پرتشدد کارروائیاں ،نقل مکانی کا عذاب

ایڈیٹوریل  بدھ 10 جولائی 2013
ملک بھر میں امن وامان کی انتہائی مخدوش صورتحال کے باعث عوام کے مصائب وآلام میں بے پناہ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ فوٹو عرفان علی

ملک بھر میں امن وامان کی انتہائی مخدوش صورتحال کے باعث عوام کے مصائب وآلام میں بے پناہ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ فوٹو عرفان علی

ملک بھر میں امن وامان کی انتہائی مخدوش صورتحال کے باعث عوام کے مصائب وآلام میں بے پناہ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ملک کے طول وعرض میں دہشتگرد،خودکش بمبار،علیحدگی پسند اور جرائم پیشہ عناصر کے گروہوں نے عوام کا جینا دوبھرکر رکھا ہے،یہ گروہ انتہائی منظم منصوبہ بندی اورسرعت سے اپنی کارروائیاں کرتے نظر آتے ہیں ۔

منی پاکستان کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا تسلسل اورگینگ وار کے باعث علاقے سے لوگوں کی نقل مکانی کا عمل یا خیبرپختونخوا میں دہشتگردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے گروہ، بلوچستان کے علیحدگی پسند عناصر کی شدت پسندانہ سرگرمیاں ان سب کی وجہ سے پاکستان خدانخواستہ ’’بنانا اسٹیٹ‘‘ بننے تو نہیں جارہا ۔ کراچی جو پاکستان کا معاشی حب ہے اور ملکی معیشت میں انتہائی فعال ادا کرتا ہے اس میں امن وامان کی مخدوش صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ،گزشتہ روزکراچی کے مختلف علاقوں میں فائرنگ اور پرتشدد واقعات کے دوران 2افراد جاں بحق اور لیاری میں دستی بموں کے حملوں میں خواتین اوربچوں سمیت 23 افراد زخمی ہوگئے ،حملوں میں کئی مکانات اور دکانوں کونقصان پہنچا۔اخباری اطلاعات کے مطابق لیاری سے کچھی برادری سمیت دیگر قومیتوں کے چار ہزار سے زائد نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں ۔

الزام تراشی کی سیاست سے ہٹ کر حقیقی صورتحال اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو بلوچ اورکچھی برادری کے افراد قیام پاکستان سے پہلے سے لے کرآج تک ایک ہی علاقے میں رہتے آئے ہیں اور دونوں برادریاں پیپلزپارٹی کی ووٹر بھی ہیں ۔ان میں تصادم اور جھگڑے کا شائبہ بھی نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ فریقین کو ایک دوسرے کے مدمقابل دشمن تصورکیا جائے ۔ ملک میں امن وامان نہ ہونے کے سبب معاشی اور اقتصادی سرگرمیاں ماند پڑچکی ہیں اور معیشت عدم استحکام کا شکار ہے ۔ اسی ضمن میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک برطانوی اخبارکو انٹرویودیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے باعث خیبرپختونخواکی 70فیصد صنعتیںبند ہوچکی ہیں۔ انھوں نے واضح کیاکہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افرادکے 30,35گروہ تحریک طالبان پاکستان کے نام سے کام کررہے ہیں۔

دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی کے وفدنے سردار اخترمینگل کی قیادت میں وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارسے ملاقات کی۔وزیر داخلہ نے اس موقعے پرکہاکہ صوبے میں جمہوری،سیاسی اور پرامن ماحول کے قیام کے لیے باہمی اتفاق رائے اوربات چیت سے مختلف مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوںکی مددکرے گی جو گروپ تشدد کاراستہ اختیارکریںگے ان سے نمٹیںگے۔علیحدگی پسند کی سوچ رکھنے والے عناصرکی کارروائیوں کے باعث بھی آبادکار اور دیگر قومیتوں کے افراد کو بلوچستان سے نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے ۔جب کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے خلاف فرقہ وارنہ دہشتگردی بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہی ۔قومی رہنماؤں کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسئلے کی سنگینی وحساسیت سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ اس کا حل اور تدارک بھی چاہتے ہیں ۔

ایک اہم ترین پہلو ملک میں جاری دہشتگردی کا یہ بھی ہے کہ غیر ملکی تجزیہ نگاروںاورہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں 30لاکھ کے لگ بھگ مہاجرین مقیم ہیںجن میں زیادہ تر تعداد افغان مہاجرین کی ہے ،16لاکھ افغان مہاجرین کاوزارت داخلہ کے پاس ریکارڈموجودہے لیکن دس لاکھ سے زائد مہاجرین کاوزارت داخلہ کے پاس کوئی ریکارڈنہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ملک میں بم دھماکوں اور خودکش بمبار کی موج ظفرموج پر قابو پانے میں سیکیورٹی اہلکار ناکام نظر آتے ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ راجن پور میں نو پولیس اہلکارجرائم پیشہ ڈکیت گروپ کے قبضے میں ہیں اور پولیس انھیں بازیاب کرانے میں ناکام ہے ۔پاکستان تاریخ کے ایک ایسے نازک موڑ پرکھڑا ہے، حکومت کو دہشتگردوں اور جرائم پیشہ گروہوں پرقابو پانے کے لیے بے رحم اور سفاک آپریشن کا فیصلہ جلدکرناہوگا کیونکہ یہ ریاست کی بقا کا مسئلہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔