سیاست اور صحافت کا بے لوث سپاہی

مقتدا منصور  بدھ 22 اگست 2012
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

شیکسپئر نے کہا تھا کہ یہ دنیا ایک اسٹیج ہے جس پر ہر شخص اپنا کردار ادا کرکے رخصت ہو جاتا ہے۔ شیکسپئر کے اس قول کو اگر یوں کہا جائے کہ ناقابل فراموش ہستیاں یکے بعد دیگرے اپنا کردار ادا کرکے اس اسٹیج سے کبھی واپس نہ آنے کے لیے رخصت ہو رہی ہیں تو بات زیادہ بہتر سمجھ میں آتی ہے۔ یعنی ابھی ہم انور احسن صدیقی کے غم کو بھلا بھی نہ پائے تھے کہ ایک اور نابغہ روزگار دانشور، صحافی اور سرگرم سیاسی کارکن احمد الطاف بھرپور سیاسی و صحافتی زندگی گزارنے کے بعد 86 برس کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔

احمد الطاف مرحوم 1950ء سے1980ء کے عشروں کے دوران بائیں بازو کی سیاست اور صحافت کے علاوہ ٹریڈ یونین میں سرگرم کارکن کے طور پر پہچانے جاتے تھے مگر جب وہ مہاجر حقوق کے لیے سرگرم ہوئے تو بائیں بازو کے حلقوں میں کسی حد تک متنازع ہو گئے تھے لیکن اپنی وضع داری اور بائیں بازو کی سیاست سے کمٹمنٹ کے باعث ان کے حلقہ احباب میں کمی واقع نہیں ہوئی۔

احمد الطاف مرحوم سے میرا تعلق کوئی پینتیس برس پر محیط ہے۔ میں ان کے نام اور کام سے تو سکھر ہی سے واقف ہو چکا تھا۔ جام شورو میں دو برس قیام کے دوران ہفت روزہ لیل و نہار میں ان کا مستقل کالم ’’حیدر آباد کی ڈائری‘‘ مسلسل پڑھنے کا اتفاق ہوا جس نے ذہنی طور پر ان سے قربت پیدا کر دی۔ یہی سبب تھا کہ کراچی آنے پر زاہدہ حنا اور ندیم اختر کی طرح میں احمد الطاف سے ملنے کا بھی مشتاق تھا۔ 1972ء میں جب میں سکھر سے کراچی آرہا تھا تو ڈاکٹر اعزاز نذیر مرحوم نے مجھے دو رقعے دیے تھے۔

ایک ڈاکٹر منظور احمد مرحوم کے نام اور دوسرا محمد محسن ایڈووکیٹ مرحوم کے نام تھا۔ کراچی آنے کے بعد جب محسن ایڈووکیٹ اور ڈاکٹر منظور سے ملاقات ہوئی تو ان سے دیگر اصحاب کے علاوہ احمد الطاف سے ملنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ ڈاکٹر منظور احمد کے مشورے پر میں نے شاہ فیصل کالونی میں رہائش کا فیصلہ کیا۔ ان دنوں شاہ فیصل کالونی بائیں بازو کی سیاست کے حوالے سے خاصی سرگرم بستی ہوا کرتی تھی۔

یہاں کئی اہم سیاسی اور ٹریڈ یونین رہنماء اور دانشور رہائش پذیر تھے کامریڈ انیس ہاشمی مرحوم، پروفیسر اقبال احمد خان مرحوم، کامریڈ شرف علی مرحوم، معروف فلسفی قاضی قیصرالاسلام مرحوم اور کامریڈ منصف رضا مرحوم کے ساتھ رفاقتیں ہوں یا قومی محاذ آزادی کے سید محمد مناظر کے ساتھ طویل بیٹھکوں کا سلسلہ ہو یا پھر قدیر، ڈاکٹر ضیاء العارفین نوید، ڈاکٹر توصیف احمد خان اور آغا پیر محمد سے قائم ہونے والے دیرینہ تعلقات ہوں سبھی اس بستی میں قائم ہوئے۔ معروف شاعر منظر ایوبی کے ساتھ بہت سی شامیں بھی اسی علاقے میں گزریں البتہ احمد الطاف مرحوم سے کئی برس تک کوئی رابطہ نہ ہو سکا۔

1978ء میں چند علم دوست اور جمہوریت نواز دوستوں نے بزم علم و دانش کے نام سے مرحوم منصف رضا کے گھر پر سماجی اور ادبی مسائل پر مذاکروں کا سلسلہ شروع کیا جس میں ترقی پسند ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو مدعو کیا جاتا تھا اور مختلف سماجی اور ادبی موضوعات پر مکالمہ کیا جاتا تھا۔ بزم ِ علم و دانش ہی کی ایک نشست میں احمد الطاف مرحوم، ڈاکٹر منظور احمد مرحوم اور پروفیسر اقبال احمد خان (علامہ) مرحوم کے ہمراہ تشریف لائے‘ یوں ان سے پہلی بالمشافہ ملاقات ہوئی اور پھر ایسا تعلق قائم ہوا جو ان کی وضع داری اور خلوص کے باعث ان کی آخری سانس تک جاری رہا۔ اسی دوران ڈاکٹر منظور احمد مرحوم نے اپنے گھر پر سیاسی کارکنوں کی تربیت کے لیے اسٹڈی سرکلز کا اہتمام کیا جس کا انتظام میں اور محسن ایڈووکیٹ مل کر کیا کرتے تھے۔ ان نشستوں میں پروفیسر اقبال احمد خان مرحوم اور احمد الطاف مرحوم باقاعدگی کے ساتھ شریک ہوتے اور اپنے تجربات سے نوجوان کارکنوں کو مستفیض کیا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ بھی کئی برس تک جاری رہا۔ ان نشستوں نے ہمیں ایک دوسرے کے مزید قریب ہونے کا موقع فراہم کیا۔

اس دوران انھوں نے مجھے اپنے گھر پر ہر ہفتہ وار تعطیل کو ہونے والی غیررسمی نشستوں میں شرکت کی دعوت دی جو کئی برس سے جاری تھیں۔ ان نشستوں میں پروفیسر اقبال احمد خان مرحوم، پروفیسر لطیف احمد خان مرحوم، تسنیم الحسن فاروقی مرحوم، شمیم حیدر، احسان الحق، ندیم اختر، شاہد علی ایڈووکیٹ، اے آر عارف اور صغیر بھٹی سمیت کئی اہل علم و دانش اور سیاسی کارکن شریک ہوا کرتے تھے۔ اکثر و بیشتر جون ایلیا مرحوم بھی ان نشستوں میں آ جایا کرتے تھے جو پچھلی گلی میں رہائش پذیر تھے۔ بعد میں شکیل کاظمی بھی اس مجلس کا مستقل حصہ بن گئے۔ ان نشستوں میں سیاسی، سماجی اور ادبی موضوعات پر بحث مباحثہ اور ہلکی پھلکی گفتگو ایک طرح کا معمول تھا۔

یوں اپریل 1986ء سے میں بھی ان نشستوں کا باقاعدہ رکن بن گیا۔ برسہابرس جاری رہنے والی ان نشستوں کے شرکاء نے ایک خاندان کا سا روپ دھار لیا جس کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے ایک بھائی نوشاد‘ جو کینیڈا میں رہتے ہیں‘ ان نشستوں کے شرکاء سے فرداً فرداً واقف ہیں۔ گو کہ صاحب فراش ہونے کے سبب احمد الطاف کئی ماہ سے ان نشستوں میں شریک نہیں ہو رہے تھے لیکن ان کے دونوں بھائی فردوس اور سہیل ان کی خواہشات کے احترام میں ان نشستوں کو اسی وضع داری سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ اتوار (12اگست) کو ان کی زندگی میں ہونے والی آخری نشست تھی جس میں سبھی پرانے ساتھی موجود تھے۔ ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ہو سکتا ہے کہ یہ محفلیں جاری رہیں مگر ان کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی رہے گی۔

احمد الطاف کا آبائی تعلق اودھ سے تھا لیکن وہ مدھیہ پردیش کے شہر گوالیار میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ حیدر آباد سندھ منتقل ہو گئے۔ یہیں سے انھوں نے اپنے سیاسی اور صحافتی سفر کا آغاز کیا۔ وہ کافی عرصے تک پروگریسو پیپرز کے اخبارات پاکستان ٹائمز اور امروز کے حیدرآباد میں نمایندے رہے۔ 1970 کے عشرے میں جب لیل و نہار دوبارہ اشاعت پذیر ہوا تو اس کے لیے ہر ہفتے حیدر آباد کی ڈائری تحریر کرنے لگے جو خوبصورت طرز تحریر اور سندھ کی سیاست پر ان کی گہری نظر کی وجہ سے مقبول سلسلہ بن گیا تھا اور لوگ اس کا انتظار کیا کرتے تھے۔

صحافتی سرگرمیوں کے علاوہ ٹریڈ یونین اور بائیں بازو کی عملی سیاست بھی ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے نیشنل عوامی پارٹی سندھ کی مجلس عاملہ کے کئی برس تک رکن رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور کئی برس تک زیر زمین بھی رہے۔ ویسے تو ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا لیکن محمودالحق عثمانی مرحوم، رئیس امروہوی مرحوم اور جون ایلیا مرحوم سے ان کی قربت مثالی تھی۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ1972ء کے بعد جب وہ مہاجر حقوق کے لیے فعال ہوئے تو بعض حلقوں کی جانب سے ان پر تنقید بھی کی گئی مگر ان کا واضح نقطہ نظر یہ تھا کہ کسی بھی لسانی گروپ کے حقوق محض اس کی لسانی شناخت کی بنیاد پر پامال نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ہر مذہبی اور لسانی گروہ کو اس کی قابلیت، اہلیت اور صلاحیت کے مطابق ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کا موقع ملنا چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ تمام اعتراضات کی پروا کیے بغیر وہ اپنے ضمیر کی آواز پر استقامت کے ساتھ اپنے مشن پر قائم رہے۔

آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (APMSO) کی تشکیل ہو یا ایم کیو ایم کا قیام انھوں نے الطاف حسین سمیت دیگر سرگرم نوجوانوں کو اس سلسلے میں ہمیشہ مفید مشورے دیے۔ ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ ’’احمد الطاف نے مہاجر حقوق کے لیے مہاجر تحریک میں جو خدمات سرانجام دیں ان کی وجہ سے ان کا نام اس جدوجہد کی تاریخ کا حصہ ہے جسے نکالا نہیں جا سکتا۔ اس سلسلے میں ان کی اور ان کے اہل خانہ کی قربانیاں بھی ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ یہ پیغام احمد الطاف کے ا خلاص، نیک نیتی اور کمٹمنٹ کو بہت بڑا خراج تحسین ہے۔

احمد الطاف مرحوم نے گو کہ تین دہائی قبل مہاجر حقوق کے لیے جدوجہد کا راستہ اختیار کیا مگر ان پر کسی بھی طور نسل پرستی یا متعصب ہونے کا الزام عائد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ تمام قومیتوں کے مساوی حقوق کے حامی تھے البتہ وہ سرکاری اور نیم سرکاری ملازمتوں میں تقرریوں، تعیناتیوں اور ترقیوں میں اردو بولنے والوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر کڑھتے ضرور تھے لیکن کسی اردو بولنے والے نوجوان کو بغیر میرٹ سبقت دیے جانے کے بھی سخت مخالف تھے۔ اس رویے کا بنیادی سبب ان کی مارکسی فکر سے وابستگی تھی جس نے ان کی سوچ کو غیر سائنسی نہیں ہونے دیا تھا۔

چونکہ وہ تمام زبانیں بولنے والوں اور ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ برابری کی بنیاد پر خوش خلقی سے ملتے تھے اس لیے وہ ہر قومیت کے لوگوں میں نہایت مقبول تھے۔ اپنی سادہ و کھری طبیعت اور صاف گو فطرت کے سبب وہ اپنوں پرائیوں سب میں یکساں مقبول تھے۔ یہی سبب تھا کہ سندھی اور بلوچ قوم پرستوں کے علاوہ پختون رہنمائوں کے ساتھ بھی ان کے گہرے دوستانہ مراسم تھے۔ اب جب کہ وہ ہم سب سے بہت دور جا چکے ہیں، یہی کہا جا سکتا ہے کہ حق مغفرت کرے عجب قلندر صفت انسان تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔