بجلی کی راشن بندی

عبدالقادر حسن  بدھ 9 جنوری 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ہم پاکستانیوں نے بڑے چاؤ سے ایک حکومت منتخب کی لیکن ہمیشہ کی طرح ہمارے ساتھ وہی ہوا جو پاکستان کے قیام کے بعد سے ہوتا آیا ہے کہ ہر جانے والی حکومت کو ہم برا بھلا کہتے ہیں اور آنے والے حکمرانوں کا استقبال بڑے دھوم دھڑکے سے کرتے ہیں، چاہے وہ نئے حکمران عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہوں یا اپنی مرضی سے حکمرانی کے تخت پر قابض ہو جائیں۔ ہمارے تاریخ ایسے کئی حکمرانوں کے قصوں سے بھری پڑی ہے جن کو ہم نے اپنی مرضی سے منتخب کیا لیکن پھر اپنی جلد باز طبیعت کی وجہ سے ان سے اتنی ہی جلدی اکتا بھی گئے جتنی عجلت میں ان کو حکمران بنایا تھا۔ ہر آنے والا حکمران عوام کو خوابوں کی ایک نئی دنیا دکھاتا ہے، ایک ایسی دنیا جس میں عوام کے لیے سب اچھا ہی ہوتاہے لیکن بعد میں وہی سب اچھا کی نوید سنانے والے مشکل حالات کا رونا اور ماضی کے حکمرانوں کے خراب طرز حکومت پر سب کچھ ڈال کراپنی جان خلاصی کرنے کی کوشش میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

ایساہی معاملہ ہمارے موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ انھوں نے حکومت سے عوام کی توقعات کو جن بلندیوں پر پہنچا دیا تھا اتنی ہی تیزی سے وہ ان توقعات کو پستی کی جانب دھکیل رہے ہیں اور عوام ابھی سے شکوے شکایت میں لگ گئے ہیں کہ ان سے کہا تو کچھ اور گیا تھا لیکن ہو کچھ اور رہا ہے ۔ امید تو یہ تھی کہ دن پھریں گے اور محرومیوں کا ازالہ ہو گا لیکن عوام کی نبض کو نہ سمجھنے والے لوگ جب اقتدار کی مسند پر براجمان ہو گئے تو ہم پر جلد ہی حیرت کے در کھلنے لگے کہ ہمارے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بجلی جو کہ عوام کی بنیادی ضرورت ہے اس کی کمیابی ہمیشہ ایک مسئلہ بنی رہی ہے۔ ہمارے ماضی کے حکمرانوں کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ اتنی وافر بجلی بناکر جا رہے ہیںجو پاکستان کی ضروریات کے لیے کافی ہو گی لیکن معلوم یہ ہوا کہ بجلی کی مقدار میں تو اضافہ ہو گیا ہے لیکن اس کی قیمت عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ جیسے ہی سردی کی شدت میں اضافہ ہوا تو بجلی کی آنکھ مچولی بھی شروع ہو گئی۔ لاہور میںدن بھر ہر گھنٹے کے بعدبجلی چلی جاتی ہے یعنی آپ کے معمولات زندگی جو فنی مہارتوں اور ایجادوں کی اس صدی میں بجلی کے مرہون منت ہیں بجلی کی اس محرومی پر سر پیٹنے کو دل کرتا ہے۔ بجلی کی اس آمدورفت سے جو ذہنی کوفت ہوتی ہے وہ کسی لکھنے والے کے ذہن کو معطل کر دیتی ہے، خود اپنی ہی لکھی ہوئی تحریر بے ربط دکھائی دیتی ہے اسے قارئین کے سامنے کیا پیش کریں اور اپنی مارکیٹ خراب کریں۔ ہم قلم کے مزدور لوگوں کی مارکیٹ ہی تو ہوتی ہے جس کی کچھ قدرو قیمت ہو تو آج کل کے مہنگائی کے دور میں گزر بسر ہو سکتی ہے لیکن جس طرح بجلی اور گیس نہ ملنے کی وجہ سے کارخانے بند ہیںاسی طرح گھر بیٹھ کر اپنا لکھنے پڑھنے کا کارخانہ چلانے والے بھی بند ہوتے جا رہے ہیں۔

ان حالات میں میں اپنے گاؤں کا دیا یاد کرتا ہوں۔ لالٹین تو بہت بعد کی ایجاد ہے پہلے مٹی کے دیے ہی ہر گھر میں روشنی کے لیے جلائے جاتے تھے جن میں زیادہ تر جماہوں کا تیل استعمال ہوتا تھا اور اس کی روشنی کے لیے جلانے کی بتی کپاس کی ہوتی تھی جو تیل میں بھیگ کر آگ پکڑ لیتی تھی اور اس کا سرا روشن ہوجاتا تھا جس کی روشنی میں دیہات کی زندگی روشن ہوتی تھی ۔آپ کو معلوم نہیں کہ رات کو سوتے وقت اس دیے کا بجھانا ایک مرحلہ ہوتا تھا۔ ایک تو یہ کہ اس کے بجھنے سے دھوئیں کی بو بڑی ناگوار ہوتی اور دوسرا جو اس کو بجھاتا واپس اپنے بستر تک کئی ٹھوکریں کھا کر پہنچتا تھا۔ دیے کی یاد مجھے آج کل بجلی کی آنکھ مچولی سے آئی لیکن اب کہاں وہ دیے اور کہاں وہ دیہات کی سادہ مگر پروقار زندگی جس کا اب صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے اور لاہور میں بیٹھ کر حکومتوں کی ناکامیوں کا رونا رویا جاتا ہے جو عوام کو دیے جیسی روشنی فراہم کرنے میں بھی ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکیں۔

آج کل ایک بار پھر عوام کے لیے بجلی کا راشن کر دیا گیا ہے جو عملاً ہونے نہ ہونے کے برابر ہے کہ اس ایک گھنٹے میں تو قلم دوات بھی اپنی اپنی جگہ پر نہیں رکھی جا سکتی ۔ بکھرے ہوئے قلم دان کو سمیٹنا اور کام میں لانا بھی ایک فن ہے۔ جب سے بال پوائنٹ ایجاد ہوا ہے اور اس نے لکھنے والوں کے خط کو بگاڑا ہے تب سے قلمدان کا اہتمام تو ختم ہو گیا ہے کہ اس جدید قلم میں نوک پلک اور روشنائی سب کچھ ایک ساتھ موجود ہوتاہے لیکن لکھنے کی جو رونق کسی قلمدان کو آراستہ کرنے سے ہوتی تھی وہ ختم ہو گئی ہے اور طالبعلموں میں خوش خطی کا سوال بھی اٹھ گیا ہے۔ آج خود میری یہ حالت ہے کہ کسی زمانے میں لکھی ہوئی میری تحریریں بھی مجھے آج خوبصورت دکھائی دیتی ہیں لیکن اب دفتر میں میرے ساتھی اسے آرام سے پڑھ نہیں سکتے۔

بات بجلی کی قلت بلکہ نایابی کی ہورہی تھی بجلی کے جید ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کے پاس بجلی کے بحران کے حل کے کئی ذریعے موجود ہیں لیکن کوئی بھی حکومت ان سستے ذرایع کو استعمال کرنے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ بیرونی کمپنیوں سے مہنگے اور غلط معاہدے کر کے اس ملک کو مزید قرضوں میں ڈبونے میں مصروف ہیں اور حکومت کی ان غلطیوںکا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں جو بجلی کی قلت کے باوجود مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور ہیں ۔ حکومت کے پاس کمائی کا سب سے آسان ذریعہ یہی ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے عوام کی جیب سے پر ڈاکہ ڈالا جائے اس طرح کے کئی ڈاکے آئے روز عوام بھگت رہے ہیں ۔ خدا جانے وہ وقت کب آئے گا جب عوام ان ڈاکوں سے چھٹکارا حاصل کر پائیں گے۔کوئی درمند حکمران عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے بجائے مرہم رکھے گا اور عوام بجلی کی راشن بندی سے آزاد ہو ں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔