کی تو اس کا نتیجہ نکلا۔ وہ وہی ہے جو حکماء بتاتے ہیں کہ مرض کی شاخوں پتوں کو چھوڑیے جڑوں کو تلاش کیجیے، انڈوں چوزوں وغیرہ کو رہنے دیجیے۔ اس ام الاامراض مرغی کو مار دینا چاہیے جو فساد کی جڑ ہے۔ آپ خود سوچئے کہ غربت نہ ہوتی تو اس کی لکیر کہاں سے آتی۔ اسی لیے اس لکیر کو مٹانے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کے نیچے جو… آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔