ابھی تو تلخی کام و دہن کی آزمائش ہے

سعد اللہ جان برق  بدھ 10 جولائی 2013
barq@email.com

[email protected]

اس وقت ہمارے کھیسے میں جو مال ہے، ان میں ایک لطیفہ ہے اور ایک حقیقہ ۔۔۔ حقیقہ تو بالکل ہی نیا نویلا اور نوجوان ہے۔ یوں کہئے کہ ابھی اس کی مسیں ہی بھیگ رہی ہیں لیکن لطیفے کی تو بھنوئیں تک سفید ہو چکی ہیں بلکہ اب تو جھڑنے بھی لگی ہیں۔ یہ وہی لطیفہ ہے جو بابا آدم نے اماں حوا کو ایک مرتبہ سنایا تو وہ ناک بھوں چڑھا کر بولی، کبھی کبھی تو کوئی نیا لطیفہ بھی سنایا کرو۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بعض اوقات نہایت ہی سال خوردہ گھسے پٹے بلکہ ایک طرف پھینک کر بھولے بسرے بزرگ بھی کام آ جاتے ہیں، ہمارے پاس بھی کچھ ایسی ہی سچوئشن ہے کہ صرف یہ لطیفہ ہی کام آ سکتا ہے کیونکہ

مطلب ہے ناز و غمزہ ولے گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کیے بغیر

چلیے اب لطیفہ سن لیجیے، ایک نہایت فربہ اندام شخص نے دوسرے دبلے پتلے انجر پنجر شخص کا ٹھٹھا اڑاتے ہوئے کہا، کوئی غیر ملکی تمہیں دیکھ کر سمجھے گا کہ پاکستان میں قحط پڑ گیا ہے۔ دبلے پتلے نے اس کے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے کہا، اگر وہ غیر ملکی اس کے بعد تمہیں دیکھ لے تو قحط کی وجہ بھی سمجھ میں آ جائے گی۔ اس پر ایک پشتو کا ٹپہ بھی بڑا خوب صورت ہے کہ

شونڈے دے ورز پہ ورز سرے کیگی
رنگ مے زیڑیگی دابہ سہ کیگی مینہ

یعنی تمہارے ہونٹ روز بروز سرخ ہوتے جا رہے ہیں اور میرا رنگ روز بروز پیلا پڑتا جا رہا ہے، اس کا انجام خدا خیر کرے۔ اور اب اس حقیقے کی باری ہے جس کے لیے ہم نے اتنا کھٹراگ پھیلایا ہے، وہ یوں ہے کہ اگر کوئی غیر ملکی پاکستان آ جائے اور ایئر پورٹ سے لے کر دوبارہ ڈی پورٹ ہونے تک بھکاریوں کی قدم قدم پر قطاریں اور یلغاریں دیکھ لے تو سمجھے گا کہ پاکستان میں بھکاری ہی بھکاری ہیں لیکن اگر وہ کسی کام سے کسی بینک کے سامنے ان لوگوں کی قطاریں دیکھ لے جو کارڈ ڈال کر اے ٹی ایم سے مٹھیاں بھر بھر کر نوٹوں کے پلندے نکال رہے ہیں جو انکم سپورٹ وغیرہ کے نام پر بٹ رہے ہیں تو فوراً سمجھ جائے گا کہ پاکستان میں بھکاری کیوں اتنے بڑھ گئے ہیں ،

جہاں تک بھکاریوں کا دھندہ ہے، وہ اتنا ٹاپ پر جا رہا ہے کہ باقی سارے دھندے اس کے سامنے مندے ہو رہے ہیں، تقریباً وہی بات ہو گئی کہ جرمنی اور برطانیہ وغیرہ جہاں بیروزگاری الاؤنس دیا جاتا ہے لوگ چھوٹی موٹی نوکری پر تھوکتے بھی نہیں کیونکہ ان نوکریوں کی تنخواہ سے بیروزگاری الاؤنس زیادہ ہوتا ہے، اگر آپ شہروں کے چوراہوں پر اور دوسری ہر قسم کی راہوں سہ راہوں پر بھکاریوں کے ہاتھوں زچ ہو کر بھاگ اٹھیں اور کسی پہاڑ کی چوٹی پر دم لے لیں تو وہاں بھی آٹھ دس بھکاری مختلف کاسٹیوم میں ہر قسم کی دعاؤں سے لیس آپ پر ہلہ بول دیں گے اور پھر غیر ملکیوں کی تو بات ہی کچھ اور ہے، ان کم بختوں کو دیکھ کر ہم تم اور میر تو کیا ’’بڑے بڑے‘‘ بلکہ بہت بڑے بڑے بھی بھکاری بن جاتے ہیں۔ وہ ایک بہت پرانا اشتہار تو آپ نے دیکھا ہو گا ۔

جس میں انضمام کو رن آؤٹ ہوتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور پھر بتایا جاتا ہے لیکن اگر پیپسی نظر آئے … اس کے بعد انضمام کی رننگ دیکھنے کی چیز ہوتی ہے، ٹھیک اسی طرح اگر کسی غیر ملکی پر شبہ ہو کہ اس کے پاس ڈالر ہیں تو پھر چٹان بھی اپنی جگہ سے اکھڑ کر اس کی طرف لپک جاتی ہے کیونکہ ڈالر چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال،تو ہی ایک دھنوان ہے ’’گورے‘‘ باقی سب کھنگال۔ لیکن پاکستان میں بھکاریوں کی تعداد بڑھ جانے کی صرف یہی ایک وجہ نہیں ہے بلکہ اور بھی چلتی پھرتی بلکہ بولتی چالتی وجوہات ہیں، ویسے یہ غیر ملکی اگر امریکی ہوا تو اسے پاکستان آنے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی، وہ وہیں امریکا میں بیٹھے بیٹھے جانتا ہے کہ پاکستان کے بھکاری ہونے کی وجہ بلکہ وجوہات کیا ہیں۔

کیونکہ وہ اکثر دیکھ چکا ہوتا ہے کہ ایک دو باتیں کرنے کے لیے جب کسی بڑے کو امریکا جانا ہوتا ہے تو جہاز بھر بھر کر کم از کم دو چار سو لوگ تو اس کے ساتھ ہوتے ہی ہیں جو بڑے بڑے ہوٹلوں میں ٹھہرکر پاکستان کا نام روشن کرتے ہیں، مطلب یہ کہ وہ دھواں دیکھ کر بھی آگ کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ جب بڑے بلکہ بہت بڑے بڑے ہی بھیک مانگنے کا دھندہ کرتے ہیں تو عام لوگ کیوں نہیں کریں گے، تصوف کی زبان میں اس صورت حال کو علم الیقین کا درجہ کہا جاتا ہے، مثال کے طور پر اگر وہ اخبار میں پاکستانی عوام کی چیخ و پکار اور ہائے وائے کے بارے میں پڑھتا ہے تو اسی صفحے پر وزیروں مشیروں کبیروں اور سفیروں کی تعداد ہی سے ’’فقیروں‘‘ کا اندازہ لگا لیتا ہے، ایک انصاف پسند امریکی نے تو اخباروں میں وزیرستان پر امریکی ڈرون حملوں کے خلاف مضمون لکھ کر امریکا کو بہت لتاڑا بھی تھا کہ ایک دوست ملک پر یوں ڈرون حملے غلط بات ہے، دراصل وہ پاکستان ہی کو وزیرستان سمجھا تھا۔

کیونکہ سب سے زیادہ وزیر پاکستان ہی میں پیدا ہوتے ہیں اور پھر مرتے بھی نہیں اور اگر مرتے بھی ہیں تو اپنے پیچھے وزیروں کا ایک لشکر چھوڑ جاتے ہیں اور ان وزیروں بلکہ شہزادوں کے فنڈز مراعات اور مزید مراعات اور پھر مراعات کے بارے میں جان لیتا ہے تو علم الیقین سے ایک درجہ اوپر چڑھ کر عین الیقین کے درجے پر پہنچ جاتا ہے اور اگر ان کے سوئس بینکوں امریکی بینکوں اور یورپی بینکوں کے اثاثے بھی اس کے علم میں آ جائیں گے تو ’’حق الیقین‘‘ کے در پر پہنچ کر جان جائے گا کہ پاکستانی عوام بھکاری کیوں ہیں یا پاکستان میں بھکاریوں کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے،

پورے پاکستان کے بارے میں تو ہم نہیں کہہ سکتے لیکن اپنے صوبے کے بارے میں ہمیں یہ حق الیقین حاصل ہے کہ یہ پورا صوبہ صرف ’’خدا کے نام پر‘‘ چل رہا ہے، صوبہ مرکز سے خدا کے نام پر بھیک مانگ رہا ہے (مرکز کس سے مانگ رہا ہے یہ سب کو پتہ ہے) حکومت ممبران اسمبلی کی بھکاری ہے بلکہ ان کے ’’ٹکڑوں‘‘ پر پل رہی ہے، ممبران اسمبلی عوام سے ووٹ مانگنے کے بھکاری ہیں، عوام سرکاری محکموں سے خدا کے نام پر رحم کی بھیک مانگ رہے ہیں، سرکاری محکمے منتخب نمایندوں سے خدا کے نام پر فنڈز کی بھیک مانگتے ہیں اور منتخب نمایندے حکومت سے خدا کے نام پر فنڈز کے طلب گار ہیں گویا ایک پورا ’’دائرہ بھکاریہ‘‘ ہے، اس دائرے کو دیکھ کر ہمیں اکثر ’’سقاط‘‘ ہٹنے کا منظر یاد آتا ہے۔

جب کسی میت پر خاص خاص قسم کے بھکاری دائرہ بنا لیتے ہیں، بیچ میں ’’مردے‘‘ کا مال ہوتا ہے اور دائرے میں بیٹھے ہوئے ’’زندے‘‘ اس مردے کا مال ایک دوسرے کو بخشتے رہتے ہیں، سلوک کے ان تین مراحل یعنی علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین کے بعد جو مقام آتا ہے اسے تصوف کی زبان میں ’’حیرت‘‘ کا مقام کہتے ہیں اور حیرت یہ دیکھ کر ہر کسی کو ہوتی ہے کہ پاکستانی عوام زندہ کیسے ہیں؟ لیکن اس حیرت کی وجہ سمجھ میں نہیں آئے گی کیونکہ اس سے آگے ’’معجزے‘‘ کا مقام ہے اور اس معجزے کا نظارہ دنیا ستر برس سے کر رہی ہے،

بڑے افلاطوں، ارسطو، سقراط و بقراط اور نوم چومسکی آئے اور غور کے حوض میں غوطے لگا لگا کر تھک گئے لیکن مقصد کا یہ موتی کسی کے بھی ہاتھ نہیں لگا کہ پاکستانی عوام اپنے لیڈروں کے باوجود زندہ کیسے ہیں،کیوں ہیں اور کب تک رہیں گے، لیکن یہ ظاہر پرست لوگ نہیں جانتے کہ معجزہ اسی لیے تو معجزہ کہلاتا ہے کہ سمجھ سے باہر ہوتا ہے اور پاکستان تو بجائے خود ایک بڑا معجزہ ہے تو کسی کی سمجھ میں کیا خاک آئے گا، اس لیے سیدھی طرح ان سب کو اپنے ’’عجز‘‘ کا اعتراف کرنا چاہیے، ہمیں تو بے چارے سیدھے سادے عمران خان پر ترس آتا ہے کہ اس معجزے کو سمجھنے میں مچان تک سے گر پڑے لیکن ابھی تک مقام حیرت میں ہیں۔

یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔