’’ فکر کی کوئی بات نہیں‘‘

نصرت جاوید  بدھ 10 جولائی 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

سچی بات ہے ہم لوگ بڑی چھوٹی اور غیر اہم باتوں سے خوش یا مشتعل ہو کر فروعات میں اُلجھ جاتے ہیں۔ اپنی اس عادت کی وجہ سے بڑے سادہ اور صاف نظر آنے والے حقائق کو بھول کر طوطا مینا کی کہانیاں گھڑنے لگتے ہیں۔ دُنیا ہمارا مذاق نہ اُڑائے تو اور کیا کرے۔ نائن الیون کے دن نیویارک میں جو کچھ ہوا امریکی حکومت نے اس کی ساری ذمے داری اسامہ بن لادن کے سر تھونپ دی۔ ہم نے بجائے اس الزام پر غور کرنے کے اپنا سارا زور یہ ثابت کرنے پر صرف کر دیا کہ افغانستان کے بے آباد پہاڑوں میں کہیں چھپا بیٹھا ایک عرب یہ سب کچھ کر ہی نہیں سکتا۔

کافی منطق سے بھر پور دلائل کے ساتھ کہانی کچھ اس طرف چلائی گئی کہ نائن الیون کو اسرائیل کی کارروائی ثابت کر دیا جائے جس کا اصل مقصد امریکی حکومت کو اشتعال دلوا کر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف کر دینا تھا۔ بدقسمتی سے امریکی نہ تو ہمارے اخبارات پڑھتے ہیں نہ ہی ان بدنصیبوں کو ہمارے اینکر حضرات کے گرانقدر خیالات سننے اور سمجھنے کے مواقع نصیب ہوتے ہیں۔ وہ اپنی بات پر اڑے رہے۔ افغانستان پر چڑھ دوڑے۔ ’’اسلامی امارات افغانستان‘‘ کی طالبان حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ ملا عمر ایک موٹر سائیکل پر بیٹھ کر کہیں غائب ہو گئے۔ ابھی تک منظر عام پر نہیں آئے۔ امریکا اب افغانستان سے جلد از جلد نکلنے کی تیاری کر رہا ہے۔ جب وہ یہ ملک چھوڑ کر بھاگ گئے تو شاید کسی روز ملا عمر کا قندھار یا کابل میں ظہور ہو جائے۔

نائن الیون کے فوراََ بعد افغانستان پر جو جنگ مسلط کی گئی تھی، اس کے آخری دنوں میں اسامہ کے بارے میں خبر یہ تھی کہ وہ تورابورا کے غاروں میں موجود ہے۔ پھر وہ بھی کہیں غائب ہو گیا۔ ’’دشمنانِ اسلام‘‘ نے مشہور کر دیا کہ وہ پاکستان میں ہی کہیں نہ کہیں چھپا بیٹھا ہے۔ میرے اور آپ جیسے عام شہریوں کو تو اپنے ہمسائے میں رہنے والے لوگوں کے بارے میں پورا علم نہیں ہوتا۔ مگر جنرل مشرف صدر پاکستان ہوا کرتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ ہماری مسلح افواج کے سربراہ بھی۔ اس وقت کے امریکی صدرجارج بش انھیں اپنا Tight Buddy کہا کرتے تھے۔

نام نہاد ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے عروج والے دنوں میں ان کے بڑے نخرے بھی برداشت کیے جاتے تھے۔ وہ ایک بار نہیں بارہا غیر ملکی صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے بڑے اعتماد سے دعویٰ کرتے کہ اسامہ بن لادن کو اپنے گردے کی تکلیف کے باعث ڈائیلسس کی باقاعدگی سے ضرورت تھی۔ شاید اس سہولت کے نہ ملنے سے وہ طبعی موت مر گیا ہو گا۔ ان کے اقتدار کے آخری دنوں میں یہ محسوس ہو رہاتھا کہ امریکی حکومت نے ان کی کہانی پر اعتبار کر لیا ہے۔ پھر مشرف بھی فارغ ہو گئے۔ اور بش بھی اپنی معیادِ حکومت پوری کرنے کے بعد گھر چلے گئے۔ ان کی جگہ اوبامہ حکومت میں آئے تو انھیں اسامہ دوبارہ یاد آنا شروع ہو گیا۔آپ کو یاد ہو گا کہ امریکی وزیر خارجہ بن جانے کے چند مہینے بعد جب ہیلری کلنٹن پاکستان تشریف لائیں تو صاف کہہ دیا کہ ’’میں کیسے مان لوں کہ اسامہ پاکستان میں نہیں۔‘‘

یہ بات تو انھوں نے برسرِعام کہی تھی۔ ہمارے حکمرانوں سے جو باتیں انھوں نے بند کمروں میں کی ہوں گی ان میں خدا جانے اس ضمن میں کیا کچھ کہا ہو گا۔ پھر مئی 2011ء آ گیا۔ افغانستان سے چند امریکی طیارے اُڑے اور ایبٹ آباد میں ایک قلعہ نما مکان پر دھاوا بول دیا۔ ہم ہکا بکا رہ گئے۔ قومی غیرت وحمیت کے مرثیے پڑھتے ہوئے ہم نے گیلانی حکومت کو پارلیمان کا ایک خفیہ اجلاس بلانے پر مجبور کیا۔ جنرل کیانی اور اس وقت کے آئی ایس آئی چیف بھی وہاں آئے۔ ہمارے نمایندوں کی کوئی زیادہ تسلی نہ ہوئی۔ فیصلہ ہوا کہ جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں ایک کمیشن بنے اور پورے واقعے کی ایک تفصیلی رپورٹ تیار کرے۔ جاوید اقبال صاحب ابھی اپنا کام شروع بھی نہیں کر پائے تھے کہ پاک فوج کے ایک ریٹائرڈ بریگیڈئر شوکت قادر نے اپنے تئیں Investigative Reporter بننے کا فیصلہ کر لیا۔

عسکری حکام کی اجازت سے انھوں نے اپنی تحقیق کا آغاز کیا اور جو کچھ نکالا اپنے گھر غیر ملکی صحافیوں کو بلا کر ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ میرے جیسے ’’کالے صحافی‘‘ ان کی دریا دِلی سے محروم رہے۔ پھر نیویارک ٹائمز کے ڈیوڈ سانگر نے اپنی کتاب میں بڑی تفصیل سے اسامہ کہانی بھی لکھ دی۔

ساتھ ہی ساتھ ایک فلم بن گئی۔ Zero Dark Thirty اس کا نام ہے۔ آپس کی بات ہے یہ کتاب اور فلم آ جانے کے بعد میری بڑی خواہش تھی کہ کسی طرح جسٹس جاوید اقبال صاحب سے مل پاؤں اور ان کی خدمت میں دست بستہ عرض کروں کہ شوکت قادر صاحب کی رپورٹ ڈیوڈ سانگر کی کتاب اور اسامہ آپریشن کے بارے میں فلم بن جانے کے بعد انھیں اس موضوع پر کوئی نئی بات تلاش کر لینا کافی مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ بہتر ہے ان کے کمیشن کی دکان بڑھا دی جائے۔ مگر مجھے ان سے ملنے کا کوئی موقعہ نہ مل سکا اور خود اس کے لیے میں نے بھی کوئی بھاگ ڈور نہ کی۔ میرے دل کی بات دل میں ہی رہ گئی۔

پھر بہت دیر لگانے کے بعد رپورٹ تیار ہو کر راجہ پرویز اشرف کے دفتر پہنچ گئی۔ پھر وہاں قائم مقام وزیر اعظم آ گئے اور آج کل وہاں نواز شریف براجمان ہیں۔ ان تینوں میں سے کسی کو یہ رپورٹ شایع کرنے کا خیال نہ آیا۔ ہم صحافی بھی بھول بھال گئے۔ دُنیا مگر ایسی چیزیں بھولا نہیں کرتی۔ جیسے امریکی حکومت نے اسامہ کی تلاش نہ چھوڑی تھی۔ الجزیرہ ٹیلی ویژن والے جسٹس اقبال کمیشن کی رپورٹ ڈھونڈتے رہے۔ بالآخر انھیں مل گئی اور پیر کو انھوں نے اسے پوری دُنیا کے آگے پیش کر دیا۔

اس رپورٹ کے اغیار کے ہاتھوں عیاں ہونے کے بعد ہم دوبارہ اپنی ہی لعنت ملامت میں مصروف ہو گئے۔ ایک بار پھر سامنے نظر آنے والے سادہ اور صاف حقائق کو دیکھنے سے انکار کر رہے ہیں۔ طوطا مینا کی کہانیاں ہیں اور سیاپا۔ لیکن انگریزی کا ایک محاورہ کہتا ہے: This Too Shall Pass فکر کی کوئی بات نہیں۔ ویسے بھی رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہو گیا ہے۔ آئیے دُنیاوی معاملات سے ذرا کنارہ کشی کرنے کے بعد اپنے ربّ کی عبادت کریں اور اس سے ہمیں سیدھا راستہ دکھانے کی دُعائیں مانگیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔