روشنی کا نعرہ (آخری حصہ)

نسیم انجم  اتوار 30 دسمبر 2018
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

احد کا پہاڑ اپنی شان و وقار کے ساتھ دور تک پھیلا ہوا ہے، ایک بار اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ اس پر تشریف فرما تھے کہ اسی وقت ایک لرزہ سا پیدا ہوا۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ’’ٹھہر جا، تجھ پر ایک نبی، ایک شہید اور ایک صدیق موجود ہیں۔‘‘ جبل احد کی ایک تاریخ ہے 3 ہجری میں جنگ احد ہوئی اسی جنگ میں سید الشہدا حضرت امیر حمزہؓ شہید ہوئے جو آپؐ کے چچا تھے، اس جنگ کا ہونا بھی بدرکے شکست خوردہ اور مقتولین کے ورثا کے انتقام کا نتیجہ تھا۔

جبل احد ہمیں تاریخ یاد دلا رہا تھا اور ہمارے گائیڈ جن کا نام اظہار الحق تھا، وہ استاد تھے اور وہ بھی عربی زبان کے بڑے فصاحت و بلاغت کے ساتھ عربی پڑھتے اور پھر اس کا ترجمہ کرتے۔ ان کا تعلق آزاد کشمیر سے تھا۔ صحابہ کرام سے مشورے کے بعد حضرت محمد ﷺ ایک ہزار مسلمانوں کے ساتھ احد کی جانب (جہاں مشرکین مکہ خیمہ زن تھے) بڑھے لیکن اسی وقت عبداللہ بن منافق نے منافقت کا مظاہرہ کیا اور اپنے تین سو سواروں کو لے کر واپس چلا گیا، اس طرح مسلمانوں کی تعداد سات سو رہ گئی۔ احد پہنچ کر پہاڑ کی پشت پر صف آرائی ہوئی، پہاڑکی پشت سے مشرکین کے حملے کا خطرہ تھا، اسی لیے رسول پاک ﷺ نے پچاس صحابہ کرامؓ عنہم کا دستہ متعین کردیا اور تاکید کردی کہ فتح و شکست دونوں صورتوں میں اس جگہ سے نہ ہٹا جائے جنگ زوروں پر جاری تھی، قریش بڑی شجاعت سے لڑ رہے تھے۔

ان کے علم بردار پیہم قتل ہو رہے تھے لیکن علم سر نگوں نہیں ہونے پایا تھا مگر اسی دوران حضرت علیؓ اور ابو دجانہ انصاریؓ کے بے پناہ حملوں نے آخر میں کفار کے پاؤں اکھاڑ دیے اس شکست کے بعد مسلمان مال غنیمت کی طرف متوجہ ہو گئے۔ پہاڑ کی پشت پر جو دستہ متعین تھا اس نے بھی اپنی جگہ چھوڑ دی دستے کے ہٹتے ہی  خالد بن ولید نے جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے حملہ کر دیا۔ اسی جنگ میں یہ خبر بھی گشت کرنے لگی کہ (اللہ نہ کرے) اللہ کے نبی ﷺ شہید ہوگئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت مصعب بن عمیر آنحضرت ﷺ سے مشابہت رکھتے تھے، یہ افواہ پھیلتے ہی صحابہ کرامؓ کی ہمت جواب دے گئی لیکن اللہ کے کرم سے بہت جلد یہ حقیقت بھی باد بہاراں کی طرح سامنے آگئی کہ آپ ﷺ بالکل خیریت سے ہیں۔

اس جنگ میں آپ ﷺ کی حفاظت کے لیے قبیلہ انصار کے سات صحابی ڈھال بن کر آپؐ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔ جنگ احد میں ہی ابو سفیان کی بیوہ ہندہ حضرت حمزہؓ کا کلیجہ نکال کر چبا گئی تھی لیکن جب فتح مکہ ہوتا ہے، تب اسی عورت کو حضور پاک ﷺ معاف فرما دیتے ہیں، ایسی مثال ایسا کردار اعلیٰ و ارفع ایسا اخلاق دنیا کی کسی تاریخ میں کسی رہبر یا رہنما کا نظر نہیں آتا ہے کہ کسی بھی بادشاہ وقت نے اپنے انتقام کو اپنے اخلاق و سلوک اور انسانیت پر قربان کردیا ہو۔ جنگ احد وہ جنگ تھی جو ذرا سی غلطی کے تحت ہار میں بدلنے والی تھی لیکن جب مسلمانوں کے حوصلے دوبارہ سے بلند ہوگئے تب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی ﷺ کے قدموں میں فتح کے مہکتے پھول بکھیر دیے۔

مکہ و مدینہ وہ پاکیزہ اور معطر خطے میں جہاں کی ہر شے سے عقیدت اور محبت ایک فطری سا جذبہ ہوتا ہے، جس وقت ہم شہر مدینہ کی طرف سفر کر رہے تھے تو ہمارے احساس نے عقیدت کی ردا اوڑھ لی تھی۔ دل مسرور اور ایمان سے منور تھا، رسول پاکؐ کی محبت سے سرشار تھا، اور تاریخ اسلام کے روشن صفحات نگاہوں کے سامنے آکر ٹھہر گئے تھے، رسول پاکؐ کی مدینہ ہجرت اور اس کے سبب پیدا ہونیوالے مسائل اور ان کا حل۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ غار ثور 3 دن تک کے لیے پناہ گاہ بنا، کفار مکہ کے تعاقب کے باوجود سفر جاری رہتا ہے اور مدینے کے مسلمانوں کی بے چینی اور انتظار آخرکار ختم ہوتا ہے، ہر شخص اپنی میزبانی کے لیے کوشاں ہے لیکن بات اونٹنی پر آجاتی ہے، اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ میری اونٹنی خدا کی طرف سے مامور ہے، وہ جہاں جاکر اپنے سفر کا اختتام کرے گی وہی میری قیام گاہ ہوگی، یہ سعادت اور دولت حضرت ایوب انصاریؓ کے حصے میں آئی۔ ادھر ہی سے مدنی دور شروع ہوجاتا ہے.

ہمارے سامنے مدینہ ہے، جس کا نام رسول پاکؐ نے مدینہ طیبہ رکھا، آپؐ نے فرمایا کہ جو مدینے کی زیارت کرے گا اس کو حج کا ثواب ملے گا۔ حضرت عمرؓ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ ’’اے اللہ مجھے مدینے کی زندگی ملے اور مدینے میں ہی موت اور مجھے شہادت نصیب ہو۔‘‘ خاک شفا کا میدان بھی تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ جب اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تھے تو اس شہرکو بیماریوں کا شہرکیا جاتا تھا لیکن آپؐ کی آمد کے بعد حالات بدل گئے اور مدینہ میں خیر و برکت اور فراوانی رزق نے جگہ لے لی، ہمیں اظہار صاحب نے خاک شفا کا میدان دکھایا کہ یہ وہ خاک ہے، جسے بیمار خصوصاً کوڑھ کے مریض اپنے بدن پر مل لیتے تھے، اس خاک میں حضور پاکؐ کا لعاب دہن بھی شامل ہوتا۔ یہ مٹی مرض کے خاتمے کا سبب بنتی، انھی راستوں پر مدرسہ ’’القصوا‘‘ بھی واقع تھا۔

مدرسے کا نام اس اونٹنی کے نام پر رکھا گیا تھا جس پر بیٹھ کر جنگیں لڑی گئی تھیں۔ الحمدللہ مسجد ’’قبا‘‘ میں نماز پڑھنے کا موقع بھی ملا، یہ مہربانی ٹیکسی ڈرائیور اظہار کی تھی جنھوں نے تمام اسلامی تاریخی جگہوں کا مکمل تعارف کرایا تھا۔ بیر عثمانؓ (کنویں کا نام) سے ہمیں پانی پینا نصیب ہوا یہ کنواں حضرت عثمانؓ نے خریدا تھا اور آج تک اس کا پانی موجود ہے۔

زائرین کے لیے کولر میں پانی بھردیا جاتا ہے۔مسجد ’’قبا‘‘ مدینہ منورہ کی وہ مسجد تھی جسے آنحضرت ﷺ  نے چند صحابیوں کے ساتھ مل کر اپنے دست مبارک سے تعمیر فرمایا اور اسے اسلام کی پہلی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے جو شخص اچھی طرح وضو کرکے مسجد قبا میں جاکر دو رکعت نماز ادا کرے گا اس کو عمرہ کا ثواب ملے گا۔ مسجد ’’قبلتین‘‘ وہ خاص الخاص مسجد ہے جہاں اللہ نے تحویل قبلہ کا حکم دیا تھا، چونکہ اس سے قبل یہودی حضرت محمد ﷺ کو طعنہ دیا کرتے تھے کہ جب آپ کی ہر چیز الگ ہے تو پھر قبلہ بھی الگ ہونا چاہیے۔

اللہ کے پیارے نبیؐ اکثر ان کی اس بات پر آسمان کی طرف دیکھتے، تحویل قبلہ کے وقت رسول اللہ ﷺ اس مقام پر ظہر کی نماز پڑھا رہے تھے، جب دو رکعتیں پڑھا چکے تو وحی نازل ہوئی کہ مسجد حرام کو اپنا قبلہ بنالیں، چنانچہ رسول اللہؐ نے نماز کی حالت میں بیت المقدس کی جانب سے اپنا رخ پھیر کر بیت اللہ کی جانب کردیا اور بقیہ دو رکعتیں مسجد حرام کی طرف رخ کرکے پڑھائیں۔ اس کا ذکر قرآن پاک کی سورہ بقرہ 144 میں آیا ہے۔ تحویل قبلہ کی آیت مسجد کی محراب پر درج ہے۔

مسجد ’’قبا‘‘ سے کچھ فاصلے پر مدینہ منورہ آباد ہے۔ جب آپؐ نے ہجرت فرمائی تو وہ جمعے کا دن تھا آپؐ خوف و پریشانی میں پہنچے تھے کہ اسی دوران جمعے کی نماز کا وقت ہوگیا۔ آپؐ نے نماز جمعہ ادا فرمائی، جس جگہ نماز پڑھی گئی تھی، وہاں مسجد بنا دی گئی ہے جو مسجد ’’جمعہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے اس میں بھی اللہ کے کرم سے دو نفل نماز ادا کی۔ مسجد غمامہ ہمارے ہوٹل اور مسجد نبوی سے بہت قریب تھی اس مسجد میں پہلی دفعہ حضور اقدس ﷺ نے 2 ہجری میں عید کی نماز ادا فرمائی اور نویں صدی ہجری تک عیدین کی نمازیں یہاں پڑھی جاتی رہیں۔ اسی مسجد میں حضرت محمد ﷺ نے نماز استسقاء بھی پڑھائی تھی اسی وقت بادل نمودار ہوئے اور بارش شروع ہوگئی۔ اس کا نام اس کی وجہ سے ’’غمامہ‘‘ پڑا، عربی زبان میں غمامہ کا مطلب ’’بادل‘‘ ہے۔

روضہ اقدس پر جس وقت حاضری کا وقت آیا، دل خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا، کس منہ سے جاؤں؟ ساری عمر اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے احکامات کی نافرمانی میں گزری، لیکن جب اللہ کی نظر کرم ہو ہی گئی تو دل کو سنبھالا اور کانپتے وجود کو دعاؤں اور استغفار کے ورد نے اس قابل کردیا کہ اپنے پیروں پر کھڑا رہا جا سکے۔ وہ بھی کیا منظر تھا جب جالی نما کئی گیٹ ہمارے سامنے تھے، بے شمار عاشقین رسول اللہ ﷺ تھے بڑے انتظار کے بعد گیٹ کھلا اور بے قرار و بے چین مختلف ممالک سے آئی ہوئی خواتین دوڑتی چلی گئیں۔

ہر شخص کی خواہش تھی کہ وہ ریاض الجنۃ میں دو نفل ضرور ادا کرے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ جو جگہ میرے گھر اور منبر کے درمیان ہے وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ یعنی یہ جگہ حقیقت میں جنت کا ایک ٹکڑا ہے جو اس دنیا میں منتقل کیا گیا ہے۔ منبر رسول اللہ ﷺ اور حجرہ مبارکؐ کے درمیان کا حصہ ریاض الجنۃ کہلاتا ہے۔ اللہ رب العزت کا مجھ خطاکار پر بڑا کرم تھا کہ مجھے کئی با ریاض الجنۃ میں نماز پڑھنے کا موقعہ ملا۔ ہم نے عقیدت و محبت کے ساتھ حضور اقدس ﷺ اور پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کی خدمت میں سلام پیش کیا اور اپنے رب سے بے شمار دعائیں کیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔