جدید ہاکی؛ پاکستان دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا

عباس رضا  اتوار 30 دسمبر 2018
اولمپئن شہناز شیخ کی ’’ایکسپریس‘‘ کے لیے خصوصی تحریر

اولمپئن شہناز شیخ کی ’’ایکسپریس‘‘ کے لیے خصوصی تحریر

بھارت کے شہر بھونیشور میں کھیلے گئے 14ویں ہاکی ورلڈ کپ میں بیلجیم نے سخت مقابلے کے بعد ہالینڈ کو پنالٹی شوٹ آؤٹ پر شکست دے کر پہلی بار عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

برانز میڈل کے لئے آسٹریلیا نے انگلینڈ کو زیر کرکے تیسری پوزیشن حاصل کی،گرین شرٹس کی کارکردگی مایوس کن رہی لیکن پاکستان کا 4 مرتبہ ورلڈ کپ جیتنے کا ریکارڈ قائم رہا، اگر ہالینڈ کی ٹیم فائنل جیت جاتی تو وہ بھی پاکستان ہاکی کا 4 مرتبہ جیتنے کا ریکارڈ برابر کر دیتی۔

اس ورلڈ کپ کی خاص بات یہ ہے کہ نئے فارمیٹ اور 16 ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہوا جن کو 4مختلف گروپس میں تقسیم کیا گیا، اس کے برعکس گزشتہ ورلڈ کپ کے دوران 12 ٹیمیں حصہ لیتی رہیں، ایف آئی ایچ کی طرف سے ملنے والی اس رعایت کی وجہ سے پاکستان سمیت دوسرے درجے کی ٹیمیں بھی میگا ایونٹ کے لئے کوالیفائی کرنے میں کامیاب رہیں۔اگر ماضی کی طرح اس بار بھی ٹیموں کی تعداد 12 ہی رہتی تو 2014 کے ورلڈ کپ کی طرح اس بار بھی گرین شرٹس عالمی کپ میں شرکت نہ کرپاتے، علاوہ ازیں اس ورلڈ کپ کے فارمیٹ میں تبدیلی کر کے کراس اوور کے ذریعے ٹیموں کو آگے آنے کے بھی زیادہ مواقع فراہم کئے گئے لیکن افسوس صد افسوس پاکستانی ٹیم اس سے بھی فائدہ نہ اٹھا سکی اور پورے ٹورنامنٹ کے دوران صرف 2گول  ہی کر سکی اور اس کے خلاف 12 گولز ہوئے۔

اس طرح پاکستان نے جاپان میں شیڈول 2020 اولمپک گیمز تک براہ راست رسائی کے 2 سنہری مواقع ضائع کئے اور اب پاکستان کے پاس اولمپکس میں جگہ بنانے کا صرف ایک ہی موقع رہ گیا ہے۔ پاکستان ہاکی ٹیم کی خراب کارکردگی گزشتہ 3سال کی غیر معیاری اور ناقص حکمت عملی کا نتیجہ ہے، کامن ویلتھ گیمز، ورلڈ لیگ، چیمپئنز ٹرافی، ایشیا کپ، ایشین گیمز، ایشین چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹس میں ٹیم کی کارکردگی خراب ہونے کی بہت ساری وجوہات میں ایک وجہ ٹیم مینجمنٹ اور سلیکشن کمیٹیوں کا بار بار تبدیل کرنابھی ہے، بڑے دکھ اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ پی ایچ ایف کی موجودہ انتظامیہ کے دور میں5مرتبہ ٹیم مینجمنٹ اور 2سلیکشن کمیٹیوں کو تبدیل کیا گیا، اس کے علاوہ ڈیلی الاؤنس نہ ملنے پر کھلاڑیوں کی بغاوت اور ٹیم مینجمنٹ کے آپس میں اختلافات یہ وہ عوامل ہیں جو ورلڈ کپ2018ء میں قومی ٹیم کی شرمناک کارکردگی کا سبب بنے۔ پاکستانی ٹیم نے ان 3برسوں کے دوران تقریبا 52 میچز کھیلے، جس میں سے15 جیتے، 28 ہارے اور 9 برابری کی سطح پر ختم ہوئے۔

ماسوائے ایشین چیمپئن ٹرافی جو کہ ایک ریجنل ٹورنامنٹ ہے، باقی تمام ٹورنامنٹ میں ٹیم کی پرفارمنس نچلے درجے کی رہی، اب پاکستان ہاکی فیڈریشن نے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے جو ٹیم کی خراب کارکردگی کا جائزہ لے کر حقائق مرتب کرے گی، میرے خیال میں پوری قوم ورلڈ کپ کے میچز ٹی وی پر دیکھ چکی ہے، اس کے بعد انکوائری کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی جبکہ ٹیم مینجمنٹ نے استعفیٰ بھی دے دیا ہے ، لیکن توجہ طلب حقیقت یہ ہے کہ فیڈریشن کسٹوڈین ہوتی ہے اور یہی سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ کا انتخاب کرتی ہے ، اس لئے ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی ورلڈکپ سمیت ماضی کے انٹرنیشنل ٹورنامنٹس میں مایوس کن کارکردگی کے جتنے ذمہ دار کھلاڑی، ٹیم مینجمنٹ اور سلیکشن کمیٹی ہے، اس سے بھی زیادہ پی ایچ ایف حکام بھی ہیں۔

میرا زندگی کا بڑا حصہ ہاکی کے عالمی میدانوں میں گزرا ہے، دنیا بھر میں اپنے کھیل کے ذریعے سبز ہلالی پرچم لہرانے کے ساتھ قومی ٹیم کے ساتھ بھی گاہے بگاہے ذمہ داریاں انجام دیں، اپنی اسی تجربے کی روشنی میں جدید ہاکی اور ورلڈ کپ کے بارے میں ضرور روشنی ڈالنا چاہوں گا۔ ورلڈکپ 2018ء کے دوران مجموعی طور پر 157 گولز ہوئے جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کھیل کی رفتار اور ہاکی کتنی اٹیکنگ ہو گئی ہے، اب اس رفتار کو ہینڈل کرنے کے لئے کھلاڑی اور ٹیم مینجمنٹ کی رفتار میں بھی اتنی ہی ہونی چاہیے، یعنی پہلے اس رفتار کو محسوس کیا جائے اور پھر اس پر عمل درآمد کے لئے بھر پور پلاننگ کی جائے، مصنوعی گھاس اور فائبر سٹک سے لے کر ہاکی گیمز اور رولز نے کھیل میں بجلی کی سی تیزی پیدا کر دی ہے۔

آپ اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ پرانی ہاکی میں گیند کھلاڑی کے حکم کی محتاج تھی لیکن جدید ہاکی میں پلیئرزگیند کے تابع ہیں، اس طرح بینج کی طاقت کا پلیئنگ سٹرینتھ کے ساتھ مناسب تال میل اچھے نتائج کا پیش خیمہ ہوتا ہے یعنی جہاں اچھا کھلاڑی ضروری ہے وہاں کھلانا اس سے بھی زیادہ اہم ہے، ہاکی کے یہ جدید تقاضے اور ورلڈ کپ کے دوران بھی دیکھنے میں آئے ، ساٹھ منٹ کے کھیل میں جس ٹیم نے بھی تھوڑی سی سستی دکھائی، مخالف سائیڈ نے اس کا حشر نشر کرکے رکھ دیا، عالمی کپ کے دوران جس طرح براؤنز میڈل کے میچ میں آسٹریلیا نے انگلینڈ کو ایک کے مقابلے میں آٹھ گولز سے زیر کیا.

اسی طرح ملائیشیا کا ہالینڈ اور پاکستان کا بیلجیم کے خلاف بڑے مارجن سے شکست سے دو چار ہونا اس کی واضح مثالیں ہیں، ورلڈ کپ کے دوران اگر ہم پاکستان ٹیم کی پرفارمنس کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیں تو ٹیم میں بڑی خامیوں کی نشاندہی ہوتی ہے، پاکستان ٹیم نے صرف دو بار گیند کو جال کا راستہ دکھایاجبکہ اس کے خلاف12 گولز ہوئے۔اس کے علاوہ لاتعداد کاؤنٹر اٹیک، کیونکہ میرے خیال میں یہ فارمیٹ میگا سٹار کے پائے کے کھلاڑیوں کے لئے مناسب ہے جو ایک یا دو کھلاڑیوں کو بیٹ کرنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں کرتے، جیسے ماضی کے کھلاڑی لیکن معذرت کے ساتھ موجودہ کھلاڑیوں میں کوالٹی ہی موجود نہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا گرین شرٹس اولمپک 2020ء تک رسائی حاصل کر سکیں گے یا نہیں، جبکہ موجودہ ٹیم میں کچھ کھلاڑی کیریئر کے اختتامی لمحات کے قریب پہنچ چکے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ اس تھوڑے سے عرصے میں آپ ایسی ٹیم تیار کر سکتے ہیں جو میگا ایونٹ کے لئے کوالیفائی مرحلے کو عبور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو اور یہ کہ ہمارے پاس بیک اپ میں پول آف پلیئرز بھی موجود ہیں جو بڑے کھلاڑی کی جگہ کو پر کرسکیں۔

یہ ملین ڈالر کا سوال ہے جس کا جواب صرف فیڈریشن کے پاس ہو سکتا ہے ، ڈومیسٹک ٹورنامنٹ میں ایسا کوئی کھلاڑی نظر نہیں آتا جو جلد ہی اپنے سینئر کی جگہ لے سکے، مجھے افسوس اس بات کا بھی ہے کہ اگر فیڈریشن نے کچھ اکیڈمیاں بنائی ہوتیں، تو شاید مناسب کھلاڑی نکل آتے ، وزیراعظم پاکستان عمران خان جو پی ایچ ایف کے پیٹرن انچیف بھی ہیں سے یہ ضرور کہوں گا کہ قومی کھیل کی توقیر کے لئے ہنگامی سطح پر اقدامات کئے جائیں،فیڈریشن کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے اہل افراد کو آگے لایا جائے، اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے گئے تو پاکستان ناکامیوں کے بھنور سے کبھی باہر نہیں آسکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔