کرپشن یا مذاق

ایاز خان  ہفتہ 5 جنوری 2019
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

یہ کرپٹ، وہ کرپٹ، تم سارے کرپٹ، تمہاری پارٹی کرپٹ، تمہارا سارا خاندان کرپٹ، اس طرح کے الفاظ اور الزامات ہم کئی دہائیوں سے سن رہے ہیں۔ 80اور پھر 90 کی دہائیوں میں بننے والی ساری حکومتیں کرپٹ تھیں یا ان کی اپوزیشن جھوٹی۔ ایک حکومت آتی تھی تو اس کی اپوزیشن الزام لگاتی تھی کہ سرعام کرپشن ہو رہی ہے۔ بڑے بڑے منصوبوں میں رشوت لی جاتی ہے، کک بیکس اور کمیشن کا دور دورہ ہے۔ نیا الیکشن ہوتا تھا کل کی اپوزیشن اقتدار میں آجاتی تھی اور آج کی اپوزیشن پھر اس طرح کے الزامات دہرانا شروع کر دیتی تھی۔

یہ حکومتیں اور اپوزیشن دور حاضر کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کی ہوتی تھیں۔ دو پارٹیوں پر مشتمل یہ نظام چل رہا تھا۔ ان میں سے ایک جماعت کی حکومت ہوتی تھی تو دوسری اس کی اپوزیشن کا کردار نبھاتی تھی۔ اپوزیشن حکومت پر کرپشن کے الزامات لگاتی لیکن جب خود اقتدار میں آتی تو سابق حکمرانوں کے احتساب کی زحمت نہیں کرتی تھی۔ نوے کی دہائی کے آخر میں ایک تیسری پارٹی نے جنم لیا مگر عوام نے انتخابات میں اسے پذیرائی نہ بخشی۔ یہ پارٹی پاکستان تحریک انصاف تھی جس کے چیئرمین عمران خان نے نعرہ لگایا کہ وہ اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ کریں گے۔ 21 ویں صدی کی دوسری دہائی کا آغاز ہوا تو اس کے پہلے ہی الیکشن یعنی 2013ء میں یہ ملک کی تیسری بڑی پارٹی بن گئی۔

اس جماعت نے پارلیمانی سیاست کا آغاز الیکشن میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج سے کیا۔ احتجاج کا سلسلہ دھرنوں سے ہوتا ہوا لاک ڈاؤن تک پہنچا۔خوش قسمتی سے اس دوران پاناما کا ایک بڑا ایشو اس کے ہاتھ لگ گیا۔ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تواس کا انجام تین دفعہ وزیراعظم کے منصب تک پہنچنے والے میاں نواز شریف کی جیل یاترا کی صورت میں ہوا۔ احتساب عدالت کا پہلا فیصلہ خلاف آیا تو نواز شریف لندن میں تھے۔ وہ اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ وطن واپس آئے اور گرفتار کر کے جیل پہنچا دیے گئے۔

میاں صاحب کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پہلے ہی گرفتار کر کے جیل بھجوائے جا چکے تھے۔ ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل قرار دیا تو میاں صاحب، مریم نواز اور ان کے شوہر ضمانت پر رہائی پانے میں کامیاب ہو گئے۔ احتساب عدالت کی جانب سے فلیگ شپ ریفرنس میں میاں صاحب کو کلین چٹ دی لیکن ساتھ ساتھ العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال کی سزا بھی سنا دی۔ وہ ایک بار پھر اڈیالہ جیل پہنچا دیے گئے تاہم ان کی درخواست پر انھیں کوٹ لکھپت جیل لاہور منتقل کر دیا گیا اور فی الحال وہ وہیں اسیر ہیں۔ میاں صاحب کے حریف اور مفاہمت کے گرو آصف علی زرداری ابھی تک آزاد ضرور ہیں لیکن ایف آئی اے اور جے آئی ٹی کی تفتیش سے گزرنے کے بعد عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ ملکی تاریخ کے میگا منی اسکینڈل میں سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والی جوائنٹ انوسٹی گیشن (جے آئی ٹی) اپنی رپورٹ پیش کر چکی ہے۔ اس رپورٹ کے مندرجات پڑھے جائیں تو انھیں نرم ترین الفاظ میں بھی خوفناک ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔

اس رپورٹ میں سابق صدر آصف علی زرداری، فریال تالپور، بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ سمیت 172 افرادکو ملزم قرار دیا گیا ہے۔ وفاقی کابینہ نے رپورٹ ملنے کے فوری بعد تمام افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیے۔ حکومتی زعماء اور وزیروں کے بیانات سے یوں لگا کہ جیسے تمام کرپشن پکڑی گئی ہے اور بہت جلد لوٹے گئے اربوں ڈالر قومی خزانے میں واپس آ جائیں گے۔ سپریم کورٹ نے البتہ حکومت کی ساری خوش فہمی دور کر دی اور حکم دیا کہ 172 افراد کے نام عدالت کی اجازت کے بغیر ای سی ایل میں ڈالنے کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔ وفاقی کابینہ نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کے بجائے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی کا اعلان کر کے یہ کام اس کے سپرد کر دیا۔ یہ کمیٹی کب اپنا کام کرے گی، اس بارے میں راوی خاموش ہے۔

عمران خان کا یہ کریڈٹ ہے کہ انھوں نے دو جماعتی نظام توڑ دیا۔ انھوں نے اپنی پارٹی کو نہ صرف تیسری قوت بنایا بلکہ پارلیمنٹ میں آج تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت ہے۔ وفاق اور پنجاب میں ان کی اتحادیوں کی مدد سے حکومتیں ہیں۔ خیبر پختونخوا میں دو تہائی اکثریت ، بلوچستان کی مخلوط حکومت میں وہ شامل ہیں اور سندھ میں اپوزیشن۔ بلاشبہ یہ بڑی کامیابیاں ہیں۔ کپتان کا یہ بھی کریڈٹ ہے کہ انھوں نے لوگوں کو ناانصافی اور کرپشن کے خلاف بولنا سکھایا ہے۔ حکومت کا کوئی وزیر یا مشیر کوئی غلط کام کرتا ہے تو اس پر سب سے پہلی تنقید پی ٹی آئی ووٹر اور سپورٹر کی طرف سے ہوتی ہے۔ بابر اعوان اور اعظم سواتی کو عہدے چھوڑنے پڑے تو اس کی وجہ یہی تنقید تھی۔ وزیراعظم ہاؤس اور وزرائے اعلی ہاؤسز کے اخراجات میں کمی بھی تحریک انصاف کا کریڈٹ ہے۔

عوام میں البتہ بے یقینی اور بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ کپتان نے اقتدار میں آنے سے پہلے اتنے زیادہ وعدے اور دعوے کیے تھے کہ یوں لگتا تھا کہ ان کی حکومت آتے ہی سب ٹھیک ہو جائے گا۔ 100 روزہ پلان نے ان امیدوں کو اور زیادہ بڑھا دیا تھا۔ امیدیں ٹوٹتی ہیں تو مایوسی میں اضافہ ہوتا ہے۔ فی الوقت لوگوں کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ روپے کی قدر میں 25 فیصد کمی ہو چکی ہے۔ اضافہ برآمدات میں ہونا چاہیے تھا یہاں الٹا درآمدات بڑھ گئی ہیں۔ معاشی میدان میں حکومت کی کوئی واضح سمت دکھائی نہیں دیتی۔ وزیروں کی باتوں سے ناتجربہ کاری صاف جھلکتی ہے۔ ایسا تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ٹیسٹ میچ کو ٹی ٹوئنٹی کی طرح کھیلا جا رہا ہے۔ رواں مالی سال مانگ تانگ کر گذارا کیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں، یہ ابہام پہلے دن سے پایا جا رہا ہے۔ عام آدمی کی زندگی میں انقلاب لانے کی دعویدار حکومت نے عارضی قیام گاہوں کے سوا کچھ نہیں کیا۔ ابھی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین جیسے دوست ملک مدد کررہے ہیں۔ ان کی طرف سے بھی امداد نہ ملتی تو پتہ نہیں کیا حال ہوتا۔

ہمیں تحریک ضرور نظر آرہی ہے لیکن فی الحال انصاف ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ کپتان کی حکومتیں اتحادیوں کی بیساکھیوں پر قائم ہیں۔ ان کے جائز اور ناجائز مطالبات تسلیم کرنا مجبوری ہے۔ بلا امتیاز احتساب بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ سابق حکمرانوں کی طرح مصلحتوں کا شکار ہوتا کپتان بھی سب کے سامنے ہے۔

نواز شریف کے کیسز کا فیصلہ آ چکا۔ میاں صاحب جیل جا چکے لیکن ان کی مبینہ کرپشن کا پیسہ قومی خزانے میں نہیں آسکا۔ شہباز شریف بھی نیب کی حراست میں ہیں۔ آصف علی زرداری کے جعلی اکاؤنٹس والے کیس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ وہ جیل جاتے ہیں یا عدالتیں انھیں آزاد شہری قرار دیتی ہیں اس سے عام آدمی کی زندگی پر کیا فرق پڑے گا۔ عدالتیں سابق حکمرانوں کو کرپٹ قرار دیتی ہیں پھر بھی کیا قومی خزانے سے لوٹی گئی دولت واپس لائی جا سکے گی۔ وائٹ کالر کرائم پکڑنا واقعی بہت مشکل ہے۔ آصف علی زرداری تو ڈنکے کی چوٹ پر کہہ چکے ہیں کہ جعلی اکاؤنٹس میں سارا پیسہ ان کا ہے پھر بھی ثابت تو آپ نے کرنا ہے۔ کیا ہمارے تفتیشی ادارے ایسا کر پائیں گے؟ کپتان کرپشن کے خلاف چینی حکومت کے اقدامات سے بہت متاثر ہیں۔ وہ اکثر اس کی مثالیں بھی دیتے ہیں۔ وہ ایک چیز البتہ بھول جاتے ہیں کہ چین میں ایک پارٹی کی حکومت ہے وہاں کوئی اپوزیشن نہیں جو سندھ، پختون یا کوئی اور کارڈ کھیل سکے گی۔

نواز شریف اور آصف زرداری ایک دوسرے کو کرپشن کا چیمپئن قرار دیتے رہے۔ آج ان کے ایک دوسرے کے بارے میں خیالات شاید تبدیل ہو گئے ہوں گے۔ دونوں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نیک اور ایماندار تھے۔ ان سے اگر پوچھا جائے ان الزامات کا کیا ہوا تو وہ کہہ سکتے ہیں۔ ہم تو مذاق کرتے تھے۔ پتہ نہیں ملک میں کرپشن ہوئی یا مذاق ہوتا رہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔