کھوئی ہوئی اشیا کہاں تلاش کریں؟

توقیر کھرل  اتوار 13 جنوری 2019
گمشدہ اشیا جمع کرانے اور وصول کرنے کا کوئی باقاعدہ مکینزم ہونا چاہیے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

گمشدہ اشیا جمع کرانے اور وصول کرنے کا کوئی باقاعدہ مکینزم ہونا چاہیے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

گلی محلے میں کوئی شخص گم ہوجائے تو ملنا محال ہوجاتا ہے۔ پہلے اعلان کروایا جاتا ہے، اگر اس کا ذہنی توازن درست نہیں ہے تو اشتہار لگادیا جاتا ہے جس میں قمیض کا رنگ اور عمر کے ساتھ موبائل نمبر درج ہوتا ہے۔ ایسے عمل سے ملنے والا آسانی سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ البتہ جو شخص اپنے ایکٹو ازم کے باعث گمشدہ لسٹ میں شامل ہوجائے تو کچھ عرصہ بعد مل جاتا ہے؛ اور ورثا کو معلوم ہوتا ہے ان کا پیارا کہاں ہوگا۔ لیکن اگر آپ ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرتے ہیں، اور آپ کے ہمراہ کوئی اہم اور قیمتی دستاویزات ہیں، اور ایسی پریشان کن صورتحال ہے کہ شناختی کارڈ کی طرح اس میں کوئی چپ بھی چسپاں نہیں ہے؛ تو ایسی چیزوں کا ملنا محال ہوجاتا ہے۔

اب یہ کوئی موبائل تو نہیں ہے کہ آپ کال کریں اور لوکیشن ٹریس کرکے متلعقہ مقام اور شخص کو تلاش کرکے اپنی گم شدہ چیز کو حاصل کرلیں۔ گزشتہ دنوں ایک تیز رفتار موٹر سائیکل سوار میرے قریب سے گزرا، اس کی جیب سے ایک قیمتی چشمہ گرا، میں نے چشمے کے مالک کو آواز دی کہ اپنا چشمہ لیتے جائیے لیکن انہوں نے ان سنا کردیا۔ چشمے کے کور میں بھی ایسا کوئی نمبر یا ایڈریس نہیں تھا کہ مالک تک پہنچ کر گم شدہ چیز پہنچائی جاسکے۔

سوشل میڈیا ایکٹوسٹ زین العابدین کا کہنا ہے کہ کسی کو راہ چلتے کوئی کھوئی ہوئی  چیز مل جائے اور وہ اسے حقیقی مالک تک پہنچانا چاہے تو اسے دوہری پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گمشدہ اشیاء کے اصل مالک کی بجائے خواہش مند حضرات وہ گمشدہ چیز حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ ایک بار یونیورسٹی میں لیڈیز بیگ ملا، نوٹس بورڈ پہ گمشدہ بیگ کی اطلاع درج کی گئی لیکن کچھ ہی لمحوں میں کئی مرد حضرات بیگ کے مالک ہونے کا دعویٰ کرتے نظر آئے۔

رضوان الحسن کہتے ہیں المیہ یہ ہے کہ کسی کی کوئی چیز گم ہوجائے تو اسے صدقہ مان لیا جاتا ہے، جبکہ نیا مالک اسے مال غنیمت قرار دیتا ہے۔ ایسے مسائل آئے روز پیش آتے رہتے ہیں، سوشل میڈیا ایسے پریشان حال لوگوں کی مدد کرتا رہتا ہے۔ گزشتہ دنوں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والا شبیر حسین اسلام آباد سے اسکردو جا رہے تھے۔ شیراز کے مقام پر بس کے اوپر سے اس کا بیگ گر ا جس میں اہم دستاوایزات تھیں۔ شبیر نے سوشل میڈیا پر ویڈیو پیغام جاری کیا تو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی مدد سے کچھ ہی دیر میں وہ بیگ مل گیا۔

ایسے درجنوں واقعات ہیں۔ چند ماہ قبل اسلام آباد کے کچنار پارک میں مہربان بورڈ بنایا گیا۔ اس پارک میں کچھ بھی کھو جائے، اس بورڈ پر گمشدہ مال یا اطلاع موجود مل جاتی ہے۔ بہت سے لوگ جو پارک کی خوبصورتی میں کھوکر اپنی قیمتی اشیاء کھو بیٹھتے، انہیں مہربانی بورڈ کی مدد سے گم شدہ چیزیں مل جاتی ہیں۔ مہربا ن بورڈ ایک اچھی اور قابل عمل تجویز ہے۔ اگر اسی طرح کے سینٹرز ملک کے ہر شہر میں قائم کردیے جائیں جہاں کھوئی ہوئی چیزیں جمع کروائی جاسکیں، اور اگر اس پہ مالک کا ایڈریس اور رابطہ نمبر ہے، تو اس کے ایڈریس پہ پہنچا دیا جائے؛ یا مالک خود اپنی گمشدہ چیز وہاں سے حاصل کرسکے تو مشکل میں پھنسے لوگوں کے لیے بہت آسانی ہو جائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
توقیر کھرل

توقیر کھرل

بلاگر، فیچر رائٹر اور صحافی توقیر کھرل، پاک افواج میں دخترانِ وطن کی خدمات و کردار پر مبنی کتاب ’’دھرتی سے افق‘‘ کے مدوّن بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔