اضلاع کا قیام، کابینہ نے مطالبات سے بچنے کیلئے کمیٹی بنا دی

شاہد حمید  بدھ 9 جنوری 2019
 کابینہ نے اب تک قائم ہونے والے اضلاع کو نہ چھیڑنے کا بھی فیصلہ کیا ہے

کابینہ نے اب تک قائم ہونے والے اضلاع کو نہ چھیڑنے کا بھی فیصلہ کیا ہے

پشاور: خیبرپختونخوا کی کابینہ نے نئے اضلاع کے قیام سے متعلق مطالبات سے بچنے کے لیے اس ضمن میں کمیٹی بناتے ہوئے معاملہ کمیٹی کے حوالے کردیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ سیاسی بنیادوں پر اضلاع کے قیام پر پابندی عائد رہے گی تاہم کابینہ نے اب تک قائم ہونے والے اضلاع کو نہ چھیڑنے کا بھی فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کی اپنی ہی گزشتہ حکومت میں صوبہ میں قائم ہونے والے تین نئے اضلاع بچ گئے ہیں جن کا قیام انتظامی کی بجائے سیاسی زیادہ نظر آتا ہے اور اگر پرویزخٹک حکومت کو قدرے مزید وقت مل جاتا تو سوات اور ڈیرہ اسماعیل خان کے اضلاع بھی دو،دوحصوں میں تقسیم ہو چکے ہوتے، تاہم ایسا نہیں ہو سکا اور معاملہ صرف ضلع کوہستان کو تین اور ضلع چترال کو دوحصوں تک تقسیم کرنے تک ہی محدود رہا۔ ماضی قریب میں اے این پی دور حکومت میں صرف ایک نیا ضلع قائم کیا گیا جو تورغر ہے، ضلع مانسہرہ سے متصل صوبہ کے زیر انتظام قبائلی علاقے کالاڈھاکہ کو تورغر کا نام دیتے ہوئے اس وقت ضلع بنایا گیا تھا اور یہ اقدام بنیادی طور پر تحریک صوبہ ہزارہ کو کمزور کرنے کی کڑی تھی۔

اے این پی حکومت کی کوشش تھی کہ کوہستان، بٹ گرام ، شانگلہ اور تورغرکو یکجا کرتے ہوئے صوبہ میں آٹھواں ڈویژن قائم کرے اور اس کے پش پشت اصل سوچ یہ تھی کہ اس طریقے سے صوبہ ہزارہ کے قیام کے لیے باباحیدرزمان مرحوم کی قیادت میں جو تحریک جاری تھی اسے ختم کردیاجائے، بنیادی طور پر ضلع تورغر کا قیام بھی اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبہ کے نام کی تبدیلی کے بعد عمل میں لایا گیا اور اباسین ڈویژن کے قیام کا مطالبہ بھی اس کے بعد ہی منظر عام پر آیا جس کے لیے اسمبلی میں قراردادیں بھی منظور کرائی گئیں اور کوششیں بھی ہوئیں اور ڈویژن کے قیام سے قبل ہی ڈویژنل ہیڈکوارٹر کے حوالے سے عوامی نمائندوں میں بحث ومباحثے بھی ہوئے۔ تاہم اباسین ڈویژن کا قیام عمل میں نہ لایا جا سکا اور اے این پی حکومت اپنا دورانیہ مکمل کرگئی، تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت میں اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے بھی سیاسی بنیادوں پر پہلے ضلع کوہستان کو اپر اور لوئر کوہستان کے نام سے دو حصوں میں تقسیم کیا اور پھر پالس کولائی کے نام سے تیسرا ضلع بھی قائم کردیا گیا۔

یہ بجا کہ ضلع کوہستان بڑے اضلاع میں سے تھا تاہم وہاں ایسی بھی صورتحال نہیں تھی کہ اسے تین حصوں میں تقسیم کردیا جاتا،گزشتہ حکومت ہی میں سوات کو اپر اور لوئر جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں تحصیل کلاچی کو الگ ضلع بنانے کے لیے بھی سوچ موجود تھی تاہم اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا لیکن اب چونکہ قبائلی علاقہ جات بھی صوبہ میں ضم ہوگئے ہیں اور اس انضمام کی وجہ سے صوبہ میں سات نئے اضلاع بھی شامل ہوگئے ہیں جن کی وجہ سے صوبائی حکومت پر بوجھ بڑھ گیا ہے اور وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کو پوری توجہ ان نئے اضلاع کی جانب مبذول کرنی پڑرہی ہے اس لیے فوری طور پر نئے اضلاع کے قیام پر پابندی عائد کردی گئی ہے تاہم اگر جنوبی پنجاب الگ صوبہ بنتا ہے تو اس پابندی سے صوبہ ہزارہ کے قیام کی تحریک کی راہ روکنا مشکل ہوگی۔ صوبہ میں ضم ہونے والے قبائلی علاقہ جات میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہاں کے حوالے سے قانون سازی تھی جو صدرمملکت کی جانب سے آرڈیننس کے اجراء سے ختم ہوگئی ہے اور اب وہاں حلقہ بندیوں اور اعتراضات کا سلسلہ نمٹانے کے بعد حلقہ بندیوں کو حتمی شکل دی جائے گی جس کے ساتھ ہی ضم شدہ علاقوں میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا ڈول ڈالا جائے گا جس سے صوبائی اسمبلی میں21 ارکان کا اضافہ ہوجائے گا۔

جمعیت علماء اسلام(ف)اگرچہ ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے سرگرم نہیں تاہم اپنے طور پر ملین مارچ اور جلسوں کے ذریعے میدان گرم کیے ہوئے ہے جس کے ساتھ ہی جماعت اسلامی کی سرگرمیاں بھی جاری ہیں اور یہ دونوں پارٹیاں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے کتاب کے نشان کے ساتھ ہی میدان میں اتریں گی کیونکہ اگر یہ دونوں جماعتیں ضم شدہ اضلاع میں منعقد ہونے والے انتخابات میں الگ ،الگ حیثیت سے میدان میں اترتی ہیں تو دونوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا جس سے بچنے کے لیے ان کا اتحاد ضروری ہے البتہ ان دونوں جماعتوں کے لیے نشستوں کی تقسیم ایک مرتبہ پھر بڑا مسلہ ہوگا۔اے این پی اگرچہ اس سال باچاخان اور ولی خان کی برسیوں کے موقع پر بڑا جلسہ نہیں کر رہی تاہم وہ دونوں رہنماؤں کی برسیوں کے سلسلے میں پورا ہفتہ منانے جا رہی ہے جس کا بنیادی مقصد اپنے ورکروں کو متحرک کرنا ہے تاکہ ضم شدہ علاقوں میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کے لیے ان کے یہ ورکر بھرپور طریقے سے متحرک ہوں اور بات صرف ایک ہفتے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اے این پی انٹرا پارٹی انتخابات کے ساتھ ضم شدہ اضلاع میں جلسوں اور دیگر سرگرمیوں کو بھی بڑھائے گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔