پاکستان سے ہندو برادری کا انخلا؟

رئیس فاطمہ  بدھ 22 اگست 2012
رئیس فاطمہ

رئیس فاطمہ

عالم تاب تشنہ کا ایک شعر ہے۔
یہ اِک اشارہ ہے آفاتِ ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا

اندرون سندھ سے مسلسل ہندو برادری کا اپنے آبائی وطن کو بحالتِ مجبوری چھوڑ کر جانا اس شعر کی تشریح کے لیے کافی ہے۔ ایک طرف حکومتی دعوے، دوسری طرف اصل حقیقت!! نوٹس تو لے لیا گیا لیکن صرف زبانی کلامی۔ ہر درد کی دوا وفاقی وزیر داخلہ بے مثال بیان بازی کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتے ہیں کہ ڈانواں ڈول حکومتوں کو ہمیشہ ایسے جیالوں کی ضرورت رہتی ہے جو اپنی گرمئی گفتار سے ہر مسئلہ چٹکیوں میں حل کرنا جانتے ہیں۔ ہندوئوں کی نقل مکانی کے پیچھے دراصل وہ انتہاپسند عناصر ہیں جنھیں ضیاء الحق کا وارث ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

یہ وہ لوگ ہیں جو افغان جنگ میں ڈالر کمانے کے ساتھ ساتھ اقلیتی فرقوں کے مال دار تاجروں اور سرمایہ داروں کو اغوا کرنے کے علاوہ زبردستی ان کی لڑکیوں کو مسلمان کرنا ثواب سمجھتے ہیں۔ انھوں نے تو بھتہ خوری کو بھی مذہب کا لبادہ پہنا کر جائز بنا لیا ہے۔ اب تک کی اطلاعات تک حکومت نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ہے جو ہندو برادری کو ان کی جنم بھومی سے بے دخل ہونے سے روک سکے۔ ضیاء الحق کے زمانے میں اسی انتہاپسندی کی وجہ سے کراچی سے پارسی حضرات بمبئی اور دوسرے مقامات پہ چلے گئے، عیسائیوں سے بھی پنجاب کے مختلف شہروں سے لڑائی جھگڑوں کی اطلاعات آتی رہتی ہیں۔ لیکن اس وقت ایسی صورتحال میں جب کہ پاکستان کو صرف دہشت گردی کے حوالے سے جانا جا رہا ہے اس طرح ہندوئوں کا وطن چھوڑ کر جانا پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان منفی سرگرمیوں اور مذہبی تشدد کی بڑھتی ہوئی لہر کے ساتھ ہو رہی ہے۔

دنیا بھر میں اقلیتوں کے حقوق ہوتے ہیں اور کسی ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ریاست غیرجانبدار ہوا اور روشنی کی مانند ہوتی ہے جو دنیا کے ہر انسان کو بلاتخصیص نوازتی ہے۔ ذرا سوچیے ہندو برادری کو اس طرح بے یار و مددگار چھوڑ دینا اور ان کی جائز شکایات کا ازالہ نہ کرنا کہیں عالمی برادری میں ہمیں اِتنا بدنام اور اِتنا اکیلا نہ کر دے کہ لوگ پاکستان کا نام سن کر نفرت سے منہ پھیر لیں۔ ہم جب سنتے اور پڑھتے ہیں کہ ممبئی جیسے کاسموپولیٹن سٹی میں اور ہندوستان کی جادونگری میں مسلمان اداکاروں کو کوئی مکان نہیں خریدنے دیتا تو ہم پر کیا گزرتی ہے۔ گجرات کے فسادات کا پتہ چلتا ہے تو خون کھول جاتا ہے۔ بال ٹھاکرے اور نریندر مودی کے خلاف ہم سب کے دل نفرت سے بھر جاتے ہیں… لیکن افسوس کہ اب ہمارے ہاں بھی بے شمار بال ٹھاکرے نمو دار ہو گئے۔

1947 میں جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دنیا کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی تو جہاں دہلی، یوپی، حیدرآباد دکن، جموں و کشمیر، جالندھر، امرتسر، ہوشیار پور اور لکھنؤ سے لوگ سِکھوں اور ہندوئوں کے ظلم کا نشانہ بن کر بہ مشکل اپنی جانیں بچا کر پاکستان پہنچے، وہیں لاہور سے بھی سکھوں اور ہندوئوں کی لاشوں سے بھری ٹرینیں انڈیا پہنچیں لیکن انھی میں وہ لوگ بھی تھے جو صرف انسان تھے جنہوں نے ہندو ہوتے ہوئے مسلمانوں کو بچایا اور مسلمان ہوتے ہوئے ہندوئوں کو بچایا۔

خود میرا خاندان اس کی مثال ہے، اس روداد کا تفصیل سے ذکر میں نے اپنے ایک ناولٹ ’’کیا خاک آتشِ عشق نے‘‘ میں کیا ہے، لیکن مختصراً یہ ضرور بتانا چاہوں گی کہ میرے والد جو ایک اعلیٰ سرکاری افسر تھے اور سول ایوی ایشن میں بہ حیثیت ڈپٹی ڈائریکٹر تقسیم سے قبل تعینات تھے۔ تقسیم کے بعد جب ان کی مرضی معلوم کی گئی تو انھوں نے قائد اعظم کے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی۔ میری والدہ اور دادی بچّوں کے ساتھ الٰہ آباد میں مقیم تھیں کہ فسادات ہو گئے اور میرے والد کو اطلاع ملی کہ ان کے بیوی بچّے مارے جا چکے۔

بڑی بہن دہلی میں تھیں کہ مارچ 1947 میں ان کی شادی ہو گئی تھی اور وہ ہمایوں کے مقبرے میں قید تھیں۔ بہنوئی آرمی میں تھے، انھیں لاہور والٹن کیمپ میں ڈیوٹی دینا تھی۔ اسی دوران بہنوئی کے ہندو آفیسر دوست جیپ لے کر آئے اور میری بہن اور ان کے سسرالی عزیزوں کو بحفاظت ہمایوں کے مقبرے پہنچایا کیونکہ انھیں سِکھوں کے حملے کی اطلاع مل گئی تھی کہ وہ اس گھر کو اس لیے لوٹنا چاہتے ہیں کہ دو منزلہ وسیع مکان میں جہیز کا بے پناہ سامان ہے۔ اور ادھر دوسری طرف میرے والد کے ہندو بنگالی دوست باسو بابو اچانک دادی کے پاس آئے اور والدہ سمیت سب کو لے کر اپنے گھر چلے گئے۔

میرے بھائیوں کے نام اقبال اور ابرار کے بجائے کرشن اور مہندر رکھ دیے۔ والدہ کی مانگ میں سیندور بھر دیا۔ ایک ہفتے تک اپنے گھر میں چھپا کر رکھنے کے بعد وہ پوری فیملی کو اپنے خرچ پر بمبئی لائے اور تاج محل ہوٹل میں ٹھہرایا۔ ایک ہفتے بعد ’’دوارکا‘‘ نامی بحری جہاز میں نشستیں دِلوا کر انھیں رخصت کیا، سفر کے لیے رقم دی اور میرے والد کو ٹیلی گرام دے کر انھیں نئی زندگی دی کہ وہ تو پورے خاندان کا ماتم منا چکے تھے۔ یہ قربانی میرے والدین نے ہم میں سے کسی بہن بھائی کو بھولنے نہیں دی لیکن ساتھ ہی یہ قرض بھی اتارا کہ برنس روڈ کی گلی نمبر 2 میں رحمت مینشن میں (پرانا نام پریم بھون) اپنے پڑوسی ایک ہندو خاندان اور ان کے دو بچّوں کو بحفاظت اپنے گھر رکھا۔

جب جذبۂ جہاد سے مغلوب ہو کر بے رحم عناصر ان کا گھر لوٹنے اور انھیں قتل کرنے زینے پر چڑھے تو میری والدہ جو سیّد زادی تھیں اور جنہوں نے اپنے محترم والد مولانا سیّد محمد علی چشتی کے سامنے بھی سر سے دوپٹہ نہ اتارا تھا پڑوسیوں کی چیخ پکار سن کر بغیر دوپٹے کے دروازہ کھول کر باہر آ گئیں اور سیڑھیوں پہ کھڑے سفّاک لوگوں سے کہا کہ اگر وہ محمد مصطفیٰ ؐ کے نام لیوا ہیں تو فوراً نیچے اتر جائیں، بصورت دیگر پہلے انھیں اپنے خنجر سے ختم کریں، بعد میں اس ہندو خاندان کو۔ ان کی یہ بات سن کر وہ سب چلے تو گئے لیکن دھمکی دے گئے کہ وہ پھر آئیں گے۔

میری والدہ اسی وقت پورے خاندان کو اپنے گھر لے آئیں۔ تقریباً وہ ایک ماہ رہے۔ اس عرصے میں ان کا فلیٹ والد نے بکوایا اور ہوائی جہاز میں سیٹیں ریزرو کروائیں اور انھیں ایک دن بحفاظت بمبئی بھجوا کر اپنے دوست باسو بابو کا قرض ادا کر دیا۔ اور زندگی بھر غیرمسلموں سے محبت کی اور دوستیاں قائم رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کسی سے نفرت نہیں کر سکتے۔ ہمارے لیے انسانیت اہم ہے، باقی رہ گئی زبان، علاقے، مذہب، مسلک تو یہ سب غیراہم ہیں۔ مجھے افسوس ہوتا ہے جب پاکستان میں ہر لیڈر ان فروعی باتوں کو ہوا دیتا ہے اور انسانوں کو آپس میں لڑاتا ہے۔

آج ہمیں اس انسانیت کی اور اس رواداری کی زیادہ ضرورت ہے جو پاکستان کے قیام کے اوّلین برسوں میں یہاں موجود تھی لیکن افسوس کہ ضیاء الحق نے نفرت اور مذہبی جنگی جنون کے جو جذبات یہاں پیدا کیے تھے، انھیں ہمارے بعد کے آنے والوں نے فروغ دیا۔ آج ہر ایرے غیرے کو یہ حق حاصل ہو گیا کہ وہ مذہبی منافرت کی تلوار سے کسی کو بھی کافر قرار دے دے، کسی کو بھی قتل کر دے۔ اسے سزا ملنا تو دور کی بات، انتہا پسند ان کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالتے ہیں۔ ہندو برادری کا انخلا ایک نہایت خطرناک صورت حال کو جنم دینے والا ہے۔

اگر یہی سلوک بھارت میں مقیم مسلمانوں کے ساتھ ہو تو ہم کیا محسوس کریں گے؟ امریکا اور برطانیہ میں پاکستانیوں کو محض مسلمان ہونے پر تشدد کا نشانہ بنایا جائے تو ان کے خاندانوں پہ کیا گزرے گی؟ دراصل 1947 میں تقسیم تو ہو گئی لیکن آزادی نہیں ملی۔ ہم آج بھی لسانی و صوبائی تعصب کا اس حد تک شکار ہیں کہ پڑھے لکھے لوگ میڈیا پہ آکر جو زبان استعمال کرتے ہیں اسے سن کر یقین کرنا پڑتا ہے کہ اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دے کر بہت بڑی غلطی کی تھی۔

ایک دوسرے کے خلاف اگر اسی طرح نفرتیں پالنی تھیں تو پاکستان بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا صرف اس لیے کہ جاگیرداری کو تحفظ ملے، جاگیرداروں کو شکار کھیلنے کے لیے ایک نئی چراگاہ ملے؟ کیونکہ متحدہ ہندوستان میں یہ نا ممکن تھا یا اس لیے کہ یہاں اقلیتوں پہ زندگی اتنی تنگ کر دی جائے کہ وہ اپنی جنم بھومی چھوڑ کر بھاگنے پہ مجبور ہو جائیں؟ 14 اگست کے اخبارات میں واضح طور پر بھارت جا کر پناہ حاصل کرنے والے ہندو افراد کا بیان بہت سے رازوں پہ سے پردہ اٹھاتا ہے مگر اس کا نوٹس لینے کی کسے فرصت ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔