بچوں کے ’’کچے روزے‘‘ بھی ضروری ہیں

رضوان طاہر مبین  اتوار 14 جولائی 2013
بچپن سے روزوں میں شرکت کا احساس مثبت کردار ادا کرتا ہے۔ فوٹو: فائل

بچپن سے روزوں میں شرکت کا احساس مثبت کردار ادا کرتا ہے۔ فوٹو: فائل

روزہ ایک ایسی عبادت ہے، جس کی داغ بیل بچپن میں ہی ڈالی جانا انتہائی ضروری ہے۔

اس ضمن میں والدین کا کردار اہم ہے۔ بڑوں کو صبح سحری اور شام کو افطار کرتا دیکھ کر کم سن بچوں میں بھی یہ اُمنگ جاگتی ہے اور یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ بھی بڑوں کی طرح روزہ رکھیں، لیکن والدین بعض اوقات ان کی اس خواہش کو سرے سے پنپنے ہی نہیں دیتے اور روزوں کی طوالت، گرمی اور ان کی کم عمری کو جواز بنا کر ان کے عام دنوں کے ہی معمولات کو جاری رکھتے ہیں اور انہیں سحری اور افطاری میں شریک نہیں کرتے۔ نتیجتاً بعض بچے بڑے ہو کر بھی روزہ نہیں رکھ پاتے، یا روزے شروع کرنے میں مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔

اس ماہ صیام میں اتفاق سے بچوں کی موسم گرما کی تعطیلات بھی ہیں۔ اس لیے بچوں کو اس جسمانی عبادت سے جوڑنے کے لیے والدین کے پاس یہ ایک سنہری موقع ہے۔ بہت سے والدین کی جانب سے اس موقع سے فایدہ اٹھاتے ہوئے بچوں کے پہلے روزے کا اہتمام بھی کیا جائے گا، لیکن جو بچے ابھی ذرا چھوٹے ہیں اور ابھی اس عبادت کے متحمل نہیں  ہیں، انہیں بھی رمضان المبارک کے حوالے سے خصوصیت کا احساس دلانا ضروری ہے کہ انہیں بھی معلوم چلے کہ وہ بھی اس ماہ مبارک کو منا رہے ہیں۔

پہلے کی مائیں چھوٹے بچوں کا دل رکھنے کے لیے انہیں ’’ایک داڑھ کا روزہ‘‘ رکھواتی تھیں۔ جس میں وہ سحری کے بعد اپنے تئیں ایک داڑھ سے کھاتے پیتے بھی رہتے اور پھر پورے اہتمام سے بڑوں کے ساتھ شام ڈھلے افطار کا انتظار کرتے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ انہیں روزوں میں اپنی شرکت کا بھی احساس ہو اور ساتھ ہی آہستہ آہستہ اس کی مشق بھی ہو جائے۔ اس طرح کے روزے کے ذریعے اگرچہ وہ کھانا پینا جاری رکھتے، مگر انہیں یہ احساس بھی ہوتا کہ ان کا روزہ ہے، اس لیے انہیں یہ برا کام نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ روزہ ان نا پسندیدہ کاموں سے روکتا ہے۔ بعض مائیں بچوں کو آدھے دن کا روزہ رکھوا کر انہیں روزے کی عادت سے آشنا کرانے کی کوشش کرتیں۔ کہیں ان کے لیے دن چڑھے ’’سحری‘‘ کا اہتمام کر کے ان کا حوصلہ بڑھایا جاتا کہ بچے اس وقت تک سحری کر سکتے ہیں اور ان کے ’’روزے‘‘ کے دوران پانی دودھ اور دیگر مشروبات بھی پیے جا سکتے ہیں۔

اس طرح کی باتوں سے بچوں میں اوائل عمری سے ہی روزہ رکھنے کی تگ ودو ہوتی ہے اور جوں جوں سمجھ آتی جاتی ہے، توں توں وہ حقیقی روزے سے قریب آنے لگتے ہیں اور پھر جلد ہی روزے رکھنے شروع کر دیتے ہیں۔ آج کل کی مائیں روزہ نہ رکھنے والے بچوں کی طرف سے غفلت کا شکار نظر آتی ہیں اور ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ رمضان کے دنوں میں چھوٹے بچوں کے اس طرح کے جھمیلے میں نہ پڑیں اور انہیں عام دنوں کی طرح دن گزارنے دیں۔ اس لیے وہ اکثر بچوں کی روزہ رکھنے کی خواہش کو بھی خاطر خواہ اہمیت نہیں دیتیں، جس سے انہیں روزوں کی طرف مائل کرنے میں مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔ اس لیے کوشش کی جائے کہ اگر  چھوٹے بچے روزے کی خواہش نہ بھی رکھتے ہوں، تب بھی انہیں اس طریقے سے حقیقی روزوں کی راہ دکھائی جائے اور شوق دلایا جائے۔

دوسری طرف وہ بچے ہوتے ہیں، جو اپنا پہلا روزہ رکھ رہے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے عبادات کے ضمن میں یہ ان کی زندگی کا ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ اس موقع پر بڑوں کو چاہیے کہ وہ ایسے بچوں کی حوصلہ افزائی اور ان کو سراہنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں۔ بہت سے گھرانوں میں اس دن روزہ کشائی کی ایک بھر پور تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس تقریب میں بہت سے عزیز واقارب بچے کے ساتھ روزہ افطار کرتے ہیں۔ جس کا مقصد روزہ رکھنے والے بچے کی حوصلہ افزائی ہوتا ہے۔ ساتھ ہی تقریب  کے ذریعے دیگر بچوں میں بھی یہ تحریک ہوتی ہے کہ وہ بھی جلد سے جلد روزے رکھنا شروع کریں۔ بچوں کے پہلے روزے کے موقع پر والدین اور گھر کے دیگر بزرگوں کی طرف سے ان کی ہمت بندھانا اور تحائف کا ہونا بہت ضروری ہے، تاکہ روزے کا پہلا تجربہ بہتر ہو اور اسے احساس ہو کہ جیسے امتحان اور تعلیمی مدارج میں آگے بڑھنا کام یابی ہے، بالکل ایسے ہی یہ دن بھی ان کی زندگی میں کسی بھی کام یابی سے کم نہیں ہے۔

اس کے لیے ان کی پسند کی چیزیں اور کھلونے لا کر دینا خاصا اہمیت رکھتا ہے۔  اس کے علاوہ افطار کے موقع پر ان کی پسند کو مد نظر رکھتے ہوئے خصوصی پکوان کی تیاری بھی ان کے روزے کو اچھا بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس طرح کی حوصلہ افزائی کے ساتھ  پہلا روزہ رکھنے والے بچوں کو  روزے کی حقیقی روح سے آشنا کرانا بھی ضروری ہے، کہ کس طرح اسے اپنی خواہشات اور حاجات کو اپنے رب کی خاطر روکے رکھنا ہے اور بھوک وپیاس سہہ کر اس کیفیت میں موجود دوسرے لوگوں کی تکلیف کا احساس کرنا ہے۔ بالخصوص دوسرے انسانوں کے حقوق کو بھی روزے کی عبادت سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ روزے کے موقع پر انہیں بتایا جائے کہ اگر روزے کی شرائط کو پورا نہ کیا جائے تو پھر صبح سے شام تک بھوکے، پیاسے رہنے کا کوئی فایدہ باقی نہیں رہ جاتا۔

رمضان المبارک میں بچے شعور کی کسی بھی منزل پر ہوں، انہیں اس ماہ سے الگ تھلگ رکھنا بالکل مناسب نہیں۔ انہیں اپنے ساتھ سحری اور افطاری میں بھر پور اہتمام سے شامل کریں۔ اس وقت اسکولوں کی چھٹیاں ہیں، تو انہیں افطار کے ساتھ سحری میں بھی بہ آسانی شریک کیا جا سکتا ہے۔ بچپن سے ہی سحر و افطار میں بڑوں کے  ساتھ شرکت انہیں اس ماہ مبارک سے منسلک کرنے میں سب سے زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے انہیں اس موقع پر دور نہ کریں، بلکہ انہیں یہ احساس دلائیں کہ وہ بھی بڑوں کے ساتھ اس ماہ مبارک کو منا رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔