2018 کیسا گزرا؟ ایک اجمالی جائزہ

سائرس خلیل  منگل 1 جنوری 2019
2018 نے خطے میں موجود ہر شکل کو نئی اور جدید شکل میں بدلا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

2018 نے خطے میں موجود ہر شکل کو نئی اور جدید شکل میں بدلا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

مادے میں موجود تبدیلی کا جوہر ہی مادے کو بہتر سے بہترتر بناتا ہے۔ کائنات میں ہر لمحہ ہر چیز گزرتے وقت کے ساتھ اپنی سابقہ شکل سے بہتر اور نئی شکل میں ڈھلتی رہتی ہے۔ مادے میں موجود تبدیلی کی خصوصیت کے علم نے ہی سماجی تبدیلی کے جوہر کو تلاشہ۔ پرانے کے خاتمے اور نئے کے جنم نے ہر لمحہ دنیا کو پہلے کی نسبت بہتر اور جدید پایا۔ کمزور کو طاقتور اور طاقتور کو کمزوری کی راہوں پر گامزن پایا۔

یورپ میں کلیساء زندگی و موت کا مالک سمجھا جاتا تھا مگر حرکت کے عمل نے آج اس کو سائنس کے طالب علم کی تحقیق پر تعلیمات بدلنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ اسی طرح ہند کا برہمن ایک وقت میں کلیساء کی طرح تعلیم کو اپنی پرت سے باہر جرم سمجھتا تھا، مگر آج انتخاب ہی انسانی برابری اور تعلیم کا نعرہ لگا کر لڑنے پر مجبور ہے۔ وہ مُلّا جو پرنٹر اور لاؤڈ اسپیکر پر فتویٰ لگاتے تھے، آج وہی سائنس کو لازم قرار دے رہے ہیں۔ وہ عرب جہاں عورت کو ایک جاگیر سمجھاجاتا تھا، آج اس کو تمام برابری کے حقوق دینے پر مجبور ہے۔

ماضی کی موجود طاقت کی کوئی بھی شکل دیکھیے، سب کی سب کمزوری کی طرف گامزن ہیں۔ جہاں طاقتور بنا سوچے اپنی خواہش پوری کیا کرتا تھا، آج ہر جگہ مزاحمت اور حقوق کی لڑائی کے آگے بے بس نظر آتا ہے۔

آج ہم سرمایہ دار بحرانی دور میں رہ رہے ہیں جہاں سامراجیت اپنی چھوٹی چھوٹی قومی تحریکوں کے آگے جھکتی اور کمزور ہوتی جارہی ہے۔ ایک وقت میں سامراجی سرمایہ داری برصغیر کو اپنی کالونی بنانے کے فیصلے پر ایک لمحے کے لیے بھی سوچنا گوارا نہیں کرتا تھا، آج وہی سامراجی قوتیں قومی آزادی کی جمہوری سوچوں کے سامنے سرنگوں ہوتی دکھائی دیتی ہیں اور نئی بنتی ہوئی قومی ریاستوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔

2018 نے خطے میں موجود ہر شکل کو نئی اور جدید شکل میں بدلا ہے۔ اچھل کود، حرکت و بدلاؤ کی کیفیتوں سے گزر کر سماجی سرگرمیاں اور تحریکیں منطقی انجام کی طرف گامزن رہیں۔ یہ سال ایک دہائی میں پکنے والی تحریکوں کے اظہار کا سال تھا۔ رجعت و ترقی کی جنگ میں حرکت نے اپنی فتح کو عمل میں ثابت کیا ہے۔ سرمایہ داری کی ٹوٹ پھوٹ کے عہد میں اس سال نے بین الاقوامی سطح پر سامراجی شکلوں کوشکست دی ہے۔ امریکہ سے یورپ، یورپ سے عرب، عرب سے بھارت، بھارت سے امریکہ تک پوری دنیا کو ایک نئی عوامی انگڑائی نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ امریکہ جیسے ملک کو سوشلزم کے خلاف ریاستی مشینری کے استعمال نے اپنے شہریوں میں زبردست پروپیگنڈہ کروانے کے عمل نے سامراجیت کے اندرونی کھوکھلے پن اور اندرونی تضادات کی معیاری تبدیلی نے اس سال کو اہم ترین سال ثابت کیا۔

امریکہ جیسے سیکولر اور خود کو مادیت پرست کہلوانے والوں نے مذہب کے نام پر سرمایہ داری کی حمایت کرنے پر اس کے نام نہاد اعلانات کی دھجیاں اڑا کے رکھ دیں۔ لبرل ازم اور نیو سرمایہ دارانہ پالیسیاں زبردست طریقے سے فلاپ رہیں۔ عوام کی زندگیاں بہتری کی نسبت مزید پستی کی طرف گامزن رہیں۔ مجموعی طور پر کروڑوں لوگوں کی صورت بیروزگاروں میں اضافہ رہا۔

نیپال کی حکومت نے سرمایہ دارانہ جمہوریت کے بطن سے ہی قومی جمہوری حکومت کا قیام عمل میں لا کر سوشلزم کی تعمیر کے سفر کا آغاز کیا جو واضح طور پر سماجی ہلچل کا ثبوت ہے۔

اس سال کمیونسٹ پارٹی آف چین نے شی چنگ پنگ کو تاحیات صدر منتخب کیا۔ یہ چین کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ شی چنگ پنگ کی تقریر کو ریاستی پالیسی بنایا گیا جو عوامی جمہوریہ چین میں ماؤزے تنگ اور ڈینگ کے بعد تیسرے فرد کی حیثیت اختیار کرگئے جن کی تقریر کو ریاستی پالیسی بنایا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف چین نے 2030 کے بعد چین میں سوشلزم کے بلوغت کی جانب جانے کا بھی اعلان کیا۔ چین کی حکومت اعلانات اور قراردادوں کے باعث دنیا میں ایک سامراجی چہرے کی جھلک بھی نظر آ رہی ہے جس کے خلاف وہاں کے محنت کشوں کی ایک مضبوط آواز اٹھتی نظر آ رہی ہے جو کل کو ایک بہترین منزل کی جانب گامزن ہوگی۔

سرمایہ داری کی اعلیٰ ترین شکل امریکہ جو ہر ملک پر اپنی مرضی سے چڑھ دوڑتا تھا، اقتدار کے فوراً بعد ٹرمپ ٹویٹ کیا کرتا تھا کہ شمالی کوریا کو تباہ کیا جائے؛ مگر وہی ٹرمپ شمالی کوریا کو دعوت دے کر فیصلے کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اس سال شمالی کوریا کی حکمت عملی کے سامنے تقریباً اکثریت ممالک اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے جن میں امریکہ، جنوبی کوریا وغیرہ شامل ہیں۔

یہ سال جاگیرداروں کی موت کی شروعات، یعنی فرانس میں بھی بڑی تحریکوں کے اظہار کا سال رہا جس میں مزدور طبقے کی بڑی تعداد نے احتجاج کرکے نظام سے تنگی کا اظہار کیا۔ عالمی سرمایہ داری کی بحرانی کیفیتیں مزید گہری ہوتی دکھائی دیں ہیں۔ یورپ بھی بہت سی شہری سہولتوں میں کمی کرتے دکھائی دیا، اسی طرح روس میں موجود پیوٹن کی سربراہی میں بورژوازی کے خلاف ایک عظیم اسٹالن کی تصاویر اٹھائے مزدور تحریکیں چلاتے نظر آئے۔ روس، امریکہ فرانس و آسٹریلیا میں سوشلزم کی آواز بڑے خوفناک انداز میں سنائی دی جس کا ربط نظام کے بحران کے ساتھ جڑتا ہے؛ اور جس کا حل اب نظام کی تبدیلی کے ساتھ جڑ کر رہ چکا ہے۔

ہندوستان میں طلبہ تحریک کے بعد تاریخ کے سب سے بڑے احتجاج ریکارڈ کروائے گئے اور نظام سے نجات کا مطالبہ کیا گیا۔ کشمیر کی تحریک پر ہندوستانی ریاست کے جبر کی بے بسی اور کشمیری مزاحمت کل کو کشمیر میں آزادی کے سورج کی امید ہے۔ کشمیر میں ہندوستانی ریاستی جبر پر طلبہ کا مزاحمت کا راستہ اختیار کرنا، تمام اسکول کالجز کا بند ہونا، عورتوں بچوں نوجوانوں اور بزرگوں کا تحریک میں شامل ہونا، لڑنا اور لڑنے کے بعد ایک بار پھر جاندار تحریک کا آغاز کرنا ہندوستان میں ایک شعلے کی مانند ہے۔ کشمیر میں ریاستی جبر پر ہندوستان کے طلبہ اور ترقی پسند کا کھڑے ہوکر لڑنا اور حکومت کے خلاف جانا ہندوستان میں محکوم عوام کی اتحاد کی ایک بڑی وجہ ثابت ہورہا ہے۔ ہندوستان میں تیزی سے ابھرتا شعور کل کو عظیم ہندوستان میں سوشلزم کی تعمیر کی ضمانت ہے۔

پوری دنیا جس بحرانی کیفیت سے گزر رہی ہے، وہ دراصل عالمی سرمایہ داری نظام کے استحصال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کی ایک گھمبیر شکل ہے۔ موجودہ بحران کا خاتمہ اب اصلاحات نہیں، بلکہ انقلابات سے ممکن ہے۔ اگر ہم اسی تناظر میں پاکستان اور اس کے مخصوص علاقوں کا تجزیہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عام دنوں کی نسبت معاملات نے بہت تیزی سے حرکت کی ہے۔ جائزہ لینے پر نظر آتا ہے کہ اب کی بار پنجاب کا بالائی حکمران بھی لڑائی میں کھل کر اسٹبلیشمنٹ کے سامنے آیا ہے۔  قبائل کا ایک توانا آواز میں سامنے آ کر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ماضی کی بہ نسبت تبدیلی ہے۔

اسی طرح گلگت بلتستان کے لیے آرڈیننس 2018 پاس کیا گیا۔ جس کا مقصد گلگت بلتستان کے عوام پر مزید ٹیکس بڑھانا تھا مگر عوام نے ٹیکس بڑھنے پر ہی مارچ کے مہنیے میں عوامی ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام تاریخی احتجاج ریکارڈ کروا دئیے۔

ہندوستان میں 35-اے میں ترمیم کرنے کی کوشش کی جس کو بھیانک قسم کی عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جس پر عدالت نے بھی مقبوضہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال رکھا۔ کچھ ایسا ہی انکشاف راولاکوٹ پونچھ میں زمینوں کو غیر ریاستی ریٹارئیرڈ جرنیل اور کرنلز کو دینے کے ساتھ ساتھ بیرونی شہریوں کو بیچنے کا ہوا جس کو لے کر ایک بار پھر عوامی مزاحمت دیکھنے کو ملی۔

کسی بھی خطے کا مطالعہ کیجیے، ہم یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ پوری دنیا ہلچل کے عہد سے گزر رہی ہے جہاں پرانی چیزیں ٹوٹ رہی ہیں اور نئی چیزوں کا جنم ہو رہا ہے۔ اس سال نے چیزوں کی تبدیلی میں نقش و نگار کو واضح کیا۔ اب منزلیں واضح ہوچکی ہیں، ہر خطے نے ایک منظم چھلانگ (انقلاب) کی تیاری تقریباً مکمل کر رکھی ہے جس کا اظہار کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔ اب محنت کش کے راج کو روکنا ممکن نہیں رہا۔ موجودہ سماجی ہلچل، عوامی مزاحمتی تحریکوں کا جنم اور حکمران و غاصب کی گرفت کے کمزور ہونے کے عمل سے ہم مستقبل قریب میں محنت کش عوام کو راج کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔