قومی فٹ بال... عروج سے محروم

نادر شاہ عادل  جمعرات 10 جنوری 2019

درد دل لکھوں کب تک جاؤں ان کو دکھلاؤں

انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا

(غالب)

پرتگال کے عالمی شہرت یافتہ فٹبالرکرسٹیانو رونالڈو کو تیسری بار ’’ گلوب فٹبالرآف دی ایئر ‘‘کا اعزاز دیا گیا تو سچ جانیے دل میں پھرگریہ نے اک شور اٹھایا کہ کرسٹیانو رونالڈو تو اس اعزازکا ہر اعتبار سے مستحق ہے، اس میں کیا شک ہے، کیونکہ وہ توکروڑوں شائقین فٹبال کے دلوں کی دھڑکن ہے، مگر ہم اپنے رونالڈو سے اب تک کیوں محروم ہیں، اسی طرح ارجنٹائن کا لیونل میسی بھی دنیائے فٹبال کا مایہ ناز کھلاڑی ہے، اس کے برق رفتار کھیل کی کیمسٹری نرالی ہے، وہ مخالف ٹیم کے دفاع کو تتربترکرکے رکھ دینے والا فاتح ہے،کبھی تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ گیارہ مخالف کھلاڑیوں کی ٹیم کا صرف میسی سے مقابلہ ہے۔ میسی کے تیزی سے گول کرنے کی ہنرمندی اورکمر توڑ پاس دینے یا لینے کے بروقت فیصلہ سے جو موومنٹ ڈی کے اندر بنتا ہے وہ میسی کے کمال کو دوچند کردیتا ہے۔

یوں کرسٹیانو اور میسی دونوں سپر اسٹار ماضی کے برازیلین فٹبال جادوگر سیاہ فام پیلے اور ارجنٹائنی چمتکار میرا ڈونا کے حقیقی نعم البدل ثابت ہوئے ہیں۔ بلاشبہ ہیں اور بھی دنیا میں فٹ بالربہت اچھے مگرکیا بات ہے جو خوبی رونالڈو میں ہے وہ سواریز میں نہیں، موڈریج میں ہے ، وہ کینانی میں نہیں، جو صلاح میں ہے وہ ہیزرڈ میں نہیں، لوکاکو میں ہے، اسٹرلنگ میں نہیں، جو ہالینڈ کے بڈھا بابا ارجن روبنز میں ہے ، وہ وان پرسی میں نہیں، جو ہوان کرائف میں تھی وہ کہیں نہیں، جو زیدان میں تھی تھئیری ہنری میں نہیں، جو ڈیگوکوسٹا میں ہے وہ ہیری کین میں نہیں۔ گیم چینجر مڈ فیلڈر ایک سے بڑھ کر ایک ، لوئیس فیگو کی اپنی کلاس تھی، ایک کہکشاں سجی ہے ، کسے یاد رکھیں کسے بھول جائیں۔

بابی مور انگلینڈ کا بہترین اور ناقابل شکست ڈیفنڈر رہا ہے، اس کی اور پیلے کی اعصاب شکن کشمکش اور ٹکراؤ برازیل وانگلینڈ کے میچ کا سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔ غفور مجنا پاکستان فٹبال کا دیوار چین کہلاتا تھا، زبردست مڈ فیلڈر تھا، مگر بے نام مرگیا۔ کیا فٹ بالروں میں جی نئیس اسٹارزکی نسل کسی خاص خطے سے تعلق رکھتی ہے، ان کے طبقے اور پرورش و پرداخت کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں ، کیا پیلے اور میراڈونا کسی دولت مند باپ کے بیٹے تھے یا سفارشی پرچی پر برازیل اور ارجنٹائن کی ٹیم میں شامل ہوئے تھے۔

ہزاروں فٹبالر غربت کی کوکھ سے پیدا ہوئے، ان کے والدین خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرتے ہوئے بھی یہی خواب دیکھا کرتے کہ ان کے ہاں بھی ایک زلاتن ابراہیموف پیدا ہو۔ بڑے فٹ بالروں کی ریاضت و محنت ان کے کام آئی، مقامی کلبوں نے ہمت بندھائی، حکومتوں نے ان کی قدر افزائی کی، ہزاروں فٹبالر ہیں جو پریمیئر یورپی،اطالوی، اسپینی لیگز اور چیمپین شپ میں اپنے خوبصورت اور سنسنی خیزکھیل سے شائقین کے دل موہ لیتے ہیں، ان کے حیران کن انداز میں اسکورکیے ہوئے گول پر اسٹیڈیم کے تماشائی خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں، ان شائقین میں عمر کی کوئی قید نہیں، اسی طرح عظیم فٹبالر ، نرالے، انوکھے، ماہر اور منفرد کھلاڑیوں کی صف میں سر فہرست ہیں۔ یہی کھلاڑی عالمگیر دوستی کے اعزازی سفیر بن جاتے ہیں ، تمام کھیل  انسانی فاصلوں کو مٹا کر ابن آدم اور بنت حوا کوگلوبل ولیج کا  ویزا فری شہری بناتے ہیں۔ عظیم کھلاڑی ہر گھر میں رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں جو اجنبیت کی دیوار توڑ کر سب کو عالمی فرینڈ شپ کی لڑی میں پروتے ہیں۔

’’پیلے‘‘ Pele لیاری کا مکین تو نہیں تھا مگر کیا سبب ہے کہ دنیا کا ہر سیاہ فام پیلے کو ’’ آئی کون ‘‘ سمجھتا ہے۔ کھیل کی بساط پر نسل،ذات، رنگ، عقیدہ، زبان کے سارے حوالے ماند پڑ جاتے ہیں۔ اسٹیڈیم میں بیٹھے تماشائی سب ایک ہی دل نشیں شہریت لیے ہوتے ہیں ۔

کوئی پوچھتا ہے کہ صلاحیتوں کی پراسرار وحدت وکثرت کیا راز رکھتی ہے،کیا فطرت گریٹ فٹبالر پر مہربان ہوتی ہے؟ کیا مشیت ہمارے فٹبالروں سے ناراض ہے، یا ہم احساس کمتری میں مارے گئے۔ گریٹ فٹ بالروں کے بال کنٹرول کی بوقلمونی اور نکھارونفاست ، ان کی شاندار ڈربلنگ ، غیر معمولی کک ، شوٹنگ پاور اور جارحانہ اٹیک کی اٹھان کیسے ہوتی ہے، کیا دنیاکے لاتعداد فٹبالرکسی جادونگری سے آئے ہیں، ان کی ٹانگوں کو کسی فقیر کی دعا ہے، ان کی ساخت اسپیشل ہوتی ہے، کیا ان میں سٹیمنا، قوت فیصلہ اور سنس آف ٹائمنگ کسی سیاست دان اور عسکری جوان سے زیادہ پایا جاتا ہے۔

ایسے سیکڑوں سوالات دل میں خلش پیدا کرتے ہیں، پھر یہ لاوارثی اور بے بسی کہ پاکستان میں قومی فٹبال بے سروساماں اور فٹبالر ماضی میں برہنہ پا کھیلتے ہوئے کیوں فیفا کے عالمی کپ کے حتمی کوالیفائنگ راؤنڈ میں جگہ نہیں بنا سکی، قومی فٹبال میں کیا کمی رہ گئی ۔کیا ہمارے فٹبالر اس قابل نہیں تھے، یا ہمارے فٹبال فیڈریشن کے کرتا دھرتا مصلحت ، تنگ نظری، تعصب یا سیاسی و علاقائی ترجیحات کی دھند میں بھٹکتے رہے۔ یا یوں کہیے فٹ بال کے انتظامی معاملات بھی کرپشن اور جوڑ توڑ کی نذر ہوئے۔ ظاہر ہے دھند کی اپنی بادشاہی ہوتی ہے، حد نگاہ تک سمٹ جاتی ہے، لاکھ ٹیکنالوجی اور سائسنی پیش رفت کی بات ہو ، بنتی نہیں ہے ساغرومینا کہے بغیر ۔ دوستو، فٹبال پر دھند ہی چھائی رہی۔ حکرانوں نے کبھی فٹبال کی قومی ٹیم کے فیفا کے سفر میں گرد پس کارواں بننے کے دردناک منظرنامے کا نوٹس نہیں لیا، یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔

تاریک براعظم افریقہ کے نئے حکمرانوں اور منتظمین نے ماضی کے بھوکے اور پسماندہ عوام اور حکمرانوں کی چشم پوشی کے برعکس جدید دور کے کھیل کے تقاضوں کو مد نظر رکھا، اپنی نئی نسل کے سیکڑوں سفید و سیاہ فام بیروزگار فٹبالروں کی کھیپ در کھیپ تیار کی ، اسکول، کالج کی سطح پر ٹیلنٹ اسکیم شروع کی، ہیرے تلاش کیے ، ان کی تراش خراش کا نظام بنایا، غریب والدین کو تسلی دی کہ آپ کا بچہ پردیس میں نام پیدا کرے گا ۔ آج دیکھ لیجیے افریقہ کے نوجوان حتیٰ کہ نوعمر سیاہ فام فارورڈز اور ڈیفینڈرز دنیا کے مشہور و مقبول کلبوں کی نمائندگی کر رہے ہیں ، لاکھوں کروڑوں ڈالر اور یوروکماتے ہیں، ہم کچھ نہیں کرسکے ، ماسوائے سیاست ، امیچر ازم اور ایڈہاک ازم کے۔ فٹبال کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں۔ تاویلات ہزار سہی۔ حکمرانوں اور فٹبال فیڈریشن حکام میں فٹبال سے جذباتی وابستگی، پیشہ ورانہ کمٹمنٹ اور عوامی کھیل میں  وطن عزیزکو سر بلند رکھنے کی امنگ اور اولوالعزمی خاک بسر رہی۔ اسی پر اشکبار ہوں، اس کالم میں آیندہ بھی گفتگو  رہے گی۔

کوشش یہی ہے کہ ارباب اختیار دنیا کے سب سے مقبول ترین کھیل کی طرف بھی توجہ دیں، بھارت نے فٹبال کی نشاۃ ثانیہ کے لیے گرانڈ پلان بنالیا، وہاں فٹبال کا کریز پیدا ہوا ہے، وہ ایشین فٹبال پر اپنی حکمرانی کی سوچ رہا ہے۔ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، جس ملک کی کرکٹ ، ویمن کرکٹ ، اسکواش ، باکسنگ ، ہاکی ، اسنوکر ، سائیکلنگ، ٹینس، ریسلنگ، کبڈی، ٹیبل ٹینس ٹیمیں موجود ہیں، وہاں فٹ بالروں کی کسمپرسی اور کھیل کے انتظامی معاملات کی بہتری کی کوئی صورت نکل آئے تو کیا برا ہے ۔ پاکستان کی قومی ٹیم بھی فیفا ورلڈ کپ کی آخری فتح یاب ٹیموں میں جلوہ گر ہو جو نا ممکن یا انوکھا خیال اور دیوانے کا خواب تو نہیں۔ علی احسن نے قومی فٹبال کی  دلفریب کہانی ایک انگریزی معاصر اخبار میں لکھی جو چشم کشا ہے۔ باقی باتیں ہوتی رہیں گی۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔