یادوں کے گلاب

رفیع الزمان زبیری  جمعرات 10 جنوری 2019

اے حمید کہتے ہیں کہ ’’یادوں کے قافلے کبھی ایک ساتھ سفر نہیں کرتے۔ ان کی کوئی خاص سمت نہیں ہوتی،کوئی طے شدہ راستہ نہیں ہوتا، کوئی منزل نہیں ہوتی۔ کہیں سے کوئی پرانی خوشبو آتی ہے، کچھ روشن اور دھندلی شکلیں سامنے آجاتی ہیں۔ جس طرح پھول مرجھا جاتا ہے مگر اس کی خوشبوکبھی مرجھاتی نہیں۔ یہ یادیں بھی زندہ ہیں۔‘‘

’’یادوں کے گلاب‘‘ اے حمید کی ایسی ہی منتشر یادیں ہیں۔ یہ کتاب بیس سال پہلے شایع ہوئی تھی اور اب راشد اشرف نے اسے زندہ کتابوں کے سلسلے میں شایع کیا ہے۔

اے حمید لکھتے ہیں ’’شیزان ریسٹورنٹ کھلے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ اس کے ہال میں کانسی کے گل دانوں میں یوکلپٹس کی لمبی لمبی ٹہنیاں لہرایا کرتی تھیں۔ فضا بڑی پرسکون تھی۔ یہاں صرف وہی لوگ آتے تھے جو اچھے ماحول میں اچھی چائے پینا چاہتے تھے۔ سیاست، منافقت، دنیا داری، سرمایہ داری، ریاکاری سے ان کا دور کا واسطہ بھی نہ تھا۔ خاموشی، دھیمی دھیمی مہک والے ماحول میں کہیں کہیں دوچار خوش پوش وخوش ذوق گاہک بیٹھے چائے پی رہے ہوتے ۔ پیالیوں میں چائے انڈیلتے ہوئے ہی میزکے گرد فضا میں چائے کی خوشبو ، یوکلپٹس کی ٹہنیوں کی مہک اورکریون اے کے سگریٹ کے فلیور کی خوشبو بس جاتی۔ میں محبت کرنے والی لڑکیوں کو محبت بھرے خط عام طور پر یہیں بیٹھ کر لکھا کرتا تھا۔

فیروز سنز سے کریم کلرکا پیڈ خرید کر فارول کی خوشبو میں بساتا، اورنج پیکوکی گولڈن چائے کا ایک گھونٹ پیتا اور یوکلپٹس کی ٹہنیوں کے گلدان کے پاس بیٹھ کر ناریل اور انناس کی مہک میں ڈوبے محبت نامے لکھتا ۔ خط لکھ کر جب میں اسے پڑھتا تو مجھے ہر سطرکی شاخ پر پھول کھلتے نظر آتے۔ جزیروں، پہاڑوں، میدانوں، چشموں، سیلون کی اداس زرد لڑکیوں، گھنے درختوں میں اوس ٹپکاتے جنگلوں اور ایراوتی کی لہروں پرکشتی کھیلتے ماہی گیروں اور ناریل کے درختوں کو چوم کر گزر جانے والی ہواؤں کا پاگل تھا۔ خط لکھتے ہوئے میں بھول جاتا کہ میری مخاطب کوئی لڑکی ہے۔ مجھے یوں محسوس ہونے لگتا گویا میں یوکلپٹس کے کسی درخت، آلوچے کے پھول اور زرد گلاب کی کلی کو محبت بھرا خط لکھ رہا ہوں۔ پھر ہلکی ہلکی بارش شروع ہوجاتی اور فٹ پاتھ پر درختوں کے پتے دھل کر چمکنے لگتے ۔ گلدانوں میں یوکلپٹس کی ٹہنیاں بارش کی آواز پر ہمہ تن گوش ہوجاتیں اور میری طرف دیکھ کر پوچھتیں ۔کیا ہمیں بارش میں باہر نہیں لے جاؤگے؟‘‘

’’یادوں کے گلاب‘‘ میں ایک یاد 14 اگست 1947ء کے نہ بھلا دینے والے دن کی یاد ہے ، جب ایک ویران آتش زدہ اور فساد زدہ صبح کو اے حمید نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ امرتسرکو ہمیشہ کے لیے الوداع کہا اور ریلوے اسٹیشن پر لاہور جانے والی ہوڑا ایکسپریس میں سوار ہوگئے۔ وہ لکھتے ہیں ’’میں نے کبھی امرتسر ریلوے اسٹیشن کو اتنا پریشان نہ دیکھا تھا۔ اس ریلوے اسٹیشن کے پرسکون، پتھریلے اور دور تک جاتے ہوئے چپ چاپ پلیٹ فارموں میں کئی بار اترا تھا اور کئی بار گاڑی پر سوار ہوا تھا۔آج یہ پلیٹ فارم خون کا پیاسا نظر آرہا تھا۔ سکھ تلواریں اور کرپان لگائے دورکھڑے مسلمانوں کی بے بسی اور بربادی کا تماشا دیکھ رہے تھے، اگر امرتسر ریلوے اسٹیشن پر بلوچ رجمنٹ کے جوان مورچہ نہ سنبھالے ہوتے تو وہاں سے ایک بھی مسلمان، بچہ، بوڑھا اور جوان بچ کر لاہور نہیں جاسکتا تھا۔‘‘

اے حمید کی لاہور کی یادوں میں ایک یاد اس وقت کی ہے جب ’’سویرا ‘‘ کا دفتر میکلوڈ روڈ سے اٹھ کر موری دروازے کے سامنے کی بلڈنگ میں آگیا تھا ۔ لکھتے ہیں ’’اب ہماری ادیبوں، شاعروں کی منڈلی نے پیراڈائز ہوٹل کو الوداع کہا اور پاک ٹی ہاؤس کو آباد کیا۔ پاک ٹی ہاؤس کا دور ہماری ادبی زندگی کا طویل ترین دور ہے۔ اس ٹی ہاؤس میں ہم لوگوں نے دس بارہ سال بسر کیے۔ دن کے آٹھ نو بجے ہم لوگ یکے بعد دیگرے گھروں سے نکل کر ٹی ہاؤس آجاتے اور رات کے بارہ ایک بجے تک یہیں بیٹھے رہتے۔ خدا جانے وہ کیسا زمانہ تھا۔ اچھا کھاتے، اچھا پہنتے اور سوائے افسانے، غزلیں، نظمیں لکھنے کے اور کوئی کام نہ کرتے۔ کبھی ہاتھ تنگ ہوتا تو فوراً کسی نہ کسی پبلشر سے ایڈوانس لے آتے۔‘‘ یہ ’’ہم لوگ‘‘ کون تھے؟ انور جلال، ظہیر کاشمیری، حمید اختر، عبداللہ ملک، ناصر کاظمی، صفدر میر، حسن طارق، ابن انشا، قیوم نظر، شہرت بخاری، انتظار حسین، اختر عکسی۔

دوسری جنگ عظیم کے اس دور میں جب ابھی جاپان اس میں شریک نہیں ہوا تھا، اے حمید رنگون ریڈیو سے برٹش فوجی کمانڈ کے تحت نشر ہونے والی اردو سروس میں شام کو پانچ منٹ پنجابی میں خبریں سناتے تھے۔

ایک وقت دہلی میں تیس ہزاری باغ میں ملک کے چوٹی کے افسانہ نگاروں کی ایک ٹولی رہائش پذیر تھی۔ یہ آل انڈیا ریڈیو سے منسلک تھے۔ اے حمید اپنی بہن کے پاس گئے تھے۔ لکھتے ہیں ’’میں ان لوگوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا، اس لیے کہ میری عمر بمشکل سترہ اٹھارہ برس تھی۔ میں نے رسالوں میں ان لوگوں کے نام اور تصویریں ضرور دیکھی تھیں۔ حقیقت یہ تھی کہ میں ان دنوں اپنی پہلی محبت میں سر سے پاؤں تک سرشار تھا۔ مجھے سوائے اپنی محبوبہ کے کسی اورکا خیال نہ آتا۔ ہر لمحے ذہن پر اسی کی حسین صورت چھائی تھی اور میں دیو داس بنا دلی کی سڑکوں پر اپنی ناکام محبت کے غم میں آوارہ پھرا کرتا تھا۔ کرشن چندر ہمارے ساتھ والے کوارٹر میں رہتا تھا اور حیرت کی بات ہے کہ میں نے تیس ہزاری میں اسے کبھی نہیں دیکھا۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آنے والی زندگی میں، میں نے سب سے زیادہ محبت اسی افسانہ نگار سے کرنی ہے تو میں شہر پر سورج طلوع ہونے سے پہلے کرشن چندر کے کوارٹر کے سامنے جا کھڑا ہوتا اور اسے گھر سے نکلتے دیکھا کرتا۔‘‘

’’یادوں کے گلاب‘‘ میں ایک یاد راجدہ کی ہے۔ اے حمید لکھتے ہیں ’’راجدہ ہماری برادری کی ایک چپ چاپ سی لڑکی تھی جس کے پیار میں، میں سر سے پاؤں تک شرابور تھا ۔ وہ عجیب لڑکی تھی۔ بہت خاموش۔ بے حد ضرورت کے وقت مختصر ترین بات کرنے والی، علم سے ناآشنا لیکن اپنے عمل سے علم و ادب سکھانے والی۔ وہ افسانے نہیں پڑھتی تھی مگر اس نے مجھے ’’منزل منزل‘‘ ایسا خوبصورت افسانہ دیا۔‘‘

اے حمید نے دھن پورہ ہی میں اپنا پہلا افسانہ منزل منزل لکھا جو راجدہ کے بارے میں تھا۔ راجدہ نے ایک بار اے حمید سے کہا تھا، میرے بارے میں کچھ نہ لکھنا، میں بدنام ہوجاؤں گی۔ پھر راجدہ کی شادی ہوگئی اور اے حمید لاہور چھوڑکر چلے گئے۔

اے حمید لکھتے ہیں ’’آج بھی اس وقت جب کہ میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں مجھے راجدہ کی محبت اور محبت کے ان حسین ترین دنوں کے مقابلے میں اپنے سارے افسانے، سارے ناول، ساری کتابیں ہیچ نظر آتی ہیں۔ کتابیں بے جان ہیں، خوشبو نہیں دیتیں لیکن وہ پرانی محبت، وہ محبت میں گزرے ہوئے خوبصورت دن آج بھی گلاب کے ترو تازہ پھولوں کی طرح شگفتہ ہیں۔ خدا کا شکر ہے میں کتابوں میں نہیں بلکہ اپنی محبتوں کی یاد میں زندہ ہوں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔