’دی اینڈ‘ کیوں نہیں؟

راضیہ سید  جمعرات 10 جنوری 2019
ہر نیا دن، پرانے دن کا دی اینڈ ہے؛ مصیبتوں سے گبھرائیے نہیں بلکہ ان پر ’فل اسٹاپ‘ لگاتے ہوئے آگے بڑھتے رہیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہر نیا دن، پرانے دن کا دی اینڈ ہے؛ مصیبتوں سے گبھرائیے نہیں بلکہ ان پر ’فل اسٹاپ‘ لگاتے ہوئے آگے بڑھتے رہیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سچ پوچھیے تو اس دنیا کی حقیقت ہی دی اینڈ ہے۔ ایک خاتمہ، ایک سکون اور ایک تبدیلی۔ خوشی کے وقت کا تیزی سے گزر جانا اور اداسی کے لمحات کا طویل ہو جانا ہی ہماری اپنی ذہنی اختراع ہوتی ہے۔ ہم کوئی بھی رشتہ بناتے ہیں یا کسی بھی چیز سے خود کو وابستہ کرلیتے ہیں تو بس اسی کے ہوکر رہنے لگتے ہیں حالانکہ حضرت انسان تو ایسا ہے کہ نہ صرف وہ بدلتا ہے بلکہ اس سے منسلک حالات و واقعات بھی تبدیلی کو جنم دینے لگتے ہیں۔

مان لیا کہ دنیا میں سب کچھ آپ کی مرضی سے نہیں ہوسکتا، البتہ ہر وقت کی منفی سوچوں سے آپ اپنے مقصد سے پیچھے ضرور ہٹنے لگتے ہیں اور زندگی کی ان مشکلات سے بھی نبرد آزما نہیں ہوسکتے جن سے نمٹنا آپ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوسکتا تھا۔

نوجوان نسل ہی کو دیکھ لیجیے۔ میڈیا کی اندھا دھند تقلید، والدین کی عدم توجہی اور جنسی و نفسیاتی مسائل پر کھل کر بات نہ کرنے کی وجہ سے دن رات ان کے رشتے ٹوٹتے اور بنتے رہتے ہیں… بریک اپس پر بریک اپس، ہمارے ان نوجوانوں کی رہی سہی عقل کو بھی ختم کرنے میں ایک پل نہیں لگاتے۔

والدین ہیں تو وہ ایک دوسرے کی سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ آفس میں باس اپنے ماتحتوں سے الجھتا نظر آتا ہے تو دوسری جانب ماتحت پیٹھ پیچھے اپنے باس کو مغلظات بک رہے ہوتے ہیں۔ مایوسی کا یہ سارا چکر اس لیے چلتا رہتا ہے کیونکہ ہم ہر چیز کو مستقل سمجھتے رہتے ہیں؛ جبکہ یہ تمام کی تمام چیزیں، افراد حتی کہ ہم خود بھی فانی ہیں۔ اب اس سب تمہید کو یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ جناب اس زندگی کا تو کوئی فائدہ ہی نہیں، ہمیں تو موت کےلیے ہی تیار رہنا چاہیے۔ ایسا ہر گز نہیں، کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو تہذیب کے ارتقاء کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی؟ پھر تو انسان وہیں غاروں میں رہتا اور اشاروں کی زبان سے ہی اپنا مطمع نظر بیان کرتا رہتا۔

یہ فطرت اور اس کے نظارے، اسکے جلوے، سبھی رنگین ہیں۔ بے شک عارضی ہیں لیکن خود میں ایک دلفریبی سموئے ہوئے ہیں، حال میں جینا ہی تو زندگی ہے، تاکہ ماضی کے دھندلکوں اور مستقبل کے خدشات سے چھٹکارا پایا جاسکے۔

کہتے ہیں ایک بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ اپنی عقل مند بیٹی سے پوچھنا کہ دنیا میں سب لوگ ایک سے کیوں نہیں؟ اس بات کا جواب دینے کےلیے وزیر کی بیٹی نے اپنے گھر پر بادشاہ سلامت کو مدعو کیا۔ جب وہ وہاں دعوت کےلیے پہنچا تو پورے گھر میں ایک ہی رنگ کے پردے، ایک ہی رنگ کے برتن اور دیگر اشیاء تھیں۔ بادشاہ کا دل دعوت سے بہت جلد اوب گیا اور اس نے وزیر کی بیٹی سے جب اس بات کی شکایت کی تو وہ بولی کہ ایک رنگ سے کتنی بے چینی ہوتی ہے اسی طرح دنیا میں تمام انسانوں کے ایک جیسا ہونے یا ایک جیسا سوچنے سے کتنی بوریت اور یکسانیت لگتی ہے۔ انسانوں اور چیزوں میں تنوع ہی اسی کائنات کی خوب صورتی ہے۔

اگر غور کریں تو کامیاب اور ناکام افراد کی زندگیوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا، سوچتے دونوں ایک طرح ہیں۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ کامیاب افراد اپنی مثبت سوچوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور ان کی ’’دی اینڈ‘‘ پر زیادہ واضح نظر ہوتی ہے۔ دنیا میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ موت سے یا کسی اور رشتے کے خاتمے سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مردہ شخص اور مردہ رشتے کو دفن کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے ورنہ ان میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے۔ مرنے والوں کو قبرستان میں دفنایا جاتا ہے، ان کے ساتھ خود دفن نہیں ہوا جاتا۔

یاد رکھیے کہ ہر دن ایک نیا دن ہے، ہر نیا دن پرانے دن کا دی اینڈ ہے، مصیبتوں سے گبھرائیے نہیں بلکہ ان پر ’’فل اسٹاپ‘‘ لگاتے ہوئے آگے بڑھتے رہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔