- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
بوسنیا، مسلمانوں کے قتل عام کی 18 ویں برسی، مزید 409 شہدا کی باقاعدہ تدفین
سربرنیتزا / دی ہیگ: بوسنیا کے علاقے سربرنیتزا میں1995 میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام کی 18ویں برسی کے موقع پر گزشتہ روز مزید409 شہدا کی جسمانی باقیات کی باقاعدہ طور پر تدفین کی تقریب میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور اس موقع پر رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے‘ شہدا کے ورثا ڈی این اے شناخت کے بعد میتوں سے لپٹ کر روتے رہے۔
دفن کیے جانے والے افراد میں43 نوعمر لڑکے اور ایک نوزائیدہ بچہ بھی شامل ہے۔ ان شہداکو بوسنیائی سرب فوج نے اس وقت قتلِ عام کے بعد اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا تھا اور اب ان کی شناخت کے بعد انہیں علیحدہ علیحدہ قبروں میں دفن کیا جا رہا ہے‘ تمام شہدا کے تابوت پر سبز رنگ کی چادریں لپیٹ دی گئیں تھیں۔ دوسری طرف ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں عالمی عدالت انصاف میں مسلمانوں کے قتل عام کا حکم دینے والے سرب رہنما رادون کرادووچ نے خود پر لگنے والے جنگی جرائم کے الزام سے انکار کرتے ہوئے سابق یوگوسلاویہ کیلیے بنائے گئے بین الاقوامی کریمنل ٹریبونل میں اپیل دائر کی ہے‘ اس سلسلے میں رادون کرادووچ کو گزشتہ روز عدالت میں پیش کیا گیا۔
ادھر سربرنیتزا میں تدفین کے منتظم افسر کنعان کرادووچ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’’آج ہم اس قتلِ عام کا شکار ہونے والے سب سے کم عمر فرد کو دفنا رہے ہیں جس کی باقیات 2012ء میں ایک اجتماعی قبر سے ملی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس بچے کو اس کے والد حجرالدین کے پہلو میں سپردِ خاک کیاگیا ہے جو خود بھی اس قتلِ عام میں مارے گئے تھے‘‘۔ ان 409 شہداء کو پوٹوکاری نامی خصوصی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا ہے جہاں اس قتلِ عام میں مارے جانے والے 6ہزار66افراد اب تک دفن کیے جا چکے ہیں جبکہ2306 افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔
تدفین کے موقع پر6 ہزار سے زائد افراد پوٹوکاری پہنچے جہاں سبز کپڑے سے ڈھکے تابوتوں کو ایک بڑے ہال میں رکھا گیا تھا۔ قبرستان آنے والے افراد میں دفن کیے جانے والوں کے رشتے داروں اور دوستوں کے علاوہ عام بوسنیائی شہری بھی شامل تھے۔ سربرنیتزا کو 90ء کی دہائی میں یوگوسلاویہ کے خاتمے کے وقت اقوام متحدہ نے محفوظ علاقہ قرار دیا تھا۔1995ء میں 6 سے 8جولائی کے درمیان بوسنیائی سرب افواج نے سربرینتزا کے اس غیر محفوظ علاقے کا محاصرہ کیا جہاں پر شمال مشرقی بوسنیا میں سرب افواج کے حملے سے بچنے کیلئے ہزاروں کی تعداد میں بوسنیائی شہریوں نے پناہ لے رکھی تھی۔
سربرنیتزا کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد بوسنیائی سرب فوجیوں نے وہاں موجود8ہزار سے زیادہ مسلمان مردوں اور لڑکوں کو قتل کر دیا تھا۔ اس قتلِ عام کو یورپ میں جنگ عظیم دوئم کے بعد تشدد کا سب سے بڑا واقعہ بھی کہا جاتا ہے۔ سربرنیتزا کے قتلِ عام کو جرائم کی عالمی عدالت اور سابق یوگوسلاویہ کا جرائم ٹربیونل انسانی نسل کشی قرار دے چکا ہے اور اس سلسلے میں بوسنیائی سرب فوج کے سابق سربراہ رادوان کرادچ اور ان کے اہم کمانڈر رادکو ملادووچ پر جنگی جرائم اور نسل کشی کے الزامات کے تحت مقدمہ چل رہا ہے۔ حکام نے کرادووچ کو 2008ء جبکہ ملادووچ کو2011ء میں گرفتار کیا تھا۔ اب تک بوسنیائی سرب فوج اور پولیس کے 38 اہلکاروں پر سربرنیتزا کے قتلِ عام کا جرم ثابت ہو چکا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔