پنجۂ یہود

شکیل فاروقی  منگل 8 جنوری 2019
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر مدت دراز سے مسلسل رستے ہوئے وہ خوفناک ناسور ہیں جو بے تحاشا خون خرابے کا باعث اور انسانیت کے ماتھے پرکلنک کا ٹیکہ ہیں۔ چنانچہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے حالیہ دورہ ترکی کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں دونوں ممالک نے مسئلہ فلسطین کی مرکزیت پر زور دیتے ہوئے القدس کی قانونی حیثیت اور تاریخی کردار کو تبدیل کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کی آزاد اور خودمختار ریاست کے قیام کی جدوجہد کی حمایت کرے جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو اور جس کی سرحدیں 1967 کے مطابق ہوں۔

تاریخ عالم کا وہ منحوس ترین دن تھا جب 1897 میں تھیوڈر ہرزل (Theodor Harzal) کی سربراہی میں Base میں عالمی زائنسٹ کانگریس (World Zionist Congress) کا پہلا اجلاس منعقد ہوا ، جس میں عالمی صیہونی تنظیم World ZionistOrganization کی بنیاد رکھی گئی جس کا مقصد فلسطین کو یہودیوں کا ملک بنانے کی راہ ہموارکرنا تھا۔ اس مذموم مقصد کے حصول کے لیے ابتدا میں سلطنت عثمانیہ کے ساتھ معاہدات کی ناکام کوشش کی گئی۔لیکن پہلی عالمگیر جنگ کے نتیجے میں اس کا شیرازہ بکھر جانے کے بعد 1917 میں برطانیہ سے اعلان بلفور حاصل کیا گیا جس کے تحت یہودیوں کو فلسطین میں قیام کی اجازت مل گئی مگر اس شرط کے ساتھ کہ غیر یہودیوں کے تحفظ کی ضمانت دی جائے گی۔

اس کے بعد دوسری عالمگیر جنگ میں Holocast کے واقعے نے یہودیوں کو مظلوم بنانے کا بہانہ فراہم کردیا جس نے ایک طرف یہودیوں کی فلسطین کی جانب ہجرت اور آباد کاری کے عمل کو تیز تر کر دیا اور دوسری طرف صیہونی تنظیم کے تحت قائم کیے جانے والے فنڈ کے ذریعے فلسطین میں بڑے پیمانے پر زمین کے حصول کو یقینی بنا دیا۔ 1922 سے 1945 تک فلسطینی عربوں کی شرپسند یہودیوں کے ساتھ لگا تار جھڑپیں ہوتی رہیں تاآنکہ 1945 میں امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ کے سعودی عرب کے مفاہمتی دورے کے دوران جب ابن سعود نے یہ بیان دیا کہ یہودیوں پر ظلم تو عربوں نے نہیں بلکہ جرمنی نے کیا تھا لہٰذا جرمنی کو سزا دی جائے اور اس کے کسی بھی حصے کو یہودیوں کا ملک بنادیا جائے تو صدر روز ویلٹ نے واپس جاکر طاقت کے استعمال کا اعلان کردیا اور بالآخر 14 مئی 1948 کو مغرب کے اس ناجائز بچے نے جنم لیا جس کا نام اسرائیل ہے۔ ٹھیک اسی دن اسرائیل نے سات عرب ممالک کے ساتھ جنگ چھیڑ دی جس کے نتیجے میں 7 لاکھ گیارہ ہزار فلسطینی عرب باشندے اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ ہے اس المناک داستان کا آغاز جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خوفناک سے خوفناک ہوتی جا رہی ہے۔

1948 سے لے کر آج تک یہودی نہ صرف فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہے ہیں بلکہ سودی معاشی یلغار کے ذریعے انسانیت کا استحصال بھی کر رہے ہیں۔ یہ سب صرف اسلام دشمنی ہی نہیں بلکہ انسان دشمنی بھی ہے۔ اس لیے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر طبقے اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے باضمیر لوگ اسرائیل کی مذموم حرکتوں اور کارروائیوں کے خلاف کسی نہ کسی سطح پر آواز حق بلند کرتے رہتے ہیں۔ اسرائیل کے ظلم و ستم کی کوئی حد ہے نہ حساب۔ عالم یہ ہے کہ اسرائیل میں عربوں کو اپنے خاندان سے ملنے اور اپنی مذہبی رسوم ادا کرنے کے لیے داخلے پر بھی پابندیاں عائد ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اسرائیل کی مخالفت کرنا تو درکنار فلسطینی مظلوموں کی حمایت کرنا بھی قابل سزا جرم قرار دیا جاچکا ہے۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 2013 میں نوبیل انعام یافتہ کیمسٹ ڈاکٹر اسمتھ کو بھی محض اس بات پر متنازعہ بنادیا گیا کہ انھوں نے فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیلی مظالم کی مخالفت کی تھی۔ ڈاکٹر اسمتھ کا یہ جرم ناقابل معافی قرار پایا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ BDS کی حمایت اور اسرائیل کے خلاف توہین آمیز جذبات رکھنا بھی قابل سزا جرم قرار دینے کے لیے دنیا کی نام نہاد 25 مہذب مغربی فلاحی ریاستیں باقاعدہ قانون سازی کرچکی ہیں جب کہ امریکا بھی اس کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ یعنی یہ کہ صرف یہودیوں کے خلاف امتیازی رویے کو Anti-Semitism قرار دینے سے بڑھ کر دوسرے انسانوں کے ساتھ اسرائیل کے امتیازی رویے کے خلاف تنقید کو بھی New Anti-Semitismکہہ کر قابل سزا جرم قرار دیا جا رہا ہے۔

بدقسمتی سے عرب دنیا کا حال یہ ہے کہ ایک آدھ ملک کو چھوڑ کر باقی سب کے سب کسی نہ کسی طور اسرائیل کے آگے گھٹنے ٹیک چکے ہیں اور اسرائیلی حکمران نیتن یاہو کے ساتھ بغلگیر ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس صورتحال کے بارے میں اس کے سوائے بھلا اور کیا کہا جاسکتا ہے:

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

سب سے زیادہ دکھ تب ہوتا ہے جب ہم اپنے بعض نام نہاد دانشوروں کو یہ کہتے ہوئے پاتے ہیں کہ ہماری اسرائیل سے آخر کیا دشمنی ہے؟ ہم فلسطینیوں سے بھی بڑھ کر ان کے حمایتی کیوں بن رہے ہیں ؟ جب اکثر عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں تو ہمارے لیے اسے تسلیم کرنے میں آخر کیا قباحت ہے؟ ان تمام سوالوں کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ہماری اسرائیل سے مخالفت کی بنا صرف فلسطینیوں پر ان کی جانب سے ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم ہی نہیں بلکہ یہودیوں کی سرکشی، بدعہدی اور وعدہ خلافی بھی ہے۔ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب یہودی اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ قوم ہوا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی بے شمار نعمتوں اور رحمتوں کی بارش برسائی لیکن یہودیوں نے ہمیشہ اپنے رب کی نافرمانی ہی کی اور ہمیشہ کفران نعمت ہی کیا۔

لہٰذا اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں انھیں سب سے زیادہ معتوب قوم قرار دیا اور انھیں اپنی بدعہدی کی پاداش میں دربدر کردیا۔ یہودیوں کی سرشت ہے کہ وہ ذلیل و خوار ہونے کے باوجود اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے۔ انھوں نے نہ اپنے سازشی کردار کو بدلا اور نہ انسانیت کے خلاف شیطانی حربے استعمال کرنا ترک کیے۔ خواہ صلیبی جنگیں ہوں یا عالمی جنگیں ہر طرح کی خوں ریزی اور قتل و غارت گری کے پیچھے یہودیوں کا ہاتھ صاف طور پر دکھائی دیتا ہے۔ گریٹر اسرائیل کے نقشے میں انھوں نے مدینہ منورہ کو شامل کر رکھا ہے جو دنیا کے ہر مسلمان کو اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہے۔ یہودیوں کی اسلام دشمنی کا جب یہ حال ہو تو بھلا ان سے تعلقات کیوں کر قائم کیے جاسکتے ہیں؟ برسبیل تذکرہ اور یاد دہانی کے طور پر عرض ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ان کے پہلے دورہ امریکا میں اسرائیلی بینکرز اور سرمایہ کاروں کی جانب سے یہ پیشکش کی گئی کہ اسرائیل کو تسلیم کرلو تو ہم اپنے خزانوں کے منہ تمہارے لیے کھول دیں گے تو انھوں نے اپنے تاریخی جواب میں کہا تھا : “Gentlemen! Our souls are not for sale” ان کا یہ تاریخی جملہ ہمارے لیے مشعل راہ ہونا چاہیے۔

مصور پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے آج سے ایک صدی قبل جو کچھ کہا تھا وہ بھی ہمارے لیے قابل غور اور ناقابل فراموش ہے۔ انھوں نے فرمایا تھا کہ فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے۔ یہودی اب یہ پنجہ پوری دنیا اور خصوصاً عالم اسلام کی گردن پر گاڑ رہے ہیں مگر بدقسمتی سے مسلمان اس کا صحیح ادراک نہیں کر پا رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔