پرندوں کا عشق اور منطق الطیرجدید

اقبال خورشید  جمعرات 3 جنوری 2019

آڈیٹوریم پرندوں سے بھرا ہوا تھا۔

وہ سیکڑوں کی تعداد میں تھے، ان کی دھڑکن موسیقی ترتیب دیتی، آنکھیں امید سے دمکتی تھیں، وہ سراپا سماعت تھے، تاکہ اُسے سن سکیں، جسے سننے وہ ٹلہ جوگیاں کی سمت آئے تھے۔ آرٹس کونسل آف کراچی کی سمت، جہاں مستنصر حسین تارڑ کا سیشن تھا۔

آڈیٹوریم پرندوں سے بھرگیا، دروازے بند کردیے گئے۔ بہت سوں کو باہر موجود بڑی اسکرین پر اکتفا کرنا پڑا ۔اُس میگا سیشن کی میزبانی کرتے ہوئے، دل کی اتھاہ گہرائیوں میں مجھے یہ ادراک ہوا کہ مستنصر حسین تارڑ کے حصے میں جو محبت آئی اور بے پناہ آئی ، اُس کی نہ تو ماضی میں کوئی مثال ملتی ہے، نہ ہی مستقبل میں کوئی فکشن نگار اِس کی گرد کو پا سکے گا۔ تارڑ صاحب کی انفرادیت کا نمایاں ترین پہلو ’’ریڈرز ورلڈ ‘‘ہے۔ سائبر اسپیس پر موجود ہزاروں قارئین کا گروپ ۔ قارئین، جو اُن کے لکھے الفاظ کو محبت وعقیدت سے پڑھتے ہیں، تجزیے تبصرے کرتے ہیں۔ اورپھر’’ تکیہ تارڑ‘‘ کے نام سے مختلف شہروں میں ہونے والی وہ انوکھی بیٹھکیں،کبھی کسی پارک میں،کبھی دریا کنارے ، کبھی چلتی بس پر ،کبھی کسی کھنڈر میں۔

تو اِس میگا سیشن کی میزبانی کرتے ہوئے، میں اُس محبت کے بہاؤ کو محسوس کرسکتا تھا، جو ہر ادیب کا خواب ہوتی ہے، مگر ہر کسی کا نصیب نہیں بنتی ۔

ایک طویل انتظار کے بعد۔۔۔ تارڑ کے ناول ’’اے غزال شب‘‘ کے بعد ، جس میں سوویت یونین کے زوال کو موضوع کیا گیا، اس بے بدل ادیب کے قلم نے ایک اور ناول کو جنم دیا ہے۔ پھر ایک چوٹی سرکی ہے، پھر اُس جرات کا الاؤ روشن کیا ، جس کی چند ہی چنگاریاں ہمارے فکشن میں دکھائی دیتی ہیں ۔

منطق الطیر جدید کیا ہے؟ پنچھیوں کے پروں کی دل موہ لینے والی آوازیں ؟ گرویدہ بنا لینے والے مناظر ؟ نہیں۔ یہاں ایک فکر کارفرما ہے۔ جو موضوع شجر ممنوعہ ٹھہرے، جیسے مذہب، اس پر قلم اٹھانے کے لیے بڑا حوصلہ درکار۔ اور معاملہ فکشن کا ہو، توپھرحوصلہ بھی ناکافی ٹھہرتا ہے۔ اب آرٹ شرط ہے۔حساس موضوع کو فکشن کرنا پل صراط عبور کرنے کے مترادف، اور منطق الطیر، جدید کا مصنف یہ کرگزرتا ہے کہ وہ ایک بلند پایہ ادیب ہے۔ ایک پنچھی، جو اس آسمان میں پروازکرتا ہے، جہاں خوف کی پہنچ نہیں۔

البتہ یہ ایک چیلنج تھا ۔’’منطق الطیر‘‘ ممتاز صوفی فرید الدین عطارکا شاہکار تھا، جس نے صدیوں کوگرویدہ بنایا ۔ عطارکے الفاظ تومولانا روم کے دل میں بھی دھڑکتے تھے۔ تو کیا جسے مرشد کہا جائے،جس سے عقیدت ہو، اُس کی تخلیق کردہ کائنات سے مماثل یا مشابہ کائنات تخلیق کرنا ایک دشوار، بلکہ نا ممکن عمل نہیں؟

اور یہی سوال اس یادگار سیشن کے اگلے روز، ایک پنج ستارہ ہوٹل کے کمرے میں، جس کی کھڑکی کے اُدھر سمندر پھیلا تھا، اور جہاں بگلے اترتے تھے، راقم نے ناول نگار کے سامنے رکھا ۔اور تب تارڑ نے، جس کے نزدیک ناول ایک مستقل معجزہ ہے، کہا تھا: ’’فکشن نگار بنیادی طور پر اس خواہش میں مبتلا ہوتا ہے کہ وہ بھی چھوٹا سا تخلیق کار بن جائے، تاکہ وہ اپنے تخلیق کار (خدا) کو بتا سکے کہ وہ بھی کسی حد تک قادر ہے۔ فرید الدین عطار کا کلاسیک منطق الطیر گزشتہ پچاس برس سے میرے زیرمطالعہ ہے، میری بیش ترکتابوں میں اس کے پرندوں کا تذکرہ آتا ہے،اب سوال یہ ہے کہ یہ پرندے کیوں مجھے اپنی جانب کھینچتے ہیں؟ دراصل ہم بھی عطارکی طرح سچ کی تلاش میں ہیں، سچ ملے نہ ملے، یہ الگ بات ہے۔ تو ’’منطق الطیر جدید‘‘ فرید الدین عطار کو ٹریبوٹ ہے، ساتھ یہ کہنے کی کوشش بھی ہے کہ ہم جو آپ سے متاثر ہوئے ہیں، ہم بھی ایک چھوٹے سے تخلیق کارہیں، آپ ہی کے نقش قدم پر چل کر اپنے پرندوں کے ساتھ اپنے سچ کی جستجو میں ہیں۔‘‘

تو یہ کتاب اپنے پرندوں کے ساتھ اپنے سچ  کی جستجو ہے۔

تارڑ صاحب کے فن میں چار چیزیں رواں دواں ہیں ۔ پرقوت تخیل ، مسلسل سفر سے حاصل ہونے والا اَن مول تجربہ ۔ بے پناہ مطالعہ اور لکھنے کی میز۔تارڑ کا لکھنے کی میز سے اٹوٹ رشتہ ہے۔ قلم دوات نے بھی بے وفائی نہیں کی اور یوں ایک کے بعد ایک دل پذیرکتابیں جنم لیتی رہیں۔منطق الطیر جدید اس فہرست میں ایک اور اضافہ ہے۔

اس ناول کے اصل کردار وہ پرندے ہیں ، جو صدیوں سے جیوت ہیں، سامی وغیرسامی ادیان کے بانیوں کی من موہنی صورت دیکھ چکے ہیں۔ ایک کوہ طور پر موجود تھا، ایک نے صلیب اور سمندرکے درمیان چکرکاٹے ، ایک نے غار حرا میں چاندنی اترتے دیکھی۔ ایک پنچھی بلخ کے آتش کدہ سے آیا، ایک نے بدھ کی پسلی سے جنم لیا ، ایک کرشن کی بنسی سے برآمد ہوا۔ یہ پنچھی ٹلہ جوگیاں کی سمت آتے ہیں، جو جہلم سے بیس میل دور، تین ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے ۔

اور ادھر ان کی مزید پرندوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ یہ نئے پرندے اسی گندمی دھرتی سے ہیں۔ یہ ہیر، سوہنی اور صاحباں کا نور ہیں، قرۃ العین طاہرہ ہیں اور یہاں تارڑ نے، ایک بلند پایہ ادیب کے مانند اپنے نظریے کو ادب میں گوندھ دیا۔ ایسا نظریہ ، جو اگرکوئی اور پیش کرتا، تو شاید پڑھنے والا دہل جاتا ۔ادیان اور عشق، دو طرح کے پنچھی، مرد اور عورت ،ایک انوکھا امتزاج۔یہ کہانی کا سب سے نازک حصہ ہے۔ایک ماسٹر رائٹر کے مانند تارڑ نے ٹلہ جوگیاں کے سفرکی، ایک خواب سی دنیا تخلیق کی، جہاں تاریخ، اساطیر اور مذہبی روایات سے نکلنے والے کرداروں سے ہماری ملاقات ہوتی ہے۔

کیا ’’منطق الطیر جدید‘‘ ایک مشکل منصوبہ نہیں تھا ؟ میرے اِس سوال کا جواب اثبات میں دیا گیا۔ تارڑ کے اپنے الفاظ میں، ناول ’’بہاؤ‘‘کے بعد اگرکسی ناول پر یکسوئی سے کام کیا ، تو اسی پرکیا۔ کسی نے کہا کہ اس میں عام طرز کے برعکس واقعات نگاری نہیں۔ تو میں نے جواب دیا کہ یہ اسی لیے مشکل ہے کہ کوئی واقعہ نہیں، ایک مسلسل کیفیت، ایک مسلسل واقعہ ہے۔ ہر فرد یہ جاننے کا خواہش مند ہوتا ہے کہ میں کون ہوں ؟ کہاں سے آیا ہوں؟ کہاں جاؤں گا؟ اگر وہ خوش قسمت ہو، تو ایک آدھ کا جواب اسے مل جاتا ہے اور نہیں بھی ملتا، تب بھی وہ جدوجہد کرتا رہتا ہے۔ تو یہ ناول ایک ایسی ہی کاوش ہے۔‘‘

منطق الطیر جدید صرف قارئین کے لیے چیلنج نہیں، جن سے یہ تاریخ، مذہبی روایات اور اساطیر سے واقفیت کا تقاضا کرتا ہے، یہ مصنف کے لیے بھی آسان نہ تھا ۔ مصنف، جو اب آٹھ عشرے جی چکا ہے، اورکچھ ایسا لکھنا چاہتا ہے، جو اس نے پہلے نہیں لکھا۔ ناول کے اختتام میں، جب مذہبی بیانیوں کی نمایندگی کرنے والے پنچھی نیشا پورکی سمت جاتے ہیں، عطارکی سمت۔۔۔ تووہ ویسے نہیں رہتے، جیسے وہ پہلے تھے کہ عشق کی سنہری آگ نے انھیں بدل دیا ہے اور دیکھو، وہ اڑان بھر چکے ہیں۔ اپنے پیچھے ایک نومولود پنچھی چھوڑ کر۔ پنچھی، جو ہمارا ہے، جس سے ہم محبت کرتے ہیں۔

کیا منطق الطیر جدید کے بعد ، چند برس بعد، پھر کوئی ناول لکھا جائے گا؟ مصنف میرے اِس سوال کا جواب نفی میں دیتا ہے، مگر کیا یہ حتمی جواب ہے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ کل پھر کوئی پنچھی دل کی زمینوں پر اتر آئے، اور قلم میں کہانی بھر دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔