سیاسی ومعاشی سال 2019ء

جاوید قاضی  ہفتہ 5 جنوری 2019
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

2006ء سے پاکستانی سیاست میں ایک ہلچل آئی اور 2007ء کی وہ رات اس ہلچل کا اختتام تھا ، جس دن بے نظیرکی شہادت ہوئی۔ ایک نئے موڑکا آغاز ہوتا ہے، پھر اس سیاسی بحران کا آغاز دس سال بعد 2017ء میں ہوتا ہے۔

2018ء میں عمران خان بطور وزیر اعظم پاکستان حلف اٹھاتے ہیں تو کیا پھر یہ بحران ایک نئی کروٹ لیتا ہے اورکیا اب یہ شدید ہونے کو ہے ؟ اورکیا سال 2019ء بھی اسی بحران کی نذر رہے گا؟ اگر اسی طرح ہوتا ہے تو یہ تیسرا سال ہوگا کہ ہمارا ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہے گا اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ہماری معشیت بری طرح سے متاثر ہے۔

ہمیں اپنے ملک کو مجموعی طور پر ساؤتھ ایشیا کے تناظر میں دیکھنے اور تولنے کی اشد ضرورت ہے ۔ ساؤتھ ایشیا دنیا کا ایسا خطہ ہے جو دوسرے ممالک کی طرح ریجنل اتحاد میں بندھا ہوا ہے۔ SAARC ساؤتھ ایشیا کی ایک ایسی تنظیم ہے جو وجود تو رکھتی ہے مگر انتہائی غیر فعال ہے ۔ اس کے غیر فعال ہونے کی ایک اہم وجہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان روایتی دشمنی ہے جس کا حل نہ کل تھا نہ ہی مستقبل قریب میں کہیں دکھائی دے رہا ہے اور دوسری وجہ دنیا کے نظام کی تبدیلی، 1990 کی دہائی میں سوویت یونین کا انضمام ٹوٹا، پورے سوشلسٹ بلاک کا خاتمہ ہوا ۔ دنیا جو دو بڑی طاقتوں و نظریوں میں بٹی ہوئی تھی وہ یونی پولر بنی اور نئے ورلڈ آرڈرکا آغاز ہوا ۔

دنیا کے نظام میں ایک بہت بڑا چینج 9/11 کے واقعے سے آیا ۔ دنیا میں اسلام کے بارے میں ایک تاثر آیا اور آہستہ آہستہ اسلام فوبیا کے تحت مسلمانوں کو باہر دنیا کے لوگ دہشت گرد سمجھنے لگے ۔ دنیا میں مذہبی انتہا پرستی عروج پر آئی ۔ ایران اور سعودی عرب کے تضادات نے مسلمانوں کو دوگروپوں میں بانٹ دیا ۔ شام سے بڑے پیمانے پر لوگوں کی ہجرت ہوئی، لیبیا میںقذافی دورکا ختم ہوا اور بہت سے عرب ممالک میں پنک انقلابات آئے۔

انھی زمانوں میں سوشل میڈیا کو عروج حاصل ہوا، انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا میں اپنا مقام بنایا اور تب سے اب تک یہ ٹیکنالوجی نئی سے نئی منزلیں طے کر رہی ہے۔ جس کے ذریعے آپ ایک پورے دوگھنٹے کی فلم اپنے موبائل فون پر صرف دو سیکنڈز میں ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں ۔ اب تقریباً ہر شخص کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے اور اس اسمارٹ فون میں پوری دنیا سمائی ہوئی ہے ۔ دیکھا جائے تو آج آدمی اسمارٹ فون کے ذریعے دنیا کا dual citizen بن چکا ہے۔ایک وہ اپنے ملک کا شہری اور دوسرا دنیا کا شہری۔ اب اس ماڈرن دور میں جو ریاست دنیا کے مروج اصولوں سے ٹکراؤ میں ہوگی وہ پیچھے رہ جائے گی اور آہستہ آہستہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی رہے گی۔

ساؤتھ ایشیا کے خطے میں ہندوستان اور پاکستان کے بعد تیسرا بڑا ملک بنگلہ دیش ہے جہاں پرکچھ عرصے تک فوجیوں کی حکمرانی بھی رہی چونکہ بنگلہ دیش کی علاقائی حیثیت زیادہ اہم نہیں یا پھر سرد جنگ کے زمانے میں افغانستان کی طرح ، بنگلہ دیش میں سوویت یونین کا داخلہ نہ تھا، لہذا وہاں فوجی طاقت جڑ نہ پکڑ سکی اور بالاخر شیخ حسینہ واجد کی پارٹی نے تقریبأ ون پارٹی رول جیسی صورتحال بنا رکھی ہے۔

جب کہ ہندوستان آئین اور آئینی اداروں کی حیثیت میں ایک طویل تسلسل رکھتا ہے ، جوکبھی کہیں نہ ٹوٹا اور نہ ہی وہاں فوجی حکومت بنی ۔البتہ ہندوستان میں ہندو انتہا پرستی کے عناصر ان کے لیے خطرہ ہیں ۔ ہندوستان کا الیکشن کمیشن ایک انتہائی فعال ادارہ ہے۔ ان کے بیانیے میں تو بگاڑ پیدا کیا جاسکتا ہے لیکن الیکشن میں دھاندلی ناپید ہے ۔ ہندوستان کے آئندہ ہونے والے انتخابات میں قوی امید ہے کہ مودی کو شکست ہوگی اور یوں ہندوستان کے جمہوری اداروں اور سیکولر ستونوں کو جو خطرہ ہے وہ ٹل جائے گا ۔

ہندوستان جب اندرا گاندھی کی ایمرجنسی نافذ کرنے کے بعد فاشزم کا شکار ہوا تو یہی آئینی ادارے تھے جو اس فاشزم کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں آئے اور اندرا گاندھی کے مسلط کردہ فاشزم کو شکست دی۔ساؤتھ ایشیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کی فیڈریشن انتہائی حساس اور فطری ہے۔ ریاستی اعتبار سے ہم بہت پسماندہ ہیں ۔ ہم بنگلہ دیش کے مقابلے میں سیاسی اعتبار سے تو بہتر ہوں گے لیکن معاشی اعتبار سے بنگلہ دیش اور ہندوستان کہیں آگے ہیں پھر بنگلہ دیش کی معشیت بہت پہلوؤں سے ہندوستان سے بھی مستحکم ہے ۔ہندوستان کی کرنسی ڈالر کے سامنے گری اور پاکستان کی بھی لیکن بنگلہ دیش کا ٹکہ ڈالرکے سامنے مضبوط ہے ۔

ہمارے ہاں نہ صحیح معنوں میں جمہوریت ہے ، نہ سول آمریت اور نہ فوجی آمریت ۔ نواز شریف کے دور میں سول و ملٹری ریلیشنز سے کام چل رہے تھے مگر اب پلڑا دوسری طرف بھاری ہے ۔ یہ صورتحال جمہوری قوتوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے بھی پیدا ہوئی ۔ سول بیوروکریسی اور سیاسی قوتیں یا تو زرداری صاحب کا اومنی گروپ ہے یا پھر میاں صاحب کا بزنس، انھوں نے ہی یہ صورتحال پیدا کی ۔

ساؤتھ ایشیا ad governance B اورکرپشن کے حوالے سے جو انڈیکیٹر ہیں وہ پاکستان کو پہلے نمبر پر دکھاتے ہیں ۔ حالیہ HDI کی رپورٹ کے مطابق ساؤتھ ایشیا میں انسانی وسائل میں سرمایہ کاری کے حوالے سے افغانستان کے بعد پاکستان کا نام ہے جو macro economic انڈیکیٹر ہیں ، شرح نمو ہوں یا کرنٹ اکاؤنٹ deficit ہو، قرضوں کا تناسب ہو ہم ان تمام حوالوں سے دنیا میں منفی اعتبار رکھتے ہیں ۔

سال 2019 محتاط رہنے اور سنجیدگی سے چلنے کا سال ہے ہمارے ملک میں جوڈیشل ایکٹو ازم جس تیزی سے بڑھا اس نے سول رٹ کوکمزورکیا مگر کئی زاویوں سے اچھے نتائج بھی دیے، لیکن اب عدالتی اعتدال judicial restriction سے بھی کام لینا ہوگا ۔ سیاسی دشمنیوں کو نبھانے کے لیے ای سی ایل مکینزم کا استعمال کرنا، سپریم کورٹ کا کرپشن کے خاتمے کے لیے JITکا استعمال کرنا اور سندھ حکومت کوگرانے کی کوشش ایک ایسے وقت میں جب وفاقی حکومت کی کارکردگی خود ایک سوالیہ نشان ہے، صحیح نتائج نہیں دے گی۔

بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور ان حالات کو قابوکرنے کے لیے بڑے افہام و تفہیم سے کام لینا ہوگا ۔چیف جسٹس سپریم کورٹ کے انتباہ کے پیش نظر نیب کو بھی اپنی ساکھ بہتر بنانی ہوگی اور ایک جو تاثر آرہا ہے جس سے پریس فریڈم متاثر ہورہی ہے یعنی ایسی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے کہ حقائق تک پہنچنا مشکل ہوجائے یہ کسی بھی لحاظ سے پاکستان کے لیے بہتر نہیں ۔

ان بدلتے ہوئے حالات میں جہاں دوبارہ سے دنیا یک قطبی (یونی پولر) سے بائی پولر بن رہی ہے، یعنی ہندوستان کا جھکاؤ امریکا کی طرف ہے اور ہم چین کے ساتھ ہوچکے ہیں تو ہمیں مشرق وسطیٰ کے غیر ضروری تضادات میں اپنے آپ کو شامل نہیں کرنا چاہیے۔ اس وقت ہماری اولین ترجیح ہمارے ملک کا معاشی استحکام ہے جس کے لیے کرپشن کا خاتمہ ، بہتر حکمرانی اور اداروں کو فعال بنانے کی اشد ضرورت ہے ، ایسے اقدامات کیے جائیں اور وسائل پیدا کیے جائیں کہ ہم اپنے مخالفین کا بہتر طور پر مقابلہ کرسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔