بوسنیا، مسلمانوں کے قتل عام کی 18 ویں برسی، مزید 409 شہدا کی باقاعدہ تدفین

اے ایف پی / رائٹرز / خبر ایجنسیاں  جمعـء 12 جولائی 2013
اجتماعی قبر سے ملنے والے ان شہدا کی شناخت کے بعد سربرنیتزا کے پوٹوکاری قبرستان میں تدفین. فوٹو رائٹرز

اجتماعی قبر سے ملنے والے ان شہدا کی شناخت کے بعد سربرنیتزا کے پوٹوکاری قبرستان میں تدفین. فوٹو رائٹرز

سربرنیتزا / دی ہیگ: بوسنیا کے علاقے سربرنیتزا میں1995 میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام کی 18ویں برسی کے موقع پر گزشتہ روز مزید409 شہدا کی جسمانی باقیات کی باقاعدہ طور پر تدفین کی تقریب میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور اس موقع پر رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے‘ شہدا کے ورثا ڈی این اے شناخت کے بعد میتوں سے لپٹ کر روتے رہے۔

دفن کیے جانے والے افراد میں43 نوعمر لڑکے اور ایک نوزائیدہ بچہ بھی شامل ہے۔ ان شہداکو بوسنیائی سرب فوج نے اس وقت قتلِ عام کے بعد اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا تھا اور اب ان کی شناخت کے بعد انہیں علیحدہ علیحدہ قبروں میں دفن کیا جا رہا ہے‘ تمام شہدا کے تابوت پر سبز رنگ کی چادریں لپیٹ دی گئیں تھیں۔ دوسری طرف ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں عالمی عدالت انصاف میں مسلمانوں کے قتل عام کا حکم دینے والے سرب رہنما رادون کرادووچ نے خود پر لگنے والے جنگی جرائم کے الزام سے انکار کرتے ہوئے سابق یوگوسلاویہ کیلیے بنائے گئے بین الاقوامی کریمنل ٹریبونل میں اپیل دائر کی ہے‘ اس سلسلے میں رادون کرادووچ کو گزشتہ روز عدالت میں پیش کیا گیا۔

ادھر سربرنیتزا میں تدفین کے منتظم افسر کنعان کرادووچ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’’آج ہم اس قتلِ عام کا شکار ہونے والے سب سے کم عمر فرد کو دفنا رہے ہیں جس کی باقیات 2012ء میں ایک اجتماعی قبر سے ملی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس بچے کو اس کے والد حجرالدین کے پہلو میں سپردِ خاک کیاگیا ہے جو خود بھی اس قتلِ عام میں مارے گئے تھے‘‘۔ ان 409 شہداء کو پوٹوکاری نامی خصوصی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا ہے جہاں اس قتلِ عام میں مارے جانے والے 6ہزار66افراد اب تک دفن کیے جا چکے ہیں جبکہ2306 افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔

تدفین کے موقع پر6 ہزار سے زائد افراد پوٹوکاری پہنچے جہاں سبز کپڑے سے ڈھکے تابوتوں کو ایک بڑے ہال میں رکھا گیا تھا۔ قبرستان آنے والے افراد میں دفن کیے جانے والوں کے رشتے داروں اور دوستوں کے علاوہ عام بوسنیائی شہری بھی شامل تھے۔ سربرنیتزا کو 90ء کی دہائی میں یوگوسلاویہ کے خاتمے کے وقت اقوام متحدہ نے محفوظ علاقہ قرار دیا تھا۔1995ء میں 6 سے 8جولائی کے درمیان بوسنیائی سرب افواج نے سربرینتزا کے اس غیر محفوظ علاقے کا محاصرہ کیا جہاں پر شمال مشرقی بوسنیا میں سرب افواج کے حملے سے بچنے کیلئے ہزاروں کی تعداد میں بوسنیائی شہریوں نے پناہ لے رکھی تھی۔

سربرنیتزا کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد بوسنیائی سرب فوجیوں نے وہاں موجود8ہزار سے زیادہ مسلمان مردوں اور لڑکوں کو قتل کر دیا تھا۔ اس قتلِ عام کو یورپ میں جنگ عظیم دوئم کے بعد تشدد کا سب سے بڑا واقعہ بھی کہا جاتا ہے۔ سربرنیتزا کے قتلِ عام کو جرائم کی عالمی عدالت اور سابق یوگوسلاویہ کا جرائم ٹربیونل انسانی نسل کشی قرار دے چکا ہے اور اس سلسلے میں بوسنیائی سرب فوج کے سابق سربراہ رادوان کرادچ اور ان کے اہم کمانڈر رادکو ملادووچ پر جنگی جرائم اور نسل کشی کے الزامات کے تحت مقدمہ چل رہا ہے۔ حکام نے کرادووچ کو 2008ء جبکہ ملادووچ کو2011ء میں گرفتار کیا تھا۔ اب تک بوسنیائی سرب فوج اور پولیس کے 38 اہلکاروں پر سربرنیتزا کے قتلِ عام کا جرم ثابت ہو چکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔