غلامانہ نظام کی باغی، بے بس انسانوں کی نجات دہندہ ، ہیر یئٹ ٹبمین

افشاں شاہد  منگل 8 جنوری 2019

صنفِ نازک کو آج بھی اپنے مقام و مرتبے، حقوق اور سماج میں اپنی حیثیت کو منوانے کے لیے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اب بھی معاشروں میں عورتوں کو ناتواں، کم ہمت اور مردوں کے مقابلے میں کم فہم سمجھا جاتا ہے، لیکن آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو کئی ایسے نام سامنے آئیں گے جو عورت سے متعلق اس سوچ کی نفی ہی نہیں کرتے بلکہ ان کا عزم، ارادے کی پختگی، ہمت اور حوصلہ دنیا بھر کی عورتوں کے لیے مثال ہے۔ اسی فہرست میں ہیریئٹ  ٹبمین بھی شامل ہیں جو دورِ غلامی میں مال و زر اور طاقت و اختیار کے نشے میں اپنے ہی جیسے انسانوں پر ظلم ڈھانے اور ان سے بدترین سلوک روا رکھنے کے خلاف ڈٹ گئیں۔ ہیریئٹ  ٹبمین نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ بھی آزادی کے ذائقے سے ناآشنا تھا، لیکن کوئی یہ نہیں جانتا تھاکہ اسی خاندان کی ایک لڑکی غلامی کے خلاف اعلانِ بغاوت کرے گی اور دنیا اسے ایک باہمّت اور انسان دوست عورت کے طور پر صدیوں یاد رکھے گی۔

ہیریئٹ ٹبمین انسانی حقوق کی سرگرم کارکن کے طور پر دنیا بھر میں پہچانی جاتی ہیں۔ وہ امریکا میں خانہ جنگی کے دور میں اہم خدمات انجام دینے کے بعد عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے میدانِ عمل میں نظر آئیں۔ ان کا ایک اہم کارنامہ غلاموں کو آزاد زندگی گزارنے پر آمادہ کرنا اور ظلم اور جبر کے شکنجے سے نکلنے میں مدد دینا ہے۔ ٹبمین کی کوششوں سے کئی غلام زیرِ زمین ریلوے نظام کے ساتھ فرار ہو کر امریکا کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے اور آزاد زندگی بسر کی۔

ٹبمین کا سن پیدائش 1822 اور آبا و اجداد کا تعلق افریقا سے تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ان کی نانی غلام بنا کر امریکا لائی گئی تھیں اور اسی سرزمین پر ان کا خاندان پروان چڑھا۔ ہیریئٹ  ٹبمین کے نو بھائی بہنوں میں سے تین بہنوں کو بچپن ہی میں فروخت کر دیا گیا تھا جب کہ ٹبمین بھی غلامی کا جبر اور مظالم برداشت کرتے ہوئے عمر کی منزلیں طے کرتی رہیں۔ انہوں نے سوسن نامی ایک خاتون کے یہاں آیا کے طور پر کام شروع کیا جو ایک ظالم عورت تھی۔ اس گھر میں نوجوان ٹبمین نے معمولی غلطی یا سستی اور کوتاہی پر گالیاں اور کوڑے بھی برداشت کیے۔

یہی نہیں بلکہ ٹبمین کو غلام کی حیثیت سے ہر وہ کام کرنا پڑا جو ان کی اہلیت اور بساط سے بڑھ کر تھا۔ کسی بیماری اور تکلیف کے باوجود انہیں گھر کا ہر کام کرنا پڑتا اور اس کے بعد کھیتی باڑی یا دوسرے کاموں پر لگا دیا جاتا۔ اسی گھر میں ایک واقعہ پیش آیا جس نے ٹبمین کی زندگی مزید مشکل کر دی۔ اس کی مالکن اپنے ایک غلام سے کسی بات پر سخت برہم ہو گئی اور غصے میں ایک پتھر اسے دے مارا، لیکن اس کا نشانہ چوک گیا اور وہ پتھر ٹبمین کے سَر کے پچھلی طرف لگا۔ ٹبمین کو شدید چوٹ آئی اور وہ ہمیشہ کے لیے سَردرد اور مرگی جیسے مرض کا شکار ہو گئیں۔ اس جسمانی اذیت اور بیماری کے ساتھ ان کا ہر دن مالکن کی بدسلوکی اور ظلم سہتے ہوئے گزرتا چلا گیا۔

1844 میں ٹبمین نے ایک سیاہ فام سے شادی کر لی جسے اس کے مالک نے آزاد کر دیا تھا۔

1849میں ٹبمین کے آقا کا انتقال ہو گیا جس کے بعد زیادہ امکان یہی تھا کہ اسے کسی اور کی غلامی میں دے دیا جائے گا۔ تب وہ اپنے دونوں بھائیوں کے ساتھ وہاں سے فرار ہو گئیں، لیکن بعد میں بھائیوں نے واپسی کا فیصلہ کیا اور ٹبمین بھی اس پر مجبور ہو گئیں۔ تاہم جلد ہی انہوں نے پھر فرار کی راہ اختیار کی۔ اس بار وہ تنہا تھیں اور زیر زمین ریلوے کا راستہ اختیار کیا۔ اس دور میں بعض لوگوں کی کمائی کا ایک ذریعہ فرار ہونے والے غلاموں کو پکڑ کر ان کے آقاؤں تک پہنچانا بھی تھا۔ اسی لیے ٹبمین بہت احتیاط برت رہی تھیں۔ کئی ہفتوں کے سفر کے بعد وہ پینلسوانیا پہنچیں اور فلاڈیلفیا کو ٹھکانہ بنایا۔ جسم اور روح کا ناتا جوڑے رکھنے کی غرض سے معمولی اور ہر قسم کا کام کیا جس سے پیٹ تو بھر گیا، مگر انہیں ہر لمحہ اپنے خاندان کی فکر رہتی تھی۔

وہ فی الوقت آزاد تھیں، مگر ان کا کنبہ اب بھی غلامی کا عذاب سہہ رہا تھا۔ ٹبمین کا ذہن یہی تانے بانے بُنتا رہتا کہ وہ کس طرح اپنے خاندان کو آزاد کروا سکتی ہیں۔ وہ اس کے لیے ہر قیمت چکانے پر تیار اور بغاوت پر آمادہ تھیں، مگر اسی عرصے میں یہ سنا کہ سرکار نے ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت غلاموں کو فرار ہونے میں مدد دینے والوں کو سخت سزا دی جائے گی۔ ٹبمین نے اس کے باوجود ہمّت نہ ہارنے اور حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ انہوں نے خطرہ مول لیا اور متعدد بار میری لینڈ گئیں اور اپنے خاندان کے کئی لوگوں کو فرار ہونے میں مدد دی۔ ٹبمین کا شوہر اس وقت تک دوسری شادی کر چکا تھا اور وہ ان کے ساتھ نہیں جانا چاہتا تھا۔ قسمت کا لکھا تسلیم کرتے ہوئے ٹبمین نے بھی اب آزاد زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ ہمیشہ بندوق اپنے ساتھ رکھتی تھیں۔

ان کی کوششوں سے 70 سے زائد غلاموں نے آزادی کا ذائقہ چکھا۔ ٹبمین نے امریکا میں سول وار کے دوران بطور نرس خدمات انجام دیں۔ ابراہام لنکن کے دور میں بھی وہ فوج کے لیے کام کرتی رہیں۔ ان کا ایک اور کارنامہ کئی غلاموں کو فوج میں شمولیت پر آمادہ کرنا بھی ہے، لیکن سیاہ فام ہونے کی وجہ سے انہیں 1899 تک نہ باقاعدہ تنخواہ دی گئی اور نہ ہی وظیفہ ملا۔یہاں تک کہ دورانِ جنگ بھی وہ اپنے اخراجات محنت کرکے پورے کرتی تھیں۔ خانہ جنگی ختم ہوئی تو ٹبمین اپنے خاندان اور غلاموں کی دیکھ بھال کرنے لگیں۔ اسی عرصے میں انہوں نے دوسری شادی کی۔

ان کا شوہر عمر میں ان سے لگ بھگ بیس برس کم تھا۔ ٹبمین نے اپنے حالاتِ زندگی تحریر کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورتوں کے حقوق کی جدوجہد میں بھی پیش پیش رہیں۔ ٹبمین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک بہترین قصہ گو تھیں اور تقریر کا فن بھی جانتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عورتوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا اور وہ ٹبمین کے خیالات اور نظریات سے متاثر ہوئیں۔ انہوں نے مختلف مہمات کے ذریعے عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کا درس دیا اور کہا کہ وہ کسی طرح مرد سے کم تر نہیں۔ ٹبمین نے عورتوں میں شعور بیدار کیا اور کہا کہ ان کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے لڑنا ہو گا۔ ٹبمین کی اسی فکر اور نظریات نے انہیں ایک عظیم راہ نما اور باہمّت خاتون کے طور پر شہرت دی۔ 1913 میں انہوں نے اپنے خاندان اور دوستوں کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ دیا۔ ٹبمین نے اپنی زندگی میں ہی اپنا گھر اور جائیداد ایک چرچ کو عطیہ کر دی تھی۔ ان کی موت کے بعد ان کے گھر کو سیاہ فام اور عمر رسیدہ لوگوں کی پناہ گاہ میں تبدیل کر دیا گیا۔

یوں تو امریکا میں ہیریئٹ ٹبمین کی مختلف یادگاریں موجود ہیں، جو ان کی انسان دوستی اور خدمات کے اعتراف کی ایک شکل ہیں، لیکن امریکا میں 20 ڈالر کا نوٹ ری ڈیزائن کرنے کا فیصلہ سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ ہیریئٹ  ٹبمین وہ پہلی افریقی امریکی شخصیت ہوں گی جو امریکا کے اس کرنسی نوٹ پر نمایاں ہوں گی جس کا ایک مقصد تو ان کی ملک کے لیے خدمات کا اعتراف ہے اور دوسری جانب ان کی تصویر اس بات کی علامت ہو گی کہ امریکا کسی بھی شعبے میں عورتوں کو الگ تھلگ نہیں رکھتا اور اسے کم تر خیال نہیں کرتا ہے۔ تاہم یہ کرنسی نوٹ 2020ء میں جاری ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔