پارٹی شروع

سید نور اظہر جعفری  جمعرات 3 جنوری 2019

بادشاہ نے اپنے معزول بادشاہ باپ سے کہا کہ ’’آپ نے صحیح طور پر حکومت نہیں کی۔ غلط فیصلے کیے اور اپنی پسند کے لہٰذا اس وقت آپ گرفتار ہیں اور قابل سزا ہیں، اس کے علاوہ آپ نے عوام کا پیسہ ایک عمارت پر لگا دیا جو آپ کی پسند ہے عوام کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

آپ اسے محبت کی یادگارکہتے ہیں، دس بچوں کی ماں سے ایک بادشاہ کس طرح محبت برقرار رکھ سکتا ہے یہ تو صرف محنت کش کا کام ہے کیونکہ اس کے پاس چوائس نہیں ہوتی، آپ نے تو اس محبت کے مرتے ہی اس کی بہن سے شادی کرلی۔ بے شک خطاکار ہو مگر بادشاہ رہے ہو لہٰذا کچھ حق ہے آپ کا تو آپ کو قلعے کے برج میں قید کیا جائے گا جہاں سے آپ چوبیس گھنٹے اپنی حماقت اور عوام کے پیسے کے زیاں کو دیکھتے رہیں۔ دراصل یہ بھی آپ نے اپنی پبلسٹی کی ہے کیونکہ مرنے والی کے سرتاج اور ہندوستان کے تاجدار آپ رہے ہیں۔ اس وجہ سے آپ نے اس کا یہ نام رکھ کر اپنا نام بنایا ہے تو اس نام کو اور عمارت تاج محل کو تکتے رہیے گا اور سوچتے رہیے گا کہ کاش میں کوئی اچھا کام کرلیتا۔‘‘

ایک دو باتیں اور ہیں۔ آپ کوئی ایک چیز پسند کر لیجیے کھانے میں وہی زندگی بھر آپ کو دی جائے گی۔ معزول بادشاہ بھی آخر بادشاہ تھا اس نے اپنے باورچی سے مشورہ کیا اور چنے کی دال پسند کرلی۔ اس کے مشیر باورچی نے اسے بتایا کہ چنے کی دال کی بہت سی ڈشز تیار ہوسکتی ہیں یوں آپ بور ہوئے بنا تین وقت کھانا کھا سکیں گے۔

بادشاہ نے مجرم بادشاہ سے کہا ’’اب آخری بات کہ آپ کچھ کام کریں تاکہ آپ کا خرچہ نکالا جاسکے۔‘‘ معزول بادشاہ نے کہا کہ ’’میں بچوں کو قرآن پڑھاؤں گا تو بچے فراہم کردیے جائیں۔‘‘ بادشاہ کے بیٹے بادشاہ نے کہا ’’ابھی تک حکمرانی کی عادت ختم نہیں ہوئی آپ معزول ہیں لہٰذا آپ کی ریکوئسٹ مسترد کی جاتی ہے۔‘‘

اس کے بعد تاریخ خاموش ہے کہ بادشاہ نے کیا کام دیا، بادشاہ کے ابا جی نے کیا کام کیا۔ تاریخ میں شاہی راویوں کے حوالے سے جو اب ترجمان کہلاتے ہیں اور ’’سب اچھا ‘‘ رپورٹ کرتے ہیں، ٹوپیوں کے سینے کا ذکر ملتا ہے، یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ٹوپی کس نے تیارکی ’’معزول‘‘ نے یا ’’موجود‘‘ نے۔

اس پورے قصے میں رنگ آمیزی میری حرکت ہے مگر واقعات اسی طرح ہیں ۔ یہ بادشاہ لوگ بھی عجیب ہوتے ہیں۔ بھارت میں تو دال روٹی صدیوں سے چل رہی ہے، وہ یہاں آکر حیران بلکہ پریشان ہوگیا۔ اپنی ڈائری میں بابر نے لکھا یہاں کے لوگ عجیب ہیں۔ اناج سے اناج کھاتے ہیں۔ بادشاہ گوشت کے علاوہ کھانے کا تصور نہیں کرسکتا ۔ سفر میں گھوڑے کا گوشت کھایا جاتا تھا۔ انھی کی اولاد یہ دو بادشاہ تھے جن کا ذکر اوپرکیا گیا۔

بعد میں آنے والے بادشاہ زیادہ چالاک تھے وہ اپنے اسحق ڈار کے مشورے پر ہارنے والے سے پگڑی بدل لیتے تھے جس میں قیمتی ہیرا چھپا ہوا تھا۔ لاڈلوں کا سلسلہ بھی پرانا ہے، بھارت کی ہندو مسلم تمام تاریخوں میں ایسی خواتین ملکاؤں کے نام اور کارنامے ملتے ہیں کہ انھوں نے اپنے لاڈلے بیٹوں کو بادشاہ بنانے کے لیے کیا گیا۔ ’’درباری‘‘ اور ’’محلاتی‘‘ سازشوں کے ذریعے یہ کارنامے انجام دیے مگر ہر ایسے انجام کا بالآخر انجام ٹھیک نہیں ہوسکا کیونکہ وہ ’’نقل‘‘ کرکے آئے تھے یا ’’سیاسی سفارش‘‘ اور ’’اقربا پروری‘‘ کا حاصل تھے ۔

نہ صرف وہ مارے گئے بلکہ اسپانسرکو بھی ’’عتاب شاہی‘‘ دیکھنا پڑا اور ان سے تو اگر یہ کہا جاتا یا کہا گیا ہوگا کہ اپنا کھانا خود پکا کرکھاؤ تو یہ بھی ’’سزا ‘‘ تصور کی گئی ہوگی۔ اب غیر منقسم ’’ہندو استھان‘‘ میں بسنے والے وہ لوگ تھے جو ان ’’بہادر شاہ‘‘ یا شاہان کی بچی کچھی اولاد اور خاندان یا ’’ہندو استھان‘‘ کے فاتح یا شکست خوردہ ’’لڑاکاؤں‘‘ کی فوج کے سپاہی جو واپس نہیں جاسکے۔ غزنی، قندھار یا ’’صحرائے گوبی‘‘ اور یہیں رہ گئے۔ہمارا ملک بھی اس وقت اس میں شامل تھا اور اس میں بھی یہ لوگ آباد ہوئے۔ بلوچستان، سندھ، پنجاب ایک راستہ اور طورخم پشاور دوسرا راستہ تھا دونوں مشکل اکیلا مسافر بچ کر نہیں جاسکتا تھا لہٰذا جو چلے بھی ہندو استھان کے مرکز سے وہ اس راستے میں رہ گئے آباد ہوگئے۔ خصوصاً بلوچستان ان لڑنے والوں نے آباد کیا آج بھی کہیں نہ کہیں ’’نبرد آزما‘‘ ہیں۔

پاکستان بنا تو ’’شاہی‘‘ نے ’’سیاسی‘‘ کا لبادہ اوڑھ لیا ۔ ان لوگوں نے مل کر قائد اعظم اور قائد ملت کو ختم کیا، اس کے بعد کچھ طاقتوں کے لاڈلے سربراہ رہے۔ پھر یہ نچلی سطح پر آگیا اور ایوب کے لاڈلے بھٹو اور افغان جنگ کو بالواسطہ پاکستان کے سر منڈھنے والے ’’ظلمت کو ضیا کیا لکھنا‘‘ کے لاڈلے سفارشی شاہ میاں شریف بھی لاڈلے ہوگئے اور کیا لکھیں بے شک جس کو چاہے ’’شہید‘‘ کہیں یا لکھیں مگر ’’مقصد شہادت‘‘ وہ نہیں جو کہا جاتا ہے اقتدار ہی اصل مقصد تھا۔ مال و دولت ہونے کے باوجود غریبوں کی خدمت تنخواہ اور مراعات لے کر اور اپنے خاندان کو دے کر غریب عوام کی کیا خدمت کی؟ عوام کا پیسہ کم عوام پر خرچ کیا خود زیادہ اڑایا یہ خدمت کی ہے۔ پانچ چھ گنا یا شاید اس سے زیادہ آبادی والا ملک ’’بھارت‘‘ وہاں ڈالر کا ریٹ کیا ہے اور یہاں کیا ہے؟

مغل بادشاہوں کی طرح تعمیرات خود رہنے کے لیے اور اخراجات اور پھر کہا جاتا ہے کہ پیسہ چوری کرکے اولاد کو دیا اب وہ اولاد پیسہ واپس کرنے سے انکاری ہے۔

باپ بڑا نہ بھیا ‘بھیا

سب سے بڑا روپیہ

انصاف بھی بادشاہوں والا ہے، بلکہ ان سے بڑھ کر پسندیدہ جیل دے دی گئی، جو گھر سے قریب ہے، آپ تو مجرم ہیں ملزم بھائی کے ساتھ کمرہ مل گیا۔ اربوں کھربوں کی لوٹ مار پر اب تک صرف سات سال سزا اور دس سال نااہلی اس کے بعد مال بھی ان کا اور اقتدار بھی ایسا وہ سمجھ رہے ہیں عوام کو بھی سمجھا رہے ہیں، دال چنا نہیں گھر کا کھانا کھا رہے ہیں اور گرمی میں A.C ہوگا، خدمت گزار بھی ہے اور صاحبزادی بھی نمونتاً اڈیالہ یافتہ ہوگئی ہیں کہ وہ تقریروں میں کہہ سکیں عوام کے لیے جیل کاٹی۔ عوام بے وقوف نہیں جرائم پر سزا ملی اور ملے گی۔

ٹوپی سینے کے بجائے قیدیوں کو پڑھانے کا کام مانگا ہے۔ شاید اس طرح خود بھی ’’سبق‘‘ دہرالیں گے اور قیدیوں کو ’’لیگی‘‘ بنالیں گے۔ ایمانداری تو چھو کر نہیں گزری جو پڑھائیں گے وہ کیا ہوگا ہم نہیں کہتے۔ ہم صرف عدالتوں سے یہ کہتے ہیں کہ یہ تمام مراعات اس جرم جیسے جرم کرنے والے ڈاکوؤں، لٹیروں کو بھی فراہم کی جائیں کیونکہ وہ بھی غیر سیاسی جرم کرکے ’’کوٹ لکھپت، اڈیالہ‘‘ اور دوسری جیلوں میں بند ہیں۔ کیا وہ عدالتوں کے ’’لاڈلے‘‘ نہیں ہوسکتے؟ دوسری لاڈلا پارٹی کی کہانی بھی جلد منظر عام پر آجائے گی۔ پارٹی تو ابھی شروع ہوئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔