کچھ اپنے بچوں کے لیے رہنے دیں !!

شیریں حیدر  اتوار 30 دسمبر 2018
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

نئی حکومت کے آتے ہی جہاں ہمیں اور بہت سی امیدیں تھیں وہیں ہمیں ملک کے وسائل کو بہتر طریقے سے بروئے کار لانے کی کاوشوں سے بہتر مستقبل کا نقشہ نظر آ رہا ہے۔

چند ماہ سے ہمارے ہاں عوام میں ڈیم بنانے کے حوالے سے چندہ جمع کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور ڈیم نہ بننے کی صورت میں مستقبل میں لاحق خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث، پانی اور بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ڈیم بنانا کس قدر اہم ہے اور عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ بھر پور حصہ ڈالیں اور ڈیم کی تعمیر میں حسب استطاعت مالی معاونت بھی کریں۔ ملک میں وسائل کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں اور ہمیں کئی سال سے بجلی اور سوئی گیس کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔

ایک عام آدمی کے لیے یہ مسائل کتنے اہم ہیں، اسے شاید کوئی سمجھ نہ سکے۔ خواتین خانہ کو ان مسائل کا سب سے زیادہ سامنا کرنا ہوتا ہے کیونکہ آج کے دور میں ہر کام بجلی اور گیس کی باقاعدہ اور مکمل فراہمی سے نتھی ہے۔ گھر کو موسموں کے مطابق گرم اور ٹھنڈا کرنا ہو، کھانا پکانا ہو، کپڑے یا برتن دھونے ہوں ، کپڑے استری کرنا ہوں، بچوں کو پڑھانا ہو، مہمانوں کی خاطر داری کرنا پڑے، موٹر چلاکر پانی ٹنکی میں چڑھانا ہو یا اور بھی بہت سے کام۔ ان سب کاموں کا تعلق بجلی اور گیس سے ہے۔

ان سب مسائل سے جب ایک عام عورت کا سامنا ہوتا ہے تو اس کی عمومی صحت بھی متاثر ہوتی ہے کیونکہ یہ چھوٹے چھوٹے مسائل اس کی ذہنی حالت کو خراب کرتے ہیں اور اس کے مزاج کو چڑچڑا۔ خاتون خانہ کے پاس ان کا کوئی حل بھی تو نہیں۔ میںنے خود گزشتہ چند برسوں میں لوگوں کو باورچی خانوں میں گیس کے چولہوں کی بجائے گھر کے صحن میں لکڑیوں کے چولہوں پر کھانا پکاتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایسے ایسے طریقے جو ہمارے ہاں پچاس برس پہلے تک رائج تھے اور اب متروک ہو چکے تھے، بد قسمتی سے ہمیں واپس انھی قدیم طریقوں کی طرف لوٹنا پڑرہا ہے۔ جہاں چار عورتیں بیٹھتی ہیں، ان کا ایک ہی رونا ہوتا ہے۔ یہ مسائل دن بدن گھٹنے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں، کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم ان مسائل کو پیدا ہونے سے کس طرح روک سکتے ہیں۔

آپ نہاتے ہوئے کتنا پانی خرچ کرتے ہیں؟

شیو کرتے ہوئے کتنی دیر تک ٹونٹی بغیر ضرورت کے کھلی رہتی ہے اور پانی ضایع ہوتا رہتا ہے؟

برتن دھو رہے ہوں تو ، برتنوں کو صابن لگاتے ہوئے پانی کا نل کیوں کھلا رہتا ہے؟

کپڑے بلا ضرورت کیوں دھلتے ہیں، اگر آپ کے پہنے ہوئے کپڑے کو کوئی داغ نہیں لگ گیا یا حالیہ موسم میں جب کہ پسینہ وغیرہ بھی نہیں آتا تو خواہ مخواہ ہر کپڑا اتار کر دھونے کے لیے کیوں پھینک دیتے ہیں؟

کیا ہر روز آپ کی گاڑی اور گھر کے بیرونی صحنوں کا دھلنا ضروری ہے؟غسل خانے کی صفائی کرتے ہیں تو کتنی بار بے مقصد فلش میں پانی بہاتے ہیں؟ جب آپ کسی کمرے میں جاتے ہیں تو یکمشت کتنی بتیاں آن کرتے ہیں، آپ کمرے سے باہر نکلتے وقت بتی بند کرتے ہیں؟

کیا آپ چیک کرتے ہیں کہ پانی کا گیزر، ہیٹر، اے سی، پنکھے، استری مائیکرو ویو اوردیگر بجلی سے چلنے والی مشینیں کس حد تک بلا ضرورت چلتی رہتی ہیں؟کیا آپ اپنے مالی کو پودوں کوپانی دیتے اور ڈرائیور کو گاڑی دھوتے ہوئے، پائپ لگا کر بے بہا پانی ضایع کرنے سے منع کرتے ہیں؟ کیا آپ اپنے بچو ں کو بتاتے ہیں کہ قدرتی وسائل ہمارے لیے اللہ تعالی کا انعام ہیں ؟ گراں مایہ نعمتیں ہیں، ان کی قدر نہیں کریں گے اور انھیں احتیاط سے استعمال نہیں کریں گے تو یہ ناپید ہو سکتی ہیں۔

اس وقت صرف ہمارے ملک کے علاوہ دنیا کے کئی ملکوں میں پانی کی کمی ایک ایسا سنجیدہ مسئلہ بنتا جا رہی ہے کہ جس کی سنگینی کو ہم اس وقت محسوس نہیں کر رہے۔ دنیاکی رنگا رنگی ایسی ہے کہ کہیں کوئی یہ سب کچھ کر رہا ہے جو میں نے اوپر بیان کیا ہے اور کہیں کوئی پانی کی ایک ایک بوند کو ترستا ہے۔ عورتیں میلوں کا فاصلہ طے کر کے ڈھونڈ ڈھانڈ کر اتنا پانی گھر تک ڈھو سکتی ہیں کہ اسے گھر کے تمام افراد ترس ترس کر دن بھر کی فقط پینے اور کھانا بنانے کی ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔ اتنے مہنگے پانی سے وہ اور کوئی ’’ عیاشی‘‘ کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

ہمارا عمومی رویہ اور سوچ بہت ظالمانہ ہے۔ ہم سوچتے اور کہتے ہیں کہ کیا ہم پانی کم استعمال کریں گے تو وہی پانی کل کلاں کو ہمارے بچے استعمال کریں گے؟ کیا ہماری بچائی ہوئی بجلی اور گیس سے ہمارے بچوں کی ضروریات پوری ہوں گی؟ کیا صرف میرے بے مقصد جلتا ہوا چولہا یا گیزر بند کرنے سے، فالتو بتیاں بجھانے سے، کم پانی استعمال کرنے سے… کوئی خاص فرق پڑ جائے گا؟ یہ رویہ بہت خطرناک ہے کیونکہ ہم سب کا یہی رویہ ہے اور اسی وجہ سے نہ ہم خود ان وسائل کو احتیاط سے استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں۔ یقین کریں کہ آپ کے گھر میں کسی نل سے خرابی کے باعث ٹپکنے والا ایک ایک قطرہ کسی کی زندگی کے لیے اہم ہو سکتا ہے۔ ایک محتاط سا اندازہ میں آپ سے شئیر کرتی ہوں۔

اگر آپ کے ہاں کسی نل سے ایک سیکنڈ میں ایک قطرہ بہہ کر ضایع ہو رہا ہے تو ایک دن میں 4.3 لٹر اور ایک ماہ میں130لٹر پانی نالیوں میں بہہ جاتا ہے۔ اگر ایک سیکنڈ میں دو قطرے پانی گرتا ہو تو ایک دن میں 14 لٹر اور ایک ماہ میں380 لٹر پانی بہہ کر ضایع ہو جاتا ہے۔اگر پانی قطروں کی صورت تواتر سے گر رہا ہو تو ایک دن میں 91 لٹر اور ایک ماہ میں2650 لٹر پانی بغیر کسی کی ضرورت پوری کیے ضایع ہو جاتا ہے۔ اگر ڈیڑھ ملی میٹر کی موٹائی کی مسلسل دھار بہہ رہی ہو تو ایک دن میں 320 لٹر اور ایک ماہ میں9460 لٹر پانی ضایع ہو جاتا ہے۔اگر دو ملی میٹر موٹائی کی دھار بہہ رہی ہوتو ایک دن میں 980 لٹر اور اور ایک ماہ میں29520 لٹر پانی بہہ کر ضایع ہو جاتا ہے۔

یہ کتنا بڑا نقصان ہے، اس کا اندازہ کرلیں۔ جب بھی آپ کے گھر میں کوئی ٹونٹی یا نل لیک ہونا شروع ہو تو اس کی فوری مرمت کروائیں اور جب تک اس کی مرمت نہیں ہوتی تب تک بھی اس سے ہر بہنے والا قطرہ محفوظ کر لیں اور اسے کسی استعمال میںلائیں۔ جب آپ کے بچے یا آپ خود بھی نہانے کے لیے جاتے ہیں، پانی کھول کر بہاتے ہیں، جب تک نل میں گرم پانی نہیںآتا۔ اس طرح ہم کئی لٹر پانی بہا کر ضایع کر دیتے ہیں۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ آپ اس ٹھنڈے پانی کو بہا کر ضایع کرنے کی بجائے بالٹیوں اور ٹب میں محفوظ کر لیں اور گھر کے باقی کام کار میں استعمال کریں ، خواہ وہ برتنوں یا کپڑوں کی دھلائی ہو یا گاڑیوں کی۔ اس کے علاوہ پودوں کو دینے کے لیے بھی یہ پانی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

وسائل اللہ تعالی کے عطا کردہ ہیں، ان کی قدر کریں، ان کے لیے اس کے شکر گزار ہوں اور ان کی قدر یہی ہے کہ ان کا استعمال احتیاط سے کیا جائے اور ان کا تشکر یہی ہے کہ انھیں ہم ناپ تول کر استعمال کریں۔ اللہ کرے کہ ہم نے عزم کیا ہے تو ڈیم بن جائے اور ہمارے مسائل کا بہتر حل نکل آئے۔ مگر نئے ڈیم بن جانے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوسکے گا جب تک کہ ہم اپنے انداز اور سوچ کو نہیں بدلیں گے او ر دوسروں پر انگلیاں اٹھانے اور تنقید کرنے کی بجائے سب سے پہلے اپنے آپ کو چیک کریں۔ آج سے عہد کریں اور پانی، بجلی اور گیس بچائیں… اپنے بچوں اور ان کے بچوں کے لیے۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارے بچوں کے بچے ترقی کی راہ پر آگے جانے کی بجائے ریورس گئیر میں چلنے لگیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔