سوہنی دھرتی جواب مانگتی ہے

ایڈیٹوریل  بدھ 22 اگست 2012
چاند رات سے عید کی دوپہر تک موبائل فون سروز بند ہونے سے شہریوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ فوٹو: فائل

چاند رات سے عید کی دوپہر تک موبائل فون سروز بند ہونے سے شہریوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ فوٹو: فائل

دہشتگردی کے ممکنہ خطرات کے پیش نظر عید کے موقعے پر موبائل فون سروس چند گھنٹوں کے لیے بند رکھی گئی۔ حساس معاملہ ہونے کے پیش نظر اس کی بندش کا ٹائم اتوار کی شب سے صبح نماز عید کے آغاز تک تھا جب کہ کچھ مقامات پر شام کو ڈھائی گھنٹوں کے لیے یہ سروس معطل رکھی گئی، حکام کا استدلال یہ ہے کہ یہ اقدام عید کے موقع پر سیکیورٹی بہتر بنانے کے لیے کیا گیا۔ وزیر داخلہ رحمان ملک کے مطابق عید کے موقعے پر پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں دہشت گردی کے خطرات موجود تھے، پنجاب کے کچھ حصوں، اسلام آباد میں نو مقامات جب کہ کراچی میں چاند رات پر دہشت گردی کا خطرہ تھا، سیل فونز سروس انتہائی ناگزیر حالات میں مختصر وقت کے لیے معطل ہوئی۔ یہ وہ توضیحات اور حقائق تھے جو عوام کو پہنچنے والی تکلیف کے پیش نظر بیان کیے گئے۔

اس فوری فیصلے کا مقصد جہاں دہشت گردی کے سنگین خطرے کو کم سے کم کرنا تھا وہاں حکومتی اقدامات اور سیکیورٹی کے ذمے دارانہ طرز عمل، چوکسی اور ہائی الرٹ ہونے کے باعث اس ہنگامی اقدام کے باعث عید کے دوران ملک میں دہشت گردی کی کوئی ہولناک واردات نہیں ہو سکی جو پوری قوم کے اطمینان کا باعث بنی جب کہ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں صورتحال کی حساسیت بھی اس امر کی متقاضی تھی تاہم عوام کے جان و مال کے تحفظ اور ملکی سالمیت کو یقینی بنانے کے لیے ارباب اختیار کو اس ہنگامی تجربہ کی روشنی میں دہشت گردی سے نمٹنے کے دیگر متبادل اقدامات کو بروئے کار لانے کا عمل تیز کرنا چاہیے۔

اگرچہ بادی النظر میں موبائل کمپنیوں نے اس اقدام کو اپنے کاروباری تحفظات کے ساتھ تعجب خیز قرار دیا تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سماجی اقدار اور نئے مواصلاتی کلچر میں ڈاک سے بھیجے جانے والے عید کارڈ کی روایت بے دم ہو چکی ہے اس لیے ان کمپنیوں کو بلاشبہ عید کے موقع پر صارفین کی جانب سے اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کو بھیجے جانے والے دلچسپ sms، عید مبارک کے تہنیتی پیغامات کی ترسیل اور فون کالز کے غیرمعمولی ٹارگٹ سے ہونے والی ممکنہ خطیر آمدنی سے محروم ہونا پڑا۔

تاہم دہشت گردی سے پیدا شدہ زمینی حقائق سب کے سامنے ہیں، اس جنگ میں پاکستان فرنٹ لائن اتحادی کے طور پر نقصانات کا بار گراں ابھی تک اٹھائے ہوئے ہے اور پاکستانی معیشت کھربوں روپے کے خسارے سے دوچار ہے اس لیے سبھی کو اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ پاکستان کی سالمیت ہر چیز پر مقدم ہے، کامرہ بیس پر حملہ کے مضمرات نظرانداز نہیں کیے جا سکتے، واضح رہے کہ حساس اداروں کی رپورٹوں میں دہشت گردی کی ممکنہ وارداتوں سے حکومت اور عوام کو پیشگی خبردار کر دیا گیا تھا لہٰذا ان انتباہوں کے بعد پولیس، رینجرز اور سیکیورٹی فورسز سستی، کاہلی اور چشم پوشی کی متحمل ہو ہی نہیں سکتی تھیں جب کہ پنجاب، کراچی، پختونخوا اور بلوچستان کی صورتحال مختلف شہروں میں تخریب کاری، جرائم اور دہشتگردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے انٹیلی جنس شیئرنگ، اینٹی ٹیررازم حکمت عملی کے نئے روڈ میپ اور افغان سرحد پار سے دراندازی کی روک تھام کے لیے موثر ترین سیکیورٹی میکانزم کی اشد ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔

لہٰذا ارباب اختیار ملکی سلامتی کے تحفظ اور دہشت گردی کے ناسور کے مکمل خاتمہ کے یقینی اور دیرپا اقدامات پر مزید توجہ دیں۔ رحمٰن ملک نے القاعدہ، طالبان اور انتہا پسندوں کے مذموم منصوبوں کی بابت جو کچھ کہا ہے ان سے کسی کو انکار نہیں، عوام اس امر سے بھی واقف ہیں کہ موبائل کی ہنگامی بندش کا واقعہ انوکھا نہیں ہے، دہشت گردی اور جنگی حکمت عملی کے تحت دشمن کی مواصلاتی و ریموٹ کنٹرول کارروائیوں کو ناکام بنانا سب سے اہم ہوتا ہے، چند ماہ قبل گلگت بلتستان میں دہشت گردی، خود کش بم دھماکوں اور خونریزی کے ہولناک واقعات کے پیش نظر کرفیو نافذ ہوا اور موبائل سروس بند رکھی گئی جس کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوئے تاہم اس حکمت عملی کو مستقل شعار بنانا مناسب نہیں ہو گا۔

دہشت گردی کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے ارباب اختیار کو ماضی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی روشنی میں مستقل خطرات کے انسداد کو اولیت دینی چاہیے، انتہاپسندی کے خلاف جنگ قسطوں میں نہیں لڑی جا سکتی یہ دیدہ و نادیدہ دشمنوں سے ستیزہ کار رہنے کا معاملہ ہے۔ اسے اندرونی خلفشار پیدا کرنے کی خوگر بدطینت اور ریاست مخالف قوتوں کے نیست و نابود ہونے تک جاری رکھنا چاہیے۔ یاد رہے کہ دہشت گرد اہم سرکاری، عسکری اور حساس تنصیبات کو نشانہ بنا چکے ہیں، انھوں نے مساجد، امام بارگاہوں اور آغوش لحد میں سوئے ہوئے اولیائے کرام کے مزاروں کو نہیں بخشا، بے گناہوں کو مصروف بازاروں، پارکوں اور شاہراہوں پر موت کی نیند سلا دیا اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اگر عوام نے دہشت گردی کے خطرہ کے پیش نظر اور انتہا پسندوں کی ممکنہ دہشت گردی سے بچنے کے لیے حکومتی اقدام کو خندہ پیشانی سے تسلیم کیا تو یہ عوام کی اعلیٰ ظرفی ہے۔

موبائل فون کی بندش سے ہونے والی تکلیف پر وفاقی وزیر داخلہ پہلے ہی معذرت کر چکے ہیں چنانچہ دہشت گردی کے خطرہ کے پیش نظر حالیہ حکومتی اقدام کو نتیجہ خیز اور بروقت کہا جا سکتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ملک بھر کے لاکھوں سیل فونز صارفین کو بوجوہ سخت کوفت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا چاند رات سے عید کی دوپہر تک شہریوں کے فون خاموش رہے‘ دوسری جانب موبائل کمپنیوں کے کاروباری مفادات کے لیے بھی یہ تجربہ خوش گوار نہیں تھا مگر کیا قومی سلامتی ان سب باتوں پر فوقیت نہیں رکھتی؟ اس کا جواب یہ سوہنی دھرتی مانگتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔