سال بدل گیا، ہم بھی بدلیں

عابد محمود عزام  جمعرات 3 جنوری 2019

2018ء اپنے اختتام کو پہنچ گیا ۔ یہ سال دنیا بھر میں کہیں دھماکے کی گونج سے سہما ہوا دکھائی دیا ہے توکہیں زخمیوں کی چیخ و پکار سے کراہتا رہا ہے۔ کہیں پناہ گزینوں کے کیمپوں سے درد بھری آواز بن کے ابھرا ہے تو کہیں روشن مستقبل کی تلاش میں تارکین وطن کو سمندر کے بیچوں بیچ ڈبوتا دکھتا ہے۔

کہیں قدرتی آفات اپنی دھاک بٹھاتی نظر آتی ہیں تو کہیں انسانی غلطیاں فضاء سے زمین بوس ہوتے دکھائی دیتی ہیں۔کہیں روایتی سیاست کے بوسیدہ لباس کی جگہ نئی پوشاک اوڑھی مسکراتی ہے توکہیں سکڑتی دنیا میں تہذیب و تمدن کے انضمام سے سماجیات کے بدلتے ڈھنگ جگمگ کرتے ہیں۔ 2018ء جہاں دنیا بھر میں بہت سے اہم واقعات کو لے کر اپنے اختتام کو پہنچا ہے، وہیں پاکستان میں بھی کئی اہم واقعات رونما ہوئے۔ پاکستان کئی اہم مذہبی، سیاسی، ادبی شخصیات سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگیا۔

پورا سال سیاسی رسہ کشی جاری رہی۔ مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے حریف جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی رہی۔ مختلف سیاسی رہنماء کرپشن میں ملوث رہے۔ متعدد کے کیسز اعلیٰ عدالت تک پہنچے، جس بنا پر انھیں جیل کی ہوا کھانا پڑی ۔ 2018 ء کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ 2018ء میں نصف سال مسلم لیگ ن کی حکومت رہی اور نصف سال پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں گزرا۔دونوں حکومتوں میں دعوے و اعلانات کا سلسلہ جاری رہا۔ عوام سیاستدانوں کے مفادات کی چکی میں پستے رہے ۔

اپوزیشن اور حکومت عوام کے جذبات کے ساتھ کھیلتے رہے۔ دونوں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے اور الزامات کی بوچھاڑکرتے رہے، لیکن کسی نے عوام کے حقوق کی بات نہ کی اور عوام کے حقوق کے لیے جمع نہ ہوسکے۔ عوام کو 2018ء میں بھی لوڈشیڈنگ ، بدامنی، غربت، مہنگائی، بیروزگاری اورکرپشن سے نجات نہ مل سکی اور ضروریات زندگی بھی مسیر نہ آسکیں، بلکہ 2018ء کے آخر نصف میں تو مہنگائی نے بجلی کی سی تیزی کا سفر طے کیا اور دن بدن اس مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے۔ سیاستدانوں نے ہمیشہ عوام کا حقوق کا نعرہ لگا کر ان کے حقوق کا استحصال کیا اور ہمیشہ اپنے مفادات کو مقدم رکھا۔

عوام بھی کسی سے پیچھے نہ رہے، وہ بھی خود غرض ہوگئے اور صرف اپنے مفادات کا ہی سوچتے ہیں۔ اپنے مفادات کی خاطر دوسروں کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ ہم سب بہت سے ایسے کام کرتے ہیں جو ہمیں نہیںکرنے چاہیے۔ ہم لوگ صرف سیاستدانوں کو ہی برا بھلا کہتے ہیں، مگر خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اب 2019ء میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ہم سب کو خود کو بدلنا چاہیے۔ ہم سب کو نئے سال میں نئے اور اچھے کام کرنے چاہیے اور پاکستان کی بہتری ، تعمیرو ترقی اور اچھائی کے لیے نیکی کے فروغ اور برائی کے خاتمے کے لیے جد وجہد کرنی چاہیے۔

نئے سال کے لیے نئی امیدوں ،خواہشوں، امنگوں ، ارادوں اور منصوبوں کے ساتھ ہم کوگزرے سال کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے کہ ہم نے کیا کھویا ؟کیا پایا؟ ہم تھوڑا وقت نکال کر اپنا محاسبہ کریں کہ ہمیں سال گزشتہ میں کیا کرنا چاہیے تھا اور کن چیزوں کو نہ کرنا بہتر تھا۔ کتنے لوگوں کو ہم سے فائدہ پہنچا، ہم نے کن سے ہمدردی کی اور ہمیں 2019ء میں کیا کیا کرنا چاہیے۔ ان تمام چیزوں کا ہمیں محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر آنے والا سال امیدیں اور توقعات لے کر آتا ہے اور انسان کے عزم کو پھر سے جوان کرتا ہے کہ جو کام پچھلے سال ادھورے رہ گئے، انھیں اس سال مکمل کر لینا ہے۔ افراد کی طرح اقوام کی زندگی میں بھی نیا سال ایک خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے، یہ قوموں کو موقع فراہم کرتا ہے کہ گزشتہ غلطیوں سے سبق سیکھ کر آنے والے سال میں اس کی کمی پوری کرنے کی کوشش کریں۔

ہر نیا سال نئی اْمیدیں لے کر آتا ہے اور ہر نئے سال میں نئے عزم کرنا ہوتے ہیں، اگر ہم اپنی زندگی میں ایک نئے عزم کے ساتھ تہیہ کرلیں کہ ہم آج سے ہی جھوٹ، مکر، فریب، غیبت، بخیلی، تنگ دلی، فضول گوئی، بے صبری، خودنمائی، خود ستائی، دروغ گوئی، وعدہ خلافی، رازکی سبوتاژی، دشنام طرازی، لڑائی جھگڑے، آبروریزی، ایذارسانی، نفرت، غصہ، احساس برتری، احساس کمتری، تخریب کاری، چغل خوری، حرام کاری، کام چوری، ہٹ دھرمی، حرص ، ریاکاری اور منافقت جیسی برائیوںکا اپنی زندگی سے ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرکے۔ نظم و ضبط، تعاون، امداد باہمی، محبت، اعتبار، وسعت نظری، سچائی، نیکی، انصاف، پاس عہدی، امانت داری، ہمدردی، رحم، فیاضی، فراخ دلی، صبر و تحمل، اخلاقی بردباری، خود داری، شائستگی، ملنساری، فرض شناسی، وفا شعاری، مستعدی، احساس ذمے داری، والدین کی خدمت، رشتے داروں کی مدد، ہمسایوں سے حسن سلوک ، دوستوں سے رفاقت، یتیموں اور بے کسوں کی خبر گیری، مریضوں کی تیمارداری، مصیبت زدہ لوگوں کی اعانت، پا ک دامنی، خوش گفتاری، نرم مزاجی، خیر اندیشی، راست بازی، کھرا پن، فراخ دلی اور امن پسندی جیسی اچھائیوں کو اپنائیں گے، ورنہ ہر نیا (ہجری، عیسوی) سال صرف ہندوسوں کی تبدیلی کے سوا کچھ نہیں۔

ہمیں نئے سال میں دوسروں کے لیے بھی سہولیات پیدا کرنا ہوں گی ۔درحقیقت کامیابی یہ نہیں کہ ہم اپنی ذاتی زندگی کس حد تک خوشحال بنا سکتے ہیں، بلکہ کامیابی کا معیار تو یہ ہے کہ ہم دوسروں کی زندگی خوشگوار بنانے میں کس حد تک کامیابی حاصل کرتے ہیں ۔ زندگی کے سفر کے مشاہدے میں یہی سیکھا ہے کہ دوسروں کا بوجھ اٹھانے والا خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے اور دوسروں پر جبراً بوجھ لادنے والا کئی قسم کے فوبیا اور بوجھ میں دبتا چلا جاتا ہے۔ اگر ہم سب نئے سال کو نئی امید کے ساتھ گزاریں تو کامیابی ہماری منتظر ہوگی، کیونکہ امید روشنی ہے، زندگی ہے، امید کی ڈور ہاتھ میں تھامنے والوں کے لیے زندگی کا سفر کتنا ہی کٹھن کیوں نہ ہو راستہ سہل طریقے سے کٹ جاتا ہے۔انسان کو کبھی امید نہیں چھوڑنی چاہیے۔ زندگی کے سفر میں کبھی کبھی ایسے مو ڑ بھی آتے ہیں جب انسان امید اور نا امیدی کے دوراہے پر آ کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں بھی انسان کو اس ذات پر امید رکھنی چاہیے، جس کے پاس ’کْن ‘کی طاقت ہے۔

نیا سال اس احساس کو جنم دیتا ہے کہ سب کچھ بدل جائے گا۔ وہ جو دکھ ماضی کا حصہ تھے وہ دکھ اور وقت کٹ گیا، اب نئے تقاضے ہمارے منتظر ہیں، لیکن درحقیقت نئے سال کے ساتھ نیا احساس نئے تفکر نئی منزل اور نئے راستوں جیسے عناصر کو مجتمع کر دیا جائے تو ہم اپنے گھر کی دہلیز پر امیدوں اور امنگوں کا سورج لگا سکتے ہیں جس کی روشنی سے پورا گھر منور ہو جائے گا۔نئے سال کے تقاضوں میں تو تجدید وفا تجدید حب الوطنی اور احساس کا جذبہ گر مطمع نظر بن جائے تو ہر آنے والا سال نئی نوید اور خوشخبریاں لے کر آتا ہے۔

نئے سال میں ہمیں سب کے لیے دعا گو ہونا چاہیے ،اللہ تعالیٰ ہم سب کو برے وقت ، برے دشمن کے شرسے محفوظ رکھے۔ نیا سال 2019ء پاکستان سمیت پوری دنیا میں امن اور سلامتی کا سال ہو۔ پاکستان میں غربت ، مہنگائی، بیروزگاری اور جہالت کا خاتمہ ہو اور ہر طرف امن ہی امن ہو۔ اللہ تعالی ہم سب کو اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائیں۔ 2019ء میںہمارے لیے ڈھیروں خوشیاں اور خوشخبریاں ملیں۔ تمام مسلمانوں کے لیے مسرت و شادمانی کا سال ہو۔ پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک ترقی یافتہ ملک بن جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔