موسمیاتی تبدیلی اور تیسری جنگِ عظیم

آمنہ خالد  منگل 8 جنوری 2019
دنیا میں اِیسی ٹیکنالوجیز ایجاد کی جا چکی ہیں جو موسم کو اپنی مرضی سے تبدیل کر سکتی ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

دنیا میں اِیسی ٹیکنالوجیز ایجاد کی جا چکی ہیں جو موسم کو اپنی مرضی سے تبدیل کر سکتی ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

دنیا میں آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ وسائل میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔ اِن وسائل کو پورا کرنے کے لیے صنعتوں کا قیام بہت ضروری ہے۔ صنعتوں میں اضافہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتے ھیں۔صنعتوں کی چمنیوں سے نکلنے والے دھویں میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ فضائی آلودگی کاباعث بنتے ہیں۔ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتے ہیں جسے ہم گلوبل وارمنگ کہتے ہیں؛ اور اسی کے نتیجے میں گلیشرز کا پگھلاؤ عمل میں آتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی آج کل بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے جس نے دنیا کے تمام مکتبہ ِفِکر کے لوگوں، بالخصوص سائنسدانوں اور ماہرین کو سرجوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ بدلتا موسم، بڑھتی ماحولیاتی آلودگی، آئے روز کے زلزلے، سمندری طوفان، تباہ کن سیلاب، برفباری، سیلاب، قحط سالی، گلیشئیرز کا پگھلاؤ، لینڈ سلائیڈنگ اور زمین کے درجہ حرارت کا بڑھنا… یہ سب وہ عناصر ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کے سبب پیدا ہوتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات میں گلوبل وارمنگ، اوزون کی تہہ میں وا ضح کمی، سمندر کی سطح میں اضافہ، گلیشئیرز کا پگھلاؤ اور مسکن کی تباہی شامل ہیں۔ حالیہ سروے میں پتا چلا ہے کہ گلیشئیرز کا پگھلاؤ جانوروں کے مسکن کی تباہی میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔

گزشتہ برسوں سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے جہاں ساری دنیا متاثر ہوئی ہے، وہیں ہمارا ملک بھی اِن متاثرہ ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے ہزاروں افراد متاثر ہوئے۔ اربوں، کھربوں روپے مالیت کی کھڑی فصلیں، مکانات اور انفرا اسٹرکچر سیلاب کی نظرہوگئے۔ واضح رہے کہ ملک کی تاریخ میں اس قسم کا سب سے زیادہ تباہ کن سیلاب 2010 میں آیا۔ یہ جولائی اور اگست میں ہونے والی طوفانی بارشوں کا نتیجہ تھا۔ پاکستان کے تین بڑے شہر کراچی، لاہور اور فیصل آباد موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اِنتہائی خطرناک تصور کیے جاتے ہیں۔2010 سے 2015 کے درمیان تیار کی جانے والی گرین ہاؤس گیس ایمیشنز رپورٹ کے مطابق پاکستان 138 ویں نمبر پر ہے، جو کہ 48. فیصــد حصہ گرین ہاؤس گیس کے اِخراج میں صَرف کرتا ہے۔

2015 میں آنے والی ہیٹ ویو سے تھر اور کراچی کے ہزاروں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پاکستان پہلے ہی ان 190 ممالک میں شامل ہے جنہوں نے پیرس کلائیمٹ ایگریمنٹ پر دَستخط کیے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر زمین کے درجہ حرارت میں یوں ہی اضافہ ہوتا رہا توعنقریب بہت سے ممالک کے ڈوب جانے کا اندیشہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بحیرہ عرب کی سطح سمندر میں اضافہ سے کراچی اور ملیر کے ڈوب جانے کا اندیشہ ہے۔ دوسری جانب بین الااقوامی اِداروں نے بھی خبردار کیا ہے کہ کراچی کے  بڑے حصے کو سمندر برد ہونے سے بچانے کے لیے اگر فوری اقدامات نا کیے گئے تو مستقبل میں ساڑے 3 سے 4 کروڑ افراد ماحولیاتی مہاجرین بن سکتے ہیں۔ اِنٹرنیشنل کلائیمٹ چینج کانفرنس کے مطابق اگر دنیا میں یہ سب چلتا رہا تو موسمیاتی تغیرات تیسری جنگِ عظیم کا سبب بن سکتے ہیں۔

دنیا میں آبادی کے بڑھنے کے باعث وسائل کی کمی اور صاف پانی کی فراہمی کے لیے مختلف اِقدامات کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اِس ضمن میں عالمی طاقتیں بھی اپنے اپنے ملکوں کو مستحکم کرنے کے لیے بھرپور کوششوں میں ہے۔ عالمی طاقتیں جدید ترقی اور سائینسی ٹیکنالوجی کی دوڑ میں بہت آگے نکل گئی ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے اِس حد تک ترقی کرلی ہے کہ اب اِنسان قدرتی وسائل پر بھی قابو پانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اِنسان اِن چیزوں پر بھی کنٹرول حاصل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے جو اب تک اِس کے بس سے باہر تھیں۔

دنیا میں اِیسی ٹیکنالوجیز ایجاد کی جا چکی ہیں جو موسم کو اپنی مرضی سے تبدیل کر سکتی ہیں۔ امریکہ اور روس نے وہ ٹیکنالوجیز حاصل کر لی ہے جو موسم میں تغیرات لا کر اِسے اپنے طریقے سے اِستعمال کر سکتی ہیں۔ چونکہ اب یہ پیش گوئی بھی عام کی جا رہی ہے کہ تیسریِ جنگِ عظیم ایک موسمی جنگ ہوگی۔ یعنی لوگ قدرتی وسائل سمیت ایک دوسرے کے پانی پرقبضہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوں گے۔

سپر پاور امریکہ کے شہر الاسکا میں موجود ’’ہارپ‘‘ نامی پراجیکٹ جسے 1993 میں شروع کیا گیا، اسے امریکی ائیر فورس کی جانب سے فنڈز دیے گئے۔ بعد میں اس پراجیکٹ کو ’ای‘ سسٹم نے خرید لیا۔یہ پراجیکٹ موسموں کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ آلہ کرہ ارض کے کسی خطے میں بھی موسمیاتی تغیرات پیدا کر سکتا ہے، دنیا میں کسی بھی جگہ زلزلے پیدا کر سکتا ہے‘ فضا میں اڑتے طیارے کو ایک باریک شعاع سے پگھلا سکتا ہے‘ سیلاب کی صورتِحال پیدا کر سکتا ہے۔

جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ یہ آلہ موسم میں شدت لانا یا تیزی سے گٹھنا‘ مصنوعی حدت پیدا کرنا ‘ اسی طرح بالائی کرہ ارض میں تبدیلی لا کر سورج کی شعاعوں کو جذب کرنے کے قرینے کو تبدیل کر سکتا ہے۔ اور اس طرح وہ زمین کے کسی خطہ پر سورج کی اِنتہائی حدت کو بڑھا سکتا ہے اور اس نظام کے تحت سمندوں کی سطح بلند کر سکتا ہے۔

یہ ’’ہارپ‘‘ دراصل ہماری فضا کی بالائی تہہ جسے آئینوسفیر کہتے ہیں، میں تبدیلی پیدا کرتا ہے۔ آئینوسفیر وہ تہہ ہے جس میں آئینز بنتے ہیں اور یہ زمین سے تقریباً 500 کلومیٹر اوپر واقع ہے۔ مواصلاتی سگنلز اس آئینوسفیر میں بھیجی جاتی ہیں اور پھر یہ ایک شیلڈ کی طرح عمل کرتی ہے اور ان مواصلاتی سگنلز کو بغیر کسی سیٹلائیٹ کے زمین پر واپس بھیجتی ہیں۔ یہ ہارپ پروگرام اس آئینوسفیر میں خاص قسم کی برقی توانائی کو اِنتہائی کم فریکوئینسی میں تبدیل کر تا ہے جہاں یہ آئینزسے ٹکرانے کے بعد واپس زمین پر آتی ہیں تو زمین کے اندرونی تہہ میں موجود ٹیکٹونک پلیٹس کو متاثر کرتی ہیں جن سے زمین میں زلزلے آتے ہیں۔

گزشتہ کئی سالوں میں مختلف ممالک میں آنے والے سیلاب اور زلزلوں کا اِلزام بھی اس پراجیکٹ کے ذمے لگایا جا رہا تھا۔ پاکستان میں آنیوالے 2010 کے تباہ کن سیلاب کے بارے میں بھی شکوک وشبہات پیدا ہوئے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ 2010 میں جب مون سون کی بارشوں کا سلسہ شروع ہوا تو کئی عجیب حقائق سامنے آئے۔ چونکہ پاکستان میں موسمِ برسات کے بادل عموماً مشرق کی جانب سے آتے ہیں اور سردیوں میں مون سون مغرب سے، لیکن اس سال مون سون کے بادل مشرق کی سمت کے ساتھ ساتھ مغرب کی سمت سے بھی آئے اور وزیرستان اور شمالی علاقہ جات میں آ کر ٹکرا گئے۔ جس کے نتیجے میں بارشیں کثرت سے ہوئیں۔

دراصل یہ مون سون ہوائیں جیٹ اسٹریم کی صورت میں مشرق سے مغرب تک سفر کرتی ہیں۔ جب یہ ہوائیں شمالی علاقہ جات میں بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکراتی ہیں تو وہ اوپر کی جانب اٹھتی ہیں جن سے ان کا درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے اور پھر وہ بارش برسانے کا سبب بنتی ہیں۔ واضح رہے کہ اس سیلاب کی وجہ سے ہماری معیشت کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا تھا۔ اگر یہ ٹیکنالوجیز یوں ہی استعمال ہوتی رہیں تو جلد ہی اس کے خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔

دِفاعی نقطہ نظر سے ہارپ کو امریکہ ایک خطرناک ہتھیار کے طور پراستعمال کر رہا ہے۔ دراصل امریکہ اور روس شروع ہی سے دنیا پر مسلط ہونے کا خواب دیکھتے ہیں اور اس سلسلے میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ دینے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔ صرف امریکہ ہی نہیں، بلکہ اب روس، چائینہ اور آسٹریلیا میں بھی اس پراجیکٹ پر کام ہو رہا ہے۔ چائنہ جو کہ اب دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے‘ بھی سپر پاور بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی پر اسرار ٹیکنالوجی اور سیاسی طاقت کے بل بوتے پر تمام دنیا پر اپنی دھاک بٹھا دے۔ چناچہ وہ ابھی سے قدرتی ذرائع اور وسائل کو اپنے قبضے میں کرکے، دنیا میں مصنوعی غذائی قلت پیدا کرکے ناقابلِ تسخیر عالمی طاقت بننا چاہتا ہے۔

یوں تو موسمیاتی تبدیلی ایک سنگین مَسلہ ہے، لیکن مصنوعی طریقے سے اسے روکنے کی کوشش کرنا‘ یا اسے ہتھیار بنا کر اپنے دفاعی مقاصد حاصل کرنا بھی غیرقانونی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسی تدابیر یا تجاویز اِختیار کریں جو ماحول دوست ہوں۔ جن میں سے چند تجاویز یہ ہیں:

زیادہ سے زیادہ درخت لگایئے۔

* کوڑا کرکٹ کو جلانے سے گریز کیجیے، یا لینڈفلز میں دفن کیجیے۔ * پانی کے ضیاع کو روکیے۔ * قابِل جدید انرجی کے ذرائع استعمال کیجیے۔ * ماحولیات دوست مشینوں اور ذرائع آمدورفت کو فروغ دیا جائے۔ * ری سائیکلنگ کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے۔ * صنعتوں سے نکلنے والا دھواں اور فضلہ کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگایا جائے۔ * پیٹرول‘ فیول اور ڈیزل کے استعمال کو کم سے کم کیا جائے اور اسے سی این جی سے تبدیل کیا جائے۔ * جنگلات کے کٹاؤ کو کم سے کم کیا جائے۔ * ایروسول اسپرے کے استعمال کو کم سے کم کیا جائے۔ کھادوں کے بے جا استعمال سے پرہیز کیا جائے۔ * بجلی بنانے کے طریقوں کو موثر‘ کم قیمت اور ماحول دوست بنایا جائے۔ * زراعت کے سیکٹر کو بہتر بنانے کےلیے آبپاشی کے طریقوں کو موثر بنایا جائے۔ * پاکستان میں بھی ان تدابیر کو اپنانے اور لاگو کرنے کے لیے حکومت کو مختلف اِقدامات اٹھانے چاہئیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔