پنگے بازی کی پنگ پانگ

اسلم خان  جمعرات 11 جولائی 2013

یہ کیا ہو رہا ہے؟ اداروں کو باہم ٹکرانے کے لیے شعبد باز اس قدر جلد میدان میں آ جائیں گے۔ اس کی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔ جناب نواز شریف سابقہ تجربات کی روشنی میں بڑے تحمل اور دھیرج سے پیش قدمی کر رہے ہیں لیکن بعض عناصر ایک بار پھر جمہوری نظام کو دائو پر لگانے کے لیے میدان میں آ گئے ہیں۔ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کا افشا اداروں کو باہم لڑانے کی سازش ہے۔

یہ افشا قومی سلامتی سے متعلق اداروں کو دبائو میں لا نے کے نفسیاتی کھیل کا حصہ ہے جس پر بعض حلقے تالیاں پیٹ رہے ہیں۔ ایک صاحب نے تو یہ گراں قدر مشورہ دیا ہے کہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کا وفاقی حکومت کو اردو تر جمہ کرا کے افادہ عام کے لیے تقسیم کرنا چاہیے۔ صرف اس پر اکتفا نہیں بلکہ یہ مشورہ بھی دیا گیا ہے کہ شرح خواندگی ناکافی ہونے کی وجہ سے اس رپورٹ کی اردو اورعلاقائی زبان میں بولنے والی کتا ب (Audio Book) بھی بنائی جائے۔

اس رپورٹ کی اصل کاپی سیکریٹری دفاع کے پا س محفوظ ہے لیکن لیک کی گئی رپورٹ نقل بمطابق اصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ رپورٹ کس نے لیک کی ہے ۔یہ سب کچھ منظم اند از میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ہے۔ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کو شایع کرنے کا اسکوپ (Scope) مقامی ذرایع ابلاغ کے ذریعے افشا کر نے سے مقاصد حل نہیں ہو سکتے تھے اس لیے الجزیرہ کا سہارا لیا گیا ، ویسے بھی انگریزی الجزیرہ پر خبر نشر ہوتے ہی عالمی ذرایع ابلاغ خاص طور پر ٹی وی چینلوں نے بلا تاخیر اس رپورٹ کے بارے میں ڈھول بجانا شروع کردیا۔ اس رپورٹ کو لیک کرنے کا واحد مقصد قومی سلامتی کے اداروں کو دبائو میں لانا ہے کہ ان کی غفلت کی وجہ سے امریکی کمانڈوز پاکستانی حدود میں داخل ہو ئے اور اسامہ بن لا دن کو مارنے کے بعد بلا روک ٹوک واپس چلے گئے اور یہ کہ اسامہ ایبٹ آباد میں چھ برس کیسے رہا۔

پاکستان کی مختصر تاریخ میں اس طرح کی رپورٹ کا افشا پہلی بار نہیں ہوا۔ ہمارا اجتماعی قومی حافظ بہت کمزور ہے ورنہ یہ کو ئی بھولنے والی با ت نہ تھی کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے با رے میں حمود الرّحمٰن کمیشن رپورٹ تما م تر تفصیلات کے سا تھ بھارتی ذرایع ابلا غ کے ذریعے ہم تک پہنچی تھی ‘اس کو لیک کر نے کا مقصد بھی وہ ہی تھا جو ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ افشا کر کے حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس طرح کی کوششوں اور سازشوں سے کیا مثبت نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں، یہ سب نوشتہ دیوار ہے۔

اپنے پڑھنے والو ں کی یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ جناب نواز شریف کے دوسرے دور اقتدار میں Rouge Army والا پورے صفحے کا اشتہار برطانوی اخبارات میں شایع کرایا گیا تھا۔ جس کے بارے میں تحقیقات کرانے کا اعلا ن کیا گیا۔ لیکن یہ سب بے نتیجہ ثابت ہوا تھا ‘آج تک علم نہیں ہو سکا کہ وہ اشتہار کس کی کارستانی تھے۔ جناب نواز شریف کی شہرت ہی مرد بحران کی رہی ہے۔ اپریل 1993ء میں مرحوم غلام اسحٰق خان کے خلاف قوم سے خطاب نے ان کی حقیقی سیاسی دور کا آغاز کیا۔ جس کے بعد وہ وسطی پنجاب کے شہری متوسط طبقے کے دلوں کی دھڑکن بن گئے اور دو دہا ئیاں گزرنے کے با وجود ان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

جناب نواز شریف سے زیادہ کس کو ان معاملات کی نزاکت کا احساس ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کامل دس سال سارے خاندان اور عزیر و اقارب سمیت جلاوطنی کے دکھ اٹھا ئے ہیں۔ جدہ کے سرور محل میں برادرم رئوف طاہر کی وجہ سے اس کا لم نگا ر کو بھی جنا ب نو از شریف کے عشائیے پر طویل گفتگو کا موقع ملا تھا جس میں انھوں نے بڑے دلچسپ اور معنی خیز ریمارکس دیے تھے۔ اس بے تکلف گفتگو کے دوران انھوں نے بتا یا کہ ایک وزیر صاحب انھیں ہمیشہ فرنٹ فٹ پر کھیلنے اور چھکے مارنے کا مشورہ دیتے تھے ۔ جناب نواز شریف نے مسکر اتے ہو ئے بتایا کہ جب میں نے جنرل مشرف کو برطرف کرنے کا چھکا مار کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ صاحب رفو چکر ہوچکے تھے۔ اور میں میدان میں اکیلا کھڑا تھا۔ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کو لیک کر نے کا معاملہ سنگین نوعیت کا ہے جس کے ذمے داروں کا تعین ہما ری ذمے داری ہے۔

یہ رپور ٹ افادہ عام کے لیے نہیں تھی بلکہ اپنی سلامتی سے متعلقہ معاملات میں پیدا ہونے والی کمی اور کوتاہیوں کا جائزہ لینے کے لیے شاندار دستاویز ہے۔ جسے قوم کے عالی دماغ فرزندوں نے بڑی دیدہ ریزی سے مرتب کر کے 32 سفارشات بھی پیش کی ہیں لیکن اس حسا س رپورٹ کو افشا کر کے قومی سلامتی کو دائو پر لگا دیا ہے۔اس سارے معاملے کا خوش آیند پہلو یہ ہے کہ سابق وفا قی وزیر اطلاعات قمرالزمان کائرہ نے ایبٹ آباد کمیشن رپو ٹ کی آڑ میں مسلح افواج کو ہد ف بنانے والے عناصر پر شدید تنقید کر تے ہو ئے کہاہے کہ اسامہ بن لادن کی موجودگی اور امریکی آپریشن کو اپنے اداروں کی ناکامی قرار دینا نا انصافی ہے۔

واشنگٹن سے آنے والی اطلاعات کے مطابق امریکی دسمبر 2014ء تک مکمل فوجی انخلاء کے بارے (Zero Option) پر بھی سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں‘ اس سلسلے میں افغان صدر حامد کرزئی کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔ زیرو آپشن پر عملددارآمد کی صورت میں امریکا فوری اور مکمل فوجی انخلاء کر کے افغانستان کے تمام معاملات افغانوں کے سپرد کر کے فارغ ہو جا ئے گا۔ یہ وہ دیرینہ مطالبہ ہے جو طالبا ن کے سر براہ ملا عمر مسلسل کرتے آئے ہیں۔ اس صورت میں جناب حامد کرزئی کے اقتدار اور زندگی کا دار و مدار افغان نیشنل آرمی اور امریکی محافظوں پر ہو گا۔ اس پس منظر میں ایک دوسری خبر کچھ یو ں ہے کہ امریکی بحریہ نے لڑاکا طیارے کے ججم کے برابر بڑ ے ڈورن کا کامیاب تجربہ کیا ہے جو طیارہ بردار بحری جہاز سے پرواز کر نے اور اس پر اترنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ X-47B نا می یہ ڈرون متحرک ائیرکرافٹ کیرئیر سے ٹیک آف کر نے اور رکنے کی آزمائش میں پوار اترا ہے۔

اس ڈورن کی کامیاب پرواز کے بعد امریکا کو اپنے ڈرون طیاروں کو استعمال کرنے کے لیے کسی بھی ملک کے ہوائی اڈوں کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ اب امریکی بین الااقوامی سمندروں میں موجود اپنے طیارہ بردار بحری جہاز کو ڈرون حملوں کے لیے استعمال کر سکیں گے۔ یہ تجربہ ورجینیا کی ساحلی پٹی کے قریب لنگر انداز US Geroge W Bush نامی طیارہ بردار بحری جہاز پر کیا گیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ جار ج ڈبلیو بش کون ہے اور اس کا فساد فی الارض برپا کر نے میں کیا کردار ہے۔

حر ف آخر یہ ہے کہ تما م فریقین اور حریفین پر واضح ہو نا چاہیے کہ پاکستان کی سلامتی ہر چیز پر مقدم ہے۔ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔ اس لیے ادنیٰ خواہشات اور تشنہ خوابوں کی تعبیر تلاش کرتے ہوئے حد درجہ احتیاط لازم ہے کہ پاکستان کی سلامتی پر کسی کا کو ئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔

خاصاں دی گل عاماں تائین نیئں مناسب کرنی
مِٹھی کھیر پکا محمد تے کتیاں اگے دھرنی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔