آسیب زدہ ملک

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 5 جنوری 2019
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

اب ہم سب ایک آسیب زدہ ملک کے شہری ہیں ، جسے عدم برداشت ، عدم روا داری ، بد اخلاقی ، بد تہذیبی کے آسیبوں نے اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ اب ہم وہ آسیب زدہ ہیں جنھیں دیکھ کر ترقی یافتہ ، مہذب ، خوشحال کلچرڈ ، آزاد ممالک کے شہری اپنا راستہ بدل لیتے ہیں۔

پھر بھی ہمیں یہ کہتے ہوئے شرم نہیں آتی ہے کہ ’’ہم زند ہ قوم ہیں‘‘ ہم وہ زندہ قوم ہیں جس کا ہر شخص ایک دوسرے سے الجھا ہوا ملے گا ، چاہے وہ آفس ہوں یا بازار یا سڑکیں ہوں یا پھر گلیاں اور محلے ہوں ہر شخص خو ا مخواہ دوسرے کے پیچھے پڑا ہوا ملے گا۔

ہم سب ایک دوسرے سے ناخوش ہیں ، ہمیں اپنے علاوہ کسی دوسرے میں کوئی بھی اچھائی نظر نہیں آتی ہے غلطی سے یا نادانی سے اگرکوئی شخص کسی دوسرے کی تعریف کر بیٹھے تو سننے والوں کے منہ سے اسی وقت غصے سے جھاگ نکلنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ ہاتھ اور پاؤں میں لرزش اتنے زور سے ہونا شروع ہوجاتی ہے کہ تعریف کرنے والا ڈرکر اپنی چپلیں چھوڑ کر بھا گ کھڑاہوتا ہے۔

ہر طرف جھنجھلاہٹ ، غصہ ،گھبراہٹ ، طیش، ہٹ دھرمی اور دوسروںکو برا بھلا کہنے کا شور مچا ہوا ہے ہر کوئی کسی نہ کسی کا برا چاہ رہا ہے ، ہنسنا چھوڑے ہوئے ہمیں سالوں بیت چکے ہیں مذاق کرنے اور ہنسنے سے ہمیں نفرت ہوچکی ہے، خوشگوار موڈ ہمارے لیے گالی بن کر رہ گیا ہے ہر وقت چہرے پر تیوری ڈالے رہنا ہمارا قومی نشان بن کر رہ گیا ہے ۔

ہم سب ایک دوسرے سے کترانے لگے ہیں ، اگر ہم باریکی کے ساتھ اس بات پر غوروخوص کریں کہ آخر ان آسیبوں نے ہمارے ہاں ہی کیو ں ڈیرے ڈال رکھے ہیں آخرکیوں اتنی آسانی سے ہم سب کو دبو چ رکھا ہے تو ہم اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ دراصل ہم نے کافی عرصے پہلے بہت سے الفاظ کو اپنی زندگیوں سے خارج اور جبری بے دخل کر دیا تھا اور اس بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ کیا تھا کہ پھر اس کے بعد ان الفاظ کو دوبارہ ہماری زندگیوں میں داخل ہونے کی جرأت ہی نہیں ہوسکی ۔

یاد رہے انسان کو روٹی سے زیادہ الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے ہم روٹی کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں الفاظ کے بغیر نہیں ۔ تصور کیجیے کہ اگر آپ اس سیارہ زمین پر واحد انسان ہیں تو آپ کا کچھ بھی کرنے کو جی نہیں چاہے گا، آپ کوئی تصویر کیوں بنائیں گے کہ جب اسے دیکھنے والا ہی کوئی نہ ہوگا، آپ کوئی گیت کیوں گائیں گے کہ جب اسے سننے والا ہی نہ ہوگا، آپ کوئی شے کیوں ایجاد کریں گے کہ جب اس ایجاد کو استعمال کرنے والا ہی کوئی نہ ہوگا۔

اسی طرح آپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ ہر جگہ ایک سی ہوگی اور وہاں کوئی بھی نہ ہوگا۔ یہ لوگوں کے ساتھ آپ کے تعلقات اور تجربات ہوتے ہیں جو آپ کی زندگی کو مسرت، معنی اور مقصد دیتے ہیں، یہ الفاظ ہی ہوتے ہیں جو آپ کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں ۔

الفاظ آپ سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں اور یہ ہی تعلقات اور رشتوں کو استوار کرتے ہیں آپ نے یہ تو سنا ہی ہوگا کہ جو کچھ دو گے وہی لوگے یا جیسا بوؤ گے ویسا کاٹو گے۔ Law of Attraction جو پوری کائنا ت کی توانائی کو محیط ہے کہ مطابق ایٹم کی تخلیق سے لے کر سیاروں کی حرکت تک ہر شے اپنی جیسی دوسری شے کو کھینچ رہی ہے آپ کی زندگی میں یہ قانون آپ کے خیالات اور احساسات پر کام کرتا ہے کیونکہ یہ بھی توانائی ہے۔

عظیم سائنس دان نیوٹن اس کائناتی اصول کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ ’’ ہر عمل کا ایک مخالف اور اسی کے برابر ردعمل ہوتا ہے‘‘ یعنی آپ جوکچھ وصول کرتے ہیں وہ اس مقدارکے برابر ہی ہوتا ہے جو آپ نے دیا ہوتا ہے تو پھر اب رونا کس بات پر چلانا کس لیے ہے، بے وجہ کی چیخ و پکار کیوں ۔ یہ جوکچھ ہم بھگت رہے ہین اس کے خالق ہم خود ہی تو ہیں یہ عدم برداشت ، عدم رواداری ، بداخلاقی، بدتہذیبی ، حسد ،کینہ ، بغض ، لوٹ مار،کرپشن ، غنڈہ گردی ، بد معاشی ، دھوکہ دہی، فراڈ ، عدم اعتماد ، یہ سب کچھ جو ہم وصول کر رہے ہیں اور جس مقدار میں وصول کر رہے ہیں یہ وہی تو ہیں جو ہم نے دیے تھے ۔

ظاہر ہے کہ جب آپ برداشت ، رواداری ، تہذیب ، عقل ، فکر اور تشکر کو ملک بدرکردیں گے تو پھر آپ کے پاس عدم برداشت ، عدم روا داری ، بد تہذیبی، جہالت ہی رہ جائے گی تو پھر انتہا پسندوں ، رجعت و بنیاد پرستوں کی فوج تیار نہیں ہوگی تو کیا لبرل، ترقی پسندوں کی فو ج تیار ہوگی جب آپ دیانت ، خلوص، اخلاق ، محبت کو مار مارکر ان کا بھرکس نکال دیں گے تو پھر جب آپ کو ہر طرف کرپشن ، لوٹ مار، حسد، کینہ، دشمنی، بغض نظر آتا ہے تو پھر روتے کیوں ہو ، جب حیا، شر م کو ننگا کردو گے اور پھر جب آپ کو ہر طرف بے حیائی ، بے شرمی ، ڈھٹائی ملتی ہے تو پھر منہ کیوں چھپائے پھرتے ہو یہ رونے ، چلانے کے ڈرامے اب مزید نہیں چلیں گے، یہ شکایات کے افسانے اب مزید نہیں بکیں گے۔

یہ خود ترشی کی کہانیاں اب مزید نہیں بن سکتیں ۔ ذہن میں رہے جب آپ شکایا ت کرنے کے عادی مجرم بن کے رہ جاتے ہیں اور خود ترشی کے لبادے اوڑھ لیتے ہیں اور ہر وقت روتے چلاتے رہتے ہیں تو قانون کشش کے مطابق آپ مزید ایسی ہی چیزیں اپنے لیے کشش کردینا شروع کردیتے ہیں۔

جن سے مزید اور شکایات آپ کے لیے پیدا ہوں ، مزید اور مشکلات و پریشانیوں کا جنم آپ کے لیے ہوجائے، اگر آپ اپنے ان حالات سے بالکل بیزار آچکے ہیں اور ان آسیبوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر آئیں ! سب سے پہلے ان الفاظ کو جنھیں ہم ملک بدرکرچکے ہیں اور جو ہماری سرحدوں پر بیٹھے ہمارے اجازت ناموں کے منتظر ہیں انہیں انتہائی عزت و احترام اور پیا ر و محبت کے ساتھ اپنے ملک اور اپنی زندگیوں میں واپس آنے کی اجازت دے دیں اور ان سے اپنے کیے گئے برے سلوک کی معافی بھی ضرور مانگیں۔

اور جب آپ ایسا کرلیں تو ساتھ ہی ساتھ آپ ہر بات اور خداکی ہر نعمت کے لیے اپنے اندر تشکر کا جذبہ پیدا کرلیں۔ کنگ ڈیوڈ نے کہا تھا کہ آسمانوں اور زمین کے درمیان جتنی چیزیں ہیں ۔

ان کا شکریہ ادا کرو آسٹریلیا،افریقہ کے قبائل سے لے کر امریکا اور اسکیمو ںکے باسیوں تک میں تشکر ان کی روایات کی بنیاد ہے اگر آپ ہزاروں سال پہلے کی تاریخ میں چلے جائیں تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ شکران نعمت کا ریکارڈ قدیم انسانی تاریخ میں بھی موجود ہے تب یہ کام ایک مذہبی عمل یا مقد س رسم کے طور پر کیاجاتا تھا اور وہاں سے یہ صدیوں کے سفر کے بعد نسل در نسل ہوتا ہوا ایک خطے سے دوسرے خطے میں منتقل ہو اایک تہذیب سے اگلی تہذیب کو ملا۔

یاد رہے آپ کا تشکر کا رویہ ایک مقناطیس ہے اور آپ کے پاس تشکر جتنا زیادہ ہوگا آپ اتنا ہی زیادہ فراوانی کو کھینچیں گے ۔ ایک مقناطیس کی طرح اور یہ ہی تو کائنات کا ایک قانون ہے ۔ آؤ ایک بار پھر سے ہنسنا اور مسکرانا شروع کردیں اور ایک دوسرے سے محبت کرنا شروع کر دیں۔ ایک دوسرے کا خیال رکھنا شروع کردیں کہ ایک بار پھر جینا شروع کردیں۔ آئیں! ایک بار پھر ایک دوسرے کا شکریہ ادا کرنا شروع کردیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔