کیا انسان کسی اور سیارے کی مخلوق ہے؟

سعد اللہ جان برق  جمعـء 11 جنوری 2019
barq@email.com

[email protected]

ایک انٹرنیٹ راوی نے بتایا کہ کسی شخص نے جو یقیناً امریکا یا یورپ کا باشندہ ہوگا ایک کتاب لکھی ہے جس میں اس نے انکشاف کیاہے کہ ’’انسان‘‘ اس کرہ ارض کا اپنا باشندہ نہیں ہے بلکہ کسی نامعلوم زمانے میں کسی اور سیارے سے یہاں آیا ہوا ہے اور یہ باقی جو مخلوقات ہیں وہ اس زمین کے اپنے بیٹے ہیں۔

آپ خود سوچیے اتنی بڑی’’تحقیق‘‘ ہو اور اس میں ہم اپنی تحقیق کا ٹٹو نہ دوڑائیں یہ کیسے ممکن ہے؟

اس سے پہلے بھی ہم نے کسی ڈائجسٹ میں ایک افسانہ پڑھا تھا جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ مصر کے اہرام اس زمین کے باسیوں نے نہیں بنائے ہیں بلکہ بیس ہزار سال پہلے کسی خلائی مخلوق کا کوئی جہاز یا طشتری یا ڈونگا کسی تیکنکی خرابی کی وجہ سے زمین پر اترا تھا اور یہ اہرام اسی مخلوق نے بنائے تھے۔اس کی تائید ایک اور افسانے سے بھی لی گئی تھی کہ ایک شخص نے کسی ویران جنگل میں کسی بڑے جہاز یا راکٹ جیسی شکل کا ایک ڈھانچہ دیکھا جو زنگ کی وجہ سے تقریباً مٹی ہورہاتھا۔

اس نے یہ بات ایک محقق سے شئیر کی غالباً وہ محقق بھی ہماری طرح ان اداروں کا ڈگری ہولڈر تھا جن سے ہم نے علم تحقیق میں کسب فیض کیاہے۔ چنانچہ اس نے اپنے ٹٹوئے تحقیق پر بیٹھ کر وہاں تحقیق کی تو ڈھانچے کے آس پاس اس نے چھوٹی چھوٹی عجیب الخلقت سی مخلوق دیکھی جو یہاں وہاں چھپ گئیں۔جب تحقیق سے اس محقق نے قرار دیا کہ وہ زنگ خوردہ ڈھانچہ کسی خلائی مخلوق کا تھا تو دوسرے آدمی نے کہا کہ ہو نہ ہو یہ جو بڑی بڑی جووں جیسی مخلوق ہم نے دیکھی یہ ہی وہ خلائی ہوں گی لیکن محقق نے تحقیقاتی دلائل سے اسے قائل کیا کہ وہ مخلوق ہی اس زمین کی اصلی مخلوق تھی اور اس زنگ خوردہ سواری سے جو مخلوق اتری تھی وہ ہم یعنی انسان ہیں۔

ظاہر ہے کہ اب ہمیں بھی اس تحقیقی پراجیکٹ پر اپنے ٹٹوئے تحقیق کو ڈالنا پڑے گا بلکہ یوں سمجھیے کہ ڈال دیا ہے۔

چونکہ ہمارے پاس نہ کہیں آنے جانے کے وسائل ہیں اور نہ ہی ضروری آلات ہیں، لے دے کر یہی ایک ٹٹوئے تحقیق اور ہماری بصیرت وبصارت یعنی آ ئی کیو اور آئی سائٹ ہے، اس لیے صرف اسی سے کام چلانا پڑے گا اور آپ یقین کریں کہ پہلے ہی مرحلے میں ہمیں ایسے شواہد مل گئے جسے دلائل کی کسوٹی پر پرکھا تو یہ بات اگرچہ بڑی رسوائی کی ہے لیکن بالکل سچ ہے کہ انسان کسی بھی لحاظ سے اس زمین عرف کرہ ارض کا اوریجنل باشندہ نہیں ثابت ہوتا۔

سیدھی سی بات ہے کہ فرق معلوم کرنے کا سب سے آسان اور یقینی طریقہ یہ ہے کہ ہم انسان اوردوسری مخلوقات کا موازنہ کریں اور موازنہ کرنے سے یہ ثابت ہوجاتاہے کہ انسان میں کوئی بھی ’’خوُبوُ‘‘ اس زمین کے دوسرے یعنی اصلی باشندوں کی سی نہیں ہے۔سب سے پہلی دلیل یا شہادت تو یہ ہے کہ انسان اس کرہ ارض اور ان کے اصلی بیٹوں کے ساتھ جو سلوک کررہاہے ایسا صرف شدید دشمن سے کیاجاسکتاہے۔ ڈارون اور لیمارک وغیرہ نے کھینچ تان کربڑی کوشش کی ہے کہ انسان کا رشتہ زمین کی دوسری مخلوقات سے جوڑدیں لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ بلکہ ہمارا پکا پکا یقین ہے کہ انسان کے علاوہ اگر کسی بھی اور مخلوق کو زبان مل گئی تو سب سے پہلے تو وہ اس قسم کے لوگوں پر لعنت ملامت بھجیں گے جو ان معصوموں کا رشتہ زبردستی اس خونریز وخونخوار اور تباہ کن مخلوق سے جوڑتے ہیں۔ کہ آخر ہم نے کب کوئی اتنا گرا ہوا کام کیاہے جس کی بنیاد پر ہمیں اس کا رشتہ دار بتایاجارہاہے۔ بلکہ یک طرفہ اور جانب داری اور زبان درازی سے بتایاگیاہے۔

ہم میں سے کسی خون ریز سے خون ریز درندے کو بھی لے لیجیے بیچارا صرف بھوک لگنے پر مجبوراً دوسرے کو کھالیتاہے اور شکم سیرہوکر آرام سے سوجاتاہے لیکن یہ اپنے منہ میاں مٹھو جتنا بھرتا جاتاہے اتنا ہی خونخوار ہوتاجاتاہے۔ صرف جنگوں ہی میں نہیں بلکہ سیاست میں، تجارت میں، یہاں تک کہ مذہب میں کشتوں کے پشتے لگادیتاہے۔

سب سے بڑی فرد جرم تو اس کے خلاف یہ ہوگی کہ جو مخلوق اپنی مادہ کو بھی نہ صرف مارتا پیٹتاہے بلکہ اس کی مرضی کے بغیر زبردستی اس کے ساتھ کیاکیا کرتاہے سارے انسان مل کر اپنے تمام تقریری وتحریری ہتھیارلے کر اور قدیم زمانوں سے لے کر آج تک کوئی بھی مثال ایسی پیش کرے کہ کسی جانور نے اپنی مادہ کو مارا ہو یا اسے زبردستی اپنی ہوس کا نشانہ بنایا ہو یا جس کا دودھ پیتاہو اسے کاٹ کھایا ہو یا اسے بیچا ہوخریدا ہو۔ ایسی اور بھی بہت سے فردجرم ہیں کہ اگر کسی بھی غیرانسانی مخلوق کو زبان مل گئی تو۔۔۔۔۔۔۔شاید یہ فہرست جرائم اتنی لمبی ہوجائے کہ اس کرہ ارض سے کم ازکم دس بارلپیٹی جاسکتی ہوگی۔

لیکن ہم محقق ہونے کے باوجود بھی۔۔۔کیا کیاجائے پیدا ہونا کسی کے بس میں نہیں ہوتا ورنہ اور پھر ورنہ۔۔ مطلب یہ کہ یہاں پر سخن فہمی چھوڑ کر’’طرف داری‘‘ توکرنا پڑے گی۔اس لیے ہم صرف تحقیق تک خود کو محدود رکھیں گے۔

انسان کے بیرونی بلکہ آوٹ سائیڈ بلکہ پرایا ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ کسان لوگ اکثرکہاکرتے ہیں کہ یہ جوگھاس ہے یہ زمین کی اپنی اولاد ہوتی ہے اور جوفصل اس میں بوئی جاتی ہے وہ سوتیلی ہوتی ہے اس لیے گھاس پھوس بغیرکسی کھاد گوڈی اور محنت کے خوب پھلتی پھولتی ہے اور فصل یعنی سوتیلی اولاد کو بڑی مشکل سے بہت ساری کھادیں گوڈیاں دوائیاں اور آبپاشیاں کرکے اگانا پالنا اور حاصل کرنا ہوتاہے۔

اب اسی سگے سوتیلے کے فرق کو ذہن میں رکھ کر انسان کا سلوک زمین اور اس کی سگی اولادوں کے ساتھ دیکھا جائے تو بھی فرق واضح ہوجاتاہے۔ سب سے پہلے تو ماں یعنی زمین کو دیکھیے کہ انسان اس کے ساتھ کیاکیاکرچکاہے اور کررہاہے؟

زمین کے سینے میں اس نے کیاکیا خنجرنہیں گھونپے ہیں اور اس کے چہرے پر کیاکیا زخم نہیں لگائے ہیں ۔

آپ نے کبھی غور کیاہے جہاں جہاں زمین پر انسان نہیں پہنچاہوتاہے وہاں سب کچھ صاف وشفاف ہوتاہے۔ زمین کی اولادیں بڑے آرام سے رہتی ہیں۔ شجروحجر، پھول گھاس اور خوبصورت مناظر ہرطرف بکھرے ہوتے ہیں لیکن جہاں یہ سوتیلی اولاد پہنچتی ہے سب تلپٹ ہوجاتاہے، درخت کٹ جاتے ہیں، گھاس جل جاتی ہے، ذی روح بھاگ جاتے ہیں، گندہ پانی بکھرجاتاہے، راستوں میں کیچڑ گند اور بدبوُدار بھبکے پھیل جاتے ہیں، کوڑے کے ڈھیر، گندے نالے الم غلم۔اور نہ جانے کیاکیا یہاں تک کہ شفاف چشمے اور دریا بھی غلاظت سے بھرجاتے ہیں۔

پہلے زمانوں میں بزرگوں سے سنتے تھے کہ اگر انسان یہ ساری ایجادات وفضولیات چھوڑ کر صرف دو کام کرے جو کھاتاہے وہ خود کمائے اور جو گند پھیلاتاہے اسے صاف کرے تو دنیا جنت بن جائے گی۔لیکن یہ کمانے کے بجائے چھیننا زیادہ پسند کرتاہے اور صفائی کے بجائے غلاظت پھیلانا اس کا محبوب مشغلہ ہے اور یہ مشغلہ اس نے اتنے عروج پر پہنچایا ہے کہ’’اوزون‘‘ بھی مارے شرمندگی کے پھٹ گیا۔

ان تمام دلائل اور وہ جو ہم نے شرم کے مارے بیان نہیں کیے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ بات محقق ہوجاتی ہے کہ انسان اس کرہ زمین کا اصلی باشندہ نہیں ۔ زمین اور اس کی اولادوں سے اس کا سلوک بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ بیرونی فاتح کا مفتوحہ سرزمین اور اس کے باشندوں سے ہوتاہے کیونکہ وہ زمین اس کی ماں نہیں ہوتی اور اس کے باشندے اس کے سگے نہیں ہوتے صرف ’’مال غنیمت‘‘ کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔ بس اس سے زیادہ ہم اور کچھ نہیں کہیں گے کیونکہ بہرحال اگرچہ یہ کسی کا ’’سگا‘‘ نہیں ہے لیکن ہمارا تو ہے خیال رہے کہ’’سگا‘‘ کا الف کمپوزنگ میں گر نہ جائے اس کی طرح۔۔۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔