ایک ملک کی تین تصویریں

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 11 جنوری 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

یہ تصور ہی رُوح فرسا ہے کہ انصاف کا ترازو تھامنے والی کوئی شخصیت اپنی سگی اولاد پر اتنا بھی ظلم ڈھا سکتی ہے؟ غصے میںاپنی اولاد کو پابندِ سلاسل بھی کیا جا سکتا ہے؟ بھارت ، جسے ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ ہونے کا ’’فخر‘‘ ہے، میں یہ المناک واقعہ پیش آیا ہے۔

خبر آئی ہے کہ بھارتی راجدھانی کے ایک جج صاحب نے گزشتہ کئی ماہ سے اپنی بیٹی کو اپنے ہی گھر میں زنجیروں سے باندھ کر قید کر رکھا تھا۔ بیٹی کا ’’جرم‘‘ یہ تھا کہ وہ یونیورسٹی میں اپنے ایک کلاس فیلو سے محبت کرتی تھی ۔لڑکا ذہین بھی ہے، شاندار شخصیت کا مالک بھی اور یونیورسٹی کا بہترین طالبعلم بھی۔ ’’گناہ‘‘ اُس کا یہ ہے کہ وہ ذات پات کے اعتبار سے لڑکی سے کمتر ہے لیکن بھارت ایسے ذات پات زدہ ملک میں یونیورسٹی کی یہ روشن خیال لڑکی اِس سماجی امتیاز کو خاطر میں نہ لاتے ہُوئے لڑکے کو پسند بھی کرتی ہے اور شادی کرنے کی متمنی بھی ۔ جج کی کرسی پر بیٹھے والد صاحب اس سے ناراض تھے ۔ناراضی میں انھوں نے اپنی بیٹی کو گھر ہی میں پابندِ سلاسل کررکھا تھا۔

خبر کسی طرح میڈیا میں آئی تو سینئر جج صاحب نے متعلقہ جج، اُن کی مقید بیٹی اور لڑکی کے کلاس فیلو کو عدالت بلا لیا۔ سوال جواب اور مقدمے کی سماعت کے بعد جج صاحب نے لڑکی کورہا کرتے ہُوئے لڑکے سے شادی کی اجازت بھی دے دی اور بیٹی کے جج والد صاحب کی سرزنش بھی کی۔ فیصلہ سناتے ہُوئے سینئر جج صاحب نے ایک اچھا حکم یہ بھی سنایا کہ نہ تو بیٹی کا نام میڈیا میں آئے اور نہ ہی بیٹی کے جج والد کا نام شایع کیا جائے۔دونوں فیصلوں کی تحسین کی گئی ہے۔

بچیوں اور خواتین سے گھناؤنے سلوک اور ظلم کی کہانیاں ہمارے ملک میں بھی آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں لیکن بھارت میں خواتین سے بہیمانہ سلوک کے المناک واقعات نے تو قیامت ڈھا دی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بھارت میں خواتین، بچیوں ، غیر ملکی ٹورسٹ عورتوں اور طالبات کے خلاف جن ہزاروں خونی واقعات نے جنم لیا ہے،ایک برطانوی ادارے نے اِن سب کی بنیاد پر India,s  Daughterکے عنوان سے ایک فلم بنا ڈالی ہے۔ اِس کی بنیاد اگرچہ دہلی میں میڈیکل کی ایک طالبہ سے بہیمانہ ریپ کے سانحہ پر رکھی گئی ہے لیکن فلم میں پورے بھارت میں خواتین سے کی گئی زیادتیوں اور مظالم کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ فلم دیکھی جائے تو بھارت کا اصل چہرہ کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔

بھارت نے اِس فلم کے خلاف سخت احتجاج تو کیا ہے لیکن وہ اِس ڈاکیومنٹری فلم کے مندرجار ت سے انکار نہیں کر سکا ہے۔حالیہ ایام میں بھارت کے دو بڑے ہی مشہور مذہبی رہنماؤں اور پیشواؤں (گرمیت رام سنگھ اور باپو آسا رام)کو عدالتوں کی طرف سے جو لمبی لمبی اور سنگین سزائیں سنائی گئی ہیں،اِن سے بھی عیاں ہوتا ہے کہ انڈین سوسائٹی ذلّت اور زوال کے کس مقام پر پہنچ چکی ہے۔یہ دونوں ہندو مذہبی پیشوا گزشتہ کئی برسوں سے کئی خواتین کی عزت وحرمت مسلسل پامال کرتے آرہے تھے۔ ہاتھ اُن پر کوئی اسلیے نہیں ڈال رہا تھا کہ بڑے بڑے سیاستدانوں، حکمرانوںاور پولیس افسروں سے اُن کے گہرے یارانے تھے۔ وہ انھیں مال پانی بھی فراہم کرتے تھے۔

یوں اُن کے منہ اور قانون کے ہاتھ بندھے تھے ۔ مجرم وحشی بن کر دندناتے پھرتے تھے۔ مگر کہتے ہیں ناں کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منا سکتی ہے؟؛ چنانچہ باری باری، دونوں دَھر لیے گئے۔ اُن کے ماننے والوں اور پیروکاروں نے اپنے گروؤں کی گرفتاریوں پر بڑا فِیل مچایا۔ بہت احتجاج کیا۔ توڑ پھوڑ بھی کی ۔ کئی قتل بھی ہو گئے ۔ دباؤ کے باوجود مگر دونوں مذہبی پیشواؤں کی ہتھکڑیاں نہ کھل سکیں۔مقدمے چلے اور اب دونوں برسہا برس کے لیے پسِ دیوارِ زنداں پہنچائے جا چکے ہیں۔ یہ دونوں سانحات بھی عیاں کرتے ہیں کہ بھارتی اصل چہرہ کیا ہے؟ گرمیت رام سنگھ اور باپو آسا رام تو صرفTip  of  an  iceberg ہیں لیکن ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پسِ پردہ بھارت میں کتنے گرمیت رام سنگھ اور باپو آسا رام ہوں گے؟ اور وہ کس وحشت اور خشونت سے صنفِ نازک کو پامال کررہے ہوں گے؟

اِسی بنیاد پر عالمی شہرت یافتہ ایک مغربی ادارے Thomson  Reuters  Foundation نے ایک مفصل تازہ رپورٹ شایع کی ہے جس میں انکشاف کیا  گیا ہے کہ بھارت خواتین کے لیے دنیا کا سب سے خطرناک اور مہلک ملک بن چکا ہے۔ یہ رپورٹ دنیا کے 548 ایسے ماہرین نے تحقیقات اور محتاط سرویز کے بعد جاری کی ہے۔ رپورٹ نے یہ دل دہلا دینے والی حقائق بتائے ہیں کہ بھارت رواں لمحوں میں دنیا کا وہ ملک ہے جہاں خواتین کے سب سے زیادہ ریپ ہوتے ہیں، جہاں کمسن و نابالغ بچیوں کی زبردستی شادیاں سب سے زیادہ کی جاتی ہیں، جہاں سب سے زیادہ جنسی استحصال کے لیے خواتین کو اغوا کرکے بازاروں میں فروخت کیا جارہا ہے اور جہاں خواتین کو انصاف کے حصول کے لیے سب سے زیادہ مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بھارت کو اِس رپورٹ کی بنیاد پر دنیا بھر میں شدید ندامت کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ اُس نے رپورٹ تیار کرنے والے ادارے کے خلاف احتجاج بھی کیا ہے۔ بھارت میں نیشنل کمیشن برائے خواتین کی سربراہ (ریکھا شرما) اور خاتون وزیر خارجہ (سشما سوراج) تو غصے سے آگ بگولہ ہو رہی ہیں لیکن رپورٹ کے مندرجات کو جھٹلا نہیں سکی ہیں۔

آزاد عالمی میڈیا کی بدولت یہ بھیانک بھارتی چہرہ دنیا کے سامنے برہنہ ہورہا ہے۔ کئی بھارتی دانشور بھی بھارت میں خواتین کے بارے میں سامنے آنے والی مذکورہ رپورٹ پر نادم ہیں لیکن ساتھ ہی بین السطور بھارت کا دفاع کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ مثال کے طور پر جناب ششی تھرور۔ ششی تھرور بھارت کے ممتاز دانشور ، فلسفی اور کئی عالمی شہرت یافتہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ اُن کی تازہ ترین کتاب WHY  I  AM  A  HINDUکی بڑی شہرت ہے۔ گزشتہ دنوں نیویارک میں اِس کتاب کی ایک تقریبِ رُونمائی سے خطاب کرتے ہُوئے ششی تھرور نے آن دی ریکارڈ کہا : ’’یہ درست ہے کہ بھارت میں خواتین کے حالات آئیڈیل نہیں ہیں۔ وہاں بہت سے ایسے سانحات جنم لیتے رہتے ہیں جن میں خواتین کو ہدف بنایا جاتا ہے لیکن خواتین کے حوالے سے بھارت بارے ’’تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن‘‘ نے جو رپورٹ شایع کی ہے، وہ کچھ مبالغہ آرائی ہے۔‘‘ نیویارک میں بیٹھ کر بھارت کے بگڑے سماج کی وکالت کرنا چنداں آسان نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود ششی تھرور صاحب پر اپنی بیوی (سُنندا پُشکر) کو قتل کرنے کا الزام ہے۔

المناک اور شرمناک بات یہ ہے کہ بھارتی فوج کے اندر بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ بھارتی فوجی افسر اپنے ساتھی افسروں کی گھر والیوں کو ورغلانے اور اُن پر مَیلی نظر رکھنے میں بھی شہرت پا رہے ہیں ۔ اِس ضمن میںکئی واقعات پیش آ چکے ہیں ۔ مثال کے طور پر چند ہفتے قبل ہی منظرِ عام پر آنے والا ایک شرمناک سانحہ۔ بھارتی فوج کے ایک چالیس سالہ میجر، نکھیل رائے ہانڈا، نے اپنے ہی ایک میجر دوست (امِت) کی جواں سالہ اہلیہ (شیلزا) کو قتل کر دیا۔ قاتل میجر خود بھی دو بچوں کا باپ ہے لیکن اپنی بد فطرت کے ہاتھوں مجبور تھا اور چاہتا تھا کہ شیلزاطلاق لے کر اُس سے شادی کر لے۔ انکار سُن کر میجر نکھیل پاگل ہو گیا اور اُس نے اپنے ساتھی میجر کی بیوی کو گھر سے اغوا کیا، راستے میں خنجر سے اُس کا گلا کاٹا اور باہر پھینک دیا۔ اِس شقی القلب بھارتی ہندو میجر  نے اِسی پر بس نہ کی بلکہ مقتولہ کے مردہ بدن پر کئی بار گاڑی چڑھا کر لاش کو کچل دیا، یہ تاثر دینے کے لیے کہ خاتون ایکسیڈنٹ میں ماری گئی ہے۔ یہ سانحہ دہلی کے کنٹونمنٹ میں پیش آیا۔

قتل کے بعد میجر نکھیل رائے فرار ہو گیا تھا لیکن دو دن بعد اُسے میرٹھ چھاؤنی سے گرفتار کر لیا گیا۔ اگر بھارتی فوج کے افسروں کی بیویاں اپنی ہی چھاؤنیوں میں اپنے ہی فوجی افسروں کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے بقیہ بھارت میں بھارتی خواتین کہاں تک اور کتنی محفوظ ہوں گی؟ مقبوضہ کشمیر میں خواتین کے ساتھ بھارتی فوجی کیا سلوک کرتے ہوں گے؟ایسے میں ’’ تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن‘‘ کی رپورٹ پر یقین کیسے نہ کیا جائے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔