غلط تفتیش،جھوٹی ایف آئی آر

کشور زہرا  منگل 1 جنوری 2019

شکایت یا انکوائری کی ابتدا ء میں ہی ضروری کے ساتھ غیرضروری افراد بھی یکطرفہ الزامات کی بنیاد پر ہی جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیے جاتے ہیں۔ نشرواشاعت کے ادار ے ہوں یا اخبارات کے صفحات بڑی بڑی خبریں اور تصاویرکے ذریعے ملزم کو عدالتی فیصلے سے قبل از وقت مجر م بنا دیتے ہیں۔اکثر اوقات استغاثہ کی بد نیتی بھی شامل ہوجاتی ہے لہٰذا ان حرکات کی وجہ سے غیر ضروری گرفتاریاں پھر اس کے بعد عدالتوں سے ضمانتیں خود عدالتی نظام پر بھی بوجھ بن جاتی ہیں ۔

لوگوں کو جیل میں بغیرعدالتی فیصلے کے عادی مجرموں کے ساتھ رکھ کر نہ صرف ان کی تذلیل کی جاتی ہے بلکہ ان کے خاندان کے افرادکومعاشی وسماجی نقصان اٹھانا پڑتا ہے، یہاں تک کہ ان کے بچوں کی تعلیم بھی متاثر ہوجاتی ہے یہی نہیں بلکہ لڑکے اور لڑکیوں کے رشتے بھی ختم ہوجاتے ہیں اورکہیں پر تو محض الزامات کی بنیاد پر خاندان بھی کئی حصوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں ۔(اس بات کی تائید میں ذاتی طور پر بحیثیت ایک سماجی کارکن کرتی ہوں کہ یہ درست ہے) اعلیٰ عدالتیں متعدد بار اپنی آبزرویشن دے چکی ہیں کہ جھوٹے مقدمات غلط تفتیش اور جعلی گواہیاں نہیں ہونی چاہیے بلکہ پولیس اپنے تفتیش کے نظام میں بہتری لائے، جس کے لیے بوسیدہ طریقہ کارکو بدلنے کی ضرورت ہے جب کہ بعض مقدمات میں عدالتوں کے ایسے ریمارکس سامنے آچکے ہیں ،جس میں کہا گیا ہے کہ پولیس ایف آئی آر سے مطمئن ہوئے بغیر بلاضرورت گرفتاریاں نہ کرے ۔

حالیہ دنوں میں زیرحراست سرگودھا یونیورسٹی کے پروفیسر میاں جاوید اور ایل ڈی اے کے ڈائریکٹر محمد سلیم کی ہلاکت تو ہمارے ملک میں کوئی نئی بات نہیں بلکہ ایسے سیکڑوں کیس پہلے بھی سامنے آچکے ہیں۔ میں ذاتی طور پر اس لیے گواہ ہوں کہ دوران تفتیش تشددکے باعث نہ صرف زخمی ہوجانے والے بلکہ زندگی سے ہاتھ دھونے کے واقعات کو بہت قریب سے دیکھا ہے لیکن حیرت انگیزطور پرکسی بھی تفتیش کرنے والے پر نہ تو اس کا کوئی الزام لگایا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔

اخبارات میں شایع ہونے والی رپورٹس بتاتی ہیں کہ جب بھی انویسٹی گیشن آفیسر سے کسی ملزم کے بارے میں(جو زیر حراست ہو) پوچھا گیا کہ اس کی موت کیسے ہوئی؟ تو اس کا جواب پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پہلے یہ ہی آتا ہے کہ ’’ ملزم کو دل کا دورہ پڑا تھا‘‘ اب چاہے میت کے سر سے خون ہی کیوں نہ بہہ رہا ہو،ایسی صورت میں اس کا جواب ہوتا ہے کہ ملزم کود کر بھاگ رہا تھا گر کر ہلا ک ہوگیا یا اس نے مقابلے کی کوشش کی تو دوران تبادلہ فائرنگ سے ملزم ہلا ک ہوگیا اورکبھی ملزم کے ساتھیوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انھوں نے ملزم کو چھڑوانے کے لیے پولیس پارٹی پر حملہ کردیا جس سے ملزم کی ہلاکت ہوگئی۔

پارلیمنٹ میں اراکین اسمبلی کا کام قانون سازی اور اصلاحات کا نفاذ آئین کی حدود میں رہتے ہوئے کرنا ہوتا ہے، لہذا مذکورہ عوامل کو سامنے رکھ کر میں نے پولیس کے تفتیشی نظام کی تبدیلی کے لیے قانون میں بعض نئی اصلاحات وترامیم کرنے کے لیے مجموعہ تعزیرات پاکستان (PPC ) کے آرٹیکل  166میں غلط تفتیش جھوٹی ایف آئی آر اور تشدد کے خاتمے کا بل پہلی مرتبہ 2007 کی قومی اسمبلی میں جمع کرایا ۔اس کے بعد یہ ہی بل 2013 کی وجود میں آنے والی اسمبلی میں دوبارہ جمع کروایا لیکن وہ اسمبلی بھی اس بل کو منظور نہ کرسکی اور وہ بھی اختتام پذیر ہوگئی اور اب ایک بار پھر2018 کی قومی اسمبلی میںاس بل کو جمع کروایا جو مورخہ 20 دسمبر 2018 کو اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا لیکن بدقسمتی سے اس روز ایجنڈے کو نظراندازکردیا گیا۔لہذا میں عوام کی معلومات کے لیے اس بل کے چند مندرجات تحریرکررہی ہوں، جس سے قارئین حالات کے پس منظر اور پیش منظرکا احاطہ کرسکیں گے۔

1 ۔ اگرکوئی شخص جھوٹی ایف آئی آر درج کراتا ہے اور وہ پولیس افسر جو اسے درج کرتا ہے غلط ثابت ہونے پر اس کے لیے دس سال سے چودہ سال تک سزا اور جرمانہ دس لاکھ تک ہوگا۔

2 ۔ اور جس شخص کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا ہے، اسے جرمانے کی نصف رقم بطورمعاوضہ ادا کی جائے گی۔

3 ۔ سرکاری ملازم کے خلا ف محکمہ جاتی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

4 ۔ کسی جرم کی غیر دیانتدارانہ یا غلط تحقیقات کرنے والے اہلکارکے لیے سزائے قید رکھی گئی ہے جو دس سال سے چودہ سال تک اور جرمانہ کم ازکم دس لا کھ ہوگا تاکہ وہ اپنے مکروہ اور غیرذمے دارانہ عمل کوکرنے سے پہلے ضرور سوچے۔

5 ۔ تفتیشی افسران ایسے اہلکار ہونگے جو خصوصی تعلیمی قابلیت کے حامل ہوں جیسے کہ نفسیات، جرائم کی منصفانہ، شفاف اور سائنسی تحقیقات کرنے کی مہارت رکھتے ہوں ۔

6۔ ملزم کی جسمانی اور ذہنی صحت کا مناسب خیال کرتے ہوئے تشدد یا جسمانی تکالیف یا زخم پہنچائے بغیر تفتیش کی جائے گی۔

7۔ تفتیش سے پہلے ملزم کا طبی معائنہ لازمی کرایا جائے گا اور تفتیش کے بعد بھی اس عمل سے گزارا جائے گا۔

8۔ ملزم سے ایسا سوال جوکہ مذہبی، فرقہ وارانہ، نسلی، علاقائی، لسانی یا صوبائی نفرت کا باعث بنے، کرنے سے گریزکیا جائے گا ۔

9۔ ملزم سے ذاتی زندگی یا بیوی سے تعلقات کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا۔

10۔ ملزم سے ازدواجی یا خاندانی زندگی اور رشتوں سے متعلق سوال ممنوع ہوگا۔

11۔ ملزم کے حق خاموشی کا احترام کیا جائے گا۔

12۔ خواتین کی تفتیش خواتین افسران ہی کریں گی۔

13۔ زیر تفتیش ملزمہ کی عزت ، دیانت یا عصمت سے متعلق سوال یا رویہ غلط نہیں رکھا جائے گا۔

14۔ زیر تفتیش ملزمہ کے کسی خاتون یا مرد رشتے دارکو دوران تفتیش موجود رہنے کی اجازت ہوگی، وہ سوالات اور تفتیشی افسرکا رویہ دیکھ سکتا یا سکتی ہے۔

15۔ زیر تفتیش ملزمہ سے کوئی غیراخلاقی یا تکلیف کا باعث بننے والا سوال یا غیر انسانی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔

16۔ ملزم کوگرفتاری کی وجوہات سے آگاہ کیا جائے گا اہل خانہ اور وکیل سے رجوع کرنے کی اجازت ہوگی۔

اس مجوزہ بل کے یہ چند نکات تھے جس کو پڑھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کس حد تک ہمارے تفتیشی نظام کو بہتر کرسکیں گے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ظالمانہ تفتیشی نظام جوکیس کی بنیاد کوکمزور اور غیر یقینی کردیتا ہے، اس کے لیے بوسیدہ اقدامات کو وقت کے جدید تقاضوں کے ساتھ تبدیل کردیا جائے اور اٹھارویں صدی کے بنائے گئے قوانین کا نہ صرف خاتمہ کیا جائے بلکہ انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے جسے آئین پاکستان نے ضمانت دے رکھی ہے۔

ملک کی ترقی، یکجہتی، خوشحالی اور معیشت کی بحالی کے لیے پرانے قوانین کو بدلنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ پارلیمان کا وجود محض ایک سیمنٹ کی عمارت کا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا اصل کردار قانون سازی ، اصلاحات کا عمل، امن وجذبہ خیرسگالی اور باہمی تعاون کا حصول ہی نصب العین ہونا چاہیے نہ کہ کسی کی ذات پر حملہ یا سیاسی انا پرستی کے خاطر قوم کے ٹیکس سے چلنے والی اسمبلی کو تختہ مشق نہ بنایا جائے۔ گلے شکوے اور تندوتیز جملے ٹی وی ٹا ک شوکی ریٹنگ کو بڑھانے میں زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔