الوداع سر جیفری لینگ لینڈز!!

میاں عمران احمد  پير 7 جنوری 2019
آنجہانی جیفری ڈگلس لینگ لینڈز کو سرکاری اعزاز کے ساتھ سپردخاک کیا گیا۔ فوٹو: انٹرنیٹ

آنجہانی جیفری ڈگلس لینگ لینڈز کو سرکاری اعزاز کے ساتھ سپردخاک کیا گیا۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ان کا مکمل نام جیفری ڈگلس لینگ لینڈز تھا۔ لیکن دنیا انھیں مسٹر لینگلینڈز کے نام سے پکارتی اور جانتی ہے۔ لینگلینڈز صاحب کی زندگی اور پاکستان کے لیے خدمات کے حوالے سے آپ بہت کچھ جانتے ہیں لیکن ان کے شاگردوں نے ان کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے جو کچھ کیا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ لینگ لینڈز صاحب کے شاگردوں میں عمران خان، پرویز خٹک، چوہدری نثار، سابق صدر فاروق لغاری، ندیم ممتاز اور سینیر وکیل علی سبطین صاحب قابل ذکر ہیں۔

لینگ لینڈز صاحب کی زندگی کے حوالے سے راقم کی موجودہ وزیر دفاع اور سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ جناب پرویز خٹک صاحب سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔  پرویز خٹک صاحب نے بتایا کہ ’’لینگ لینڈز صاحب کا لہجہ اور زبان اس قدر میٹھی تھی کہ انھیں تمام طالب علم کوئل کی آواز سے مشابہت دیتے تھے۔ ان کی پوری زندگی میں کوئی ایک بھی اسٹوڈنٹ ایسا نہیں تھا جو ان سے کبھی ناراض ہوا ہو، یا انہیں ناپسند کرتا ہو۔ چترال میں غریبوں کے لیے اسکول بنانے میں ان کی گراں قدر خدمات تھیں۔ وہ صرف بیس ہزار روپے تنخواہ لیتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ اتنی کم تنخواہ کیوں لیتے ہیں، جبکہ آپ لاکھوں روپے تنخواہ کے حقدار ہیں؟ لینگ لینڈز صاحب نے جو جواب دیا وہ سونے کے پانی سے لکھےجانے کے قابل ہے۔ لینگ لینڈ صاحب نے کہا ’’میری تنخواہ میری ضرورت کے مطابق کافی ہے۔‘‘

لینگ لینڈز صاحب کی منفرد بات یہ بھی تھی کہ وہ باقاعدگی سے طالب علموں کو ایک ماہ یا پندرہ دن کے لیے ہائیکنگ پر لے جاتے تھے جو طالب علموں کو فطرت کے قریب کر دیتا تھا۔

لینگ لینڈز صاحب ایچی سن کالج کے اندر رہتے تھے، لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ان کے اخراجات ان کے پرانے شاگرد اٹھاتے تھے۔ ان میں قابل ذکر علی سبطین صاحب ہیں۔

علی سبطین سمیت کچھ پرانے طالب علموں نے ان کے اخراجات کی ذمہ داری اٹھا رکھی تھی۔ ایچی سن میں ایک کمرہ خالی تھا۔ ندیم ممتاز، اظہر ولی، جہانگیر منو، جاوید، امین افضل اور کچھ طالب علموں نے مل کر ان کے کمرے کی تزئین و آرائش کی۔ انہیں خاص قسم کا بیڈ پسند تھا جو کہ ان کی خواہش کے مطابق بنوایا گیا۔ کمرے میں صوفے، مخصوص میز اور کرسیاں، ٹیلی ویژن خرید کر دیے۔

اس کے علاوہ علی سبطین صاحب کے گھر سے کھانا، کپڑے، ادویات اور ضروریات زندگی کی تمام چیزیں باقاعدگی سے مہیا کی جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر اور بال کاٹنے کے لیے حجام بھی علی سبطین صاحب کے گھر سے ہفتے میں دو مرتبہ لینگ لینڈز صاحب کے پاس جاتا تھا۔

‏Langland Endonment Trust کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا گیا ہے۔ جس کے ڈائیرکٹرز لینگ لینڈ صاحب نے مقرر کیے تھے۔ اس ٹرسٹ سے حاصل شدہ رقم لینگلینڈز اسکول کو چلانے کے لیے خرچ کی جاتی ہے۔

لینگلینڈز صاحب کا ایک شاگرد تعلیم حاصل کرنے کے لیے چائنا چلا گیا ۔ وہاں اس کے پاس جب بھی پیسے ختم ہو جاتے تو وہ لینگ لینڈز صاحب کو فون کرتا اور لینگلینڈز صاحب پرانے طالب علموں سے حاصل شدہ ذاتی جیب خرچ میں سے اسے پیسے بھجوا دیتے تھے۔

یہاں تک کہ جب بھی وہ بیمار ہوتے تو پرانے طالب علم ان کے علاج کا خرچ اٹھاتے تھے۔ ایک سال قبل انہیں دل کا دورہ پڑا تو انہیں اسپتال منتقل کیا گیا۔ ڈاکٹرز نے کہا کہ انہیں ہارٹ پیسر لگانا پڑے گا ورنہ چند منٹوں میں ان کا انتقال ہو جائے گا۔ ان کے شاگردوں نے فوراً رقم ادا کی تاکہ وہ زندہ رہ سکیں۔

ایچی سن کالج کے موجودہ پرنسپل مائیکل تھامسن ایک ہفتے میں تین مرتبہ ان سے ملاقات کے لیے جاتے تھے۔ ایچی سن کے فزیکل تھراپی کے ماہر لینگلینڈز صاحب کا علاج بھی کرتے تھے۔

ان کا انتقال لاہور کے شالیمار اسپتال میں ہوا۔ ان کی باڈی عادل اسپتال کے سرد خانے میں رکھی گئی اور 7 جنوری 2019 کو بروز پیر لاہور جم خانہ کے عقب میں واقع قبرستان میں جسٹس کارنئلیس کی قبر کی دائیں جانب دفنا دیا گیا۔

انھیں دفنانے سے پہلے مکمل اعزاز دینے کا بندوبست بھی کیا گیا۔

میں یہاں اس بات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ اعزاز ان کے پرانے شاگردوں کی کاوشوں سے ممکن ہوا، انھوں نے یہ تمام اہتمام سر پر کھڑے ہو کر اپنی نگرانی میں کروائے۔

استاد سے محبت کسے کہتے ہیں، یہ کوئی لینگلینڈز صاحب کے شاگردوں سے پوچھے۔ آج کے دور میں اگر استاد کی عزت اور تکریم زندہ ہے تو ایسے شاگردوں کی بدولت ہی زندہ ہے۔ ان شاگردوں نے ثابت کیا ہے کہ لینگلینڈز صاحب ان کے لیے کل بھی زندہ تھے، آج بھی زندہ ہیں اور کل بھی زندہ رہیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

میاں عمران احمد

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالمنسٹ ہیں، جبکہ ورلڈ کالمنسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمنسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔