سانس کے ذریعے کینسرٹیسٹ کی انسانی آزمائش شروع

ویب ڈیسک  جمعـء 4 جنوری 2019
برطانیہ میں دوسال کے عرصے تک سانس کے ذریعے کینسر کی شناخت کا آلہ آزمایا جائے گا۔ فوٹو: بشکریہ اول اسٹون میڈیکل کمپنی

برطانیہ میں دوسال کے عرصے تک سانس کے ذریعے کینسر کی شناخت کا آلہ آزمایا جائے گا۔ فوٹو: بشکریہ اول اسٹون میڈیکل کمپنی

 لندن: برطانیہ میں سانس کی بایوپسی کی طبی آزمائشیں (کلینکل ٹرائلز) شروع ہوگئے ہیں جس سے کینسر کی شناخت میں مدد ملے گی۔ دو سال تک ایک خاص آلے کو انسانوں پر آزمایا جائے گا تاکہ سانس میں چھپے سرطان کے مرکبات کا اندازہ لگا کر اس کی افادیت کا جائزہ لیا جاسکے۔

کیمبرج میں واقع کینسر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور اول اسٹون میڈیکل مشترکہ طور پر آلے کی آزمائش کریں گی۔ دونوں مل کر بریتھ بایوپسی ٹیکنالوجی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیں گے۔

اس غیرمعمولی آزمائشی نظام کے تحت 1500 سے زائد انسانی سانس کی آزمائش کی جائے گا تاکہ سانس میں پوشیدہ خاص اجزا سے مختلف کینسر کی شناخت کی جاسکے جنہیں طبی زبان میں بایو مارکرز کہا جاتا ہے۔اگر سینسر کامیاب ہوجاتا ہے تو سرطان کی تشخیص میں یہ ایک انقلابی قدم ہوگا۔

اگرچہ گزشتہ عرصے میں ملیریا سمیت کئی بیماریوں کے لیے سانس کے ذریعے مرض معلوم کرنے والے بریتھلائزر بنائے گئے ہیں لیکن ان کی افادیت اب تک ثابت نہ ہوسکی لہٰذا ان کے عام استعمال کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔

پہلے مرحلے میں پھیپھڑے کے سرطان پر توجہ دی جائے گی اور اس ضمن میں ولیٹائل آرگینک کمپاؤنڈز ( وی او سی) تلاش کئے جائیں گے جو کئی اقسام کے کینسر کو ظاہر کرتے ہیں۔

خیال یہ ہے کہ مختلف کینسر کی صورت میں سانس کے ساتھ وی او سی خارج ہوتے ہیں لیکن اس کی کئی اقسام ہیں اور انہی کی آزمائش ہی ماہرین کا ہم ہدف ہے تاہم پھیپھڑے کے سرطان کے ساتھ ساتھ سانس کا سینسر، غذائی نالی، معدے، گردے، مثانے، پروسٹیٹ، جگر اور پتے کے سرطان کی ’بو‘ سونگھنے کی کوشش کرے گا۔

یہ آلہ 10 منٹ میں سانس کا نمونہ جمع کرکے اسے ایک کیسٹ نما کارٹریج میں داخل کرے گا جسے بعد میں ماس اسپیکٹرو میٹری  کمیتی طیف نگاری) سے اس کی کیمیائی ترکیب معلوم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا تاہم  اس آزمائش کے نتائج 2021ء میں شائع کیے جائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔