تہوار اور عوام کے مسائل

ایڈیٹوریل  بدھ 22 اگست 2012
رمضان المبارک کے آخری تین دنوں میں اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں مقیم ملازمت پیشہ افراد ٹرانسپورٹرز کے ہاتھوں لٹتے رہے. فوٹو: ایکسپریس/ فائل

رمضان المبارک کے آخری تین دنوں میں اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں مقیم ملازمت پیشہ افراد ٹرانسپورٹرز کے ہاتھوں لٹتے رہے. فوٹو: ایکسپریس/ فائل

عید کی چھٹیاں اپنے اہل و عیال اور رشتے داروں کے ساتھ گزارنے کے بعد دفاتر میں ملنے والے افراد ایک دوسرے سے اکثر سوال کرتے نظر آتے ہیں ’’بھئی عید کیسی گزاری؟‘‘ اس کا جواب ہر شخص اپنے ذاتی تجربے کے مطابق دیتا ہے۔ اسی تناظر میں ہم اہل وطن کی اعصاب شکن عید کا احوال درج کر رہے ہیں۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بھی غریب و متوسط طبقے کی مشکلات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کا رحجان برقرار رہتا ہے‘ مزید برآں لوڈ شیڈنگ کی مسلسل اذیت بھی روزے داروں کو سہنا پڑی۔

رمضان المبارک کے آخری تین دنوں میں اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں مقیم ملازمت پیشہ افراد ٹرانسپورٹرز کے ہاتھوں لٹتے رہے اور مسائل کا سامنا کرتے رہے۔ اسلام آباد اور لاہور سے اندرون پنجاب جانے والے لاکھوں افراد سے دگنے کرایے وصول کیے گئے۔ دوران سفر مسافر غیرمعیاری اشیائے خوردونوش خریدنے پر مجبور کیے گئے۔ کسی بھی متعلقہ ادارے نے بسوں کے اڈوں پر جا کر معاملات چیک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔

عروس البلاد میں ڈبل سواری پر پابندی کو پولیس نے ’’عیدی وصول کرو مہم‘‘ بنا لیا۔ 530 شہریوں کو حراست میں لے کر خوب مال کمایا۔ میٹھی عید مٹھائی کے بغیر نامکمل ہے لیکن پاکستانی عوام کی اکثریت نے مہنگی مٹھائیوں اور حلوہ جات کی دور سے صرف خوشبو سونگھنے پر ہی اکتفا کیا۔ خیبر پختون خوا میں ویسے ہی تین عیدیں منانے اور عید میلوں پر پابندی نے عوام کو خوشی سے محروم رکھا۔ عید کے دو دن اہل کراچی نے گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنس کر سڑکوں پر گزارے۔ ہمارے خیال میں حکومت اگر انتظامی معاملات کو ٹھیک رکھنے کی کوشش کرے‘ ٹرانسپورٹ کی وافر فراہمی یقینی بنائے اور مہنگائی کو کنٹرول کرے تو یہ تہوار عوام کے لیے زیادہ خوشیوں اور مسرت کا باعث بن سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔