مسلمان حکم راں کے اوصاف 

ابو الہاشم ربّانی  جمعـء 11 جنوری 2019
انس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم  سب سے زیادہ بہادر اور سب سے زیادہ سخی تھے فوٹو : فائل

انس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سب سے زیادہ بہادر اور سب سے زیادہ سخی تھے فوٹو : فائل

نیک اور عادل حکم راں اپنے ملک کو عدل اور انصاف سے بھر دیتا ہے۔ وہی حکم ران عدل و انصاف قائم کرسکتا ہے جو خود عادل ہو، نیک ہو، اس کے دل میں اﷲ کا ڈر ہو۔ عادل حکم ران کی اﷲ کے ہاں بہت قدر و منزلت ہے اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ عادل حکم ران قیامت کے دن اﷲ کے سائے میں ہوگا، جس دن کسی کو سایہ نہیں ملے گا۔

نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے: سات قسم کے افراد قیامت کے دن اﷲ کے عرش کے سائے میں ہوں گے۔ ان میں سے ایک امام عادل ہے جو قیامت کے دن اﷲ کے دائیں جانب نور کے منبر پر ہوں گے، جو کہ اپنی حکومت اور گھر میں عدل و انصاف کرتے تھے۔ اگر حکم ران نیکی اور تقوی کے مطابق حکومت کرتا اور عدل قائم رکھتا ہے تو اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے: امام ڈھال ہے جس کی آڑ میں قتال کیا جاتا ہے اور دفاع ہوتا ہے، اگر وہ تقوی اور عدل سے حکومت کرتا ہے تو اس کے لیے اجر ہے اور اگر اس کے مطابق حکومت نہیں کرتا تو اس کے لیے عذاب ہے۔

نیک حکم ران قوموں اور ملکوں کے لیے خیر اور برکت کا باعث ثابت ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے اﷲ قوموں، ملکوں اور خطوں پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتے ہیں۔ جیسا کہ رسول ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے: امام عادل کی کوئی دعا ردّ نہیں ہوتی، اس لیے کہ اﷲ کے ہاں اس کی قدر و منزلت اور عزت ہوتی ہے۔ اسلام میں حکم رانی کا منصب جاہ و حشمت اور حصول منفعت کا باعث نہیں، بل کہ کانٹوں کی سیج اور بھاری ذمے داری ہے۔ اسلام نے حکم ران پر کچھ ذمے داریاں عاید کی ہیں، جنہیں پورا کرنا اس کے لیے لازم ہوتا ہے اس کے ذمے رعایا کے حقوق ہیں جو اس نے ادا کرنے ہوتے ہیں۔

اسلام نے مسلمان حکم ران پر جو ذمے داریاں عاید کی ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔

مسلمان حکم ران کی پہلی ذمے داری حق اور عدل کا قیام ہے۔ لوگوں کے تنازعات اور معاملات انصاف کے ساتھ نمٹانا، اﷲ کی شریعت کو نافذ کرنا اور شرعی احکام کے مطابق حدود کا نفاذ کرنا۔ رسول ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے: اﷲ حاکم یا قاضی کے ساتھ ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے، جب حکم ران ظلم کرتا ہے تو اﷲ اس کو اس کے نفس کے حوالے کردیتا اور پھر اﷲ اس کے معاملات سے بَری ہوجاتا ہے۔

ابوذر رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں میں نے ایک دن نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا: آپ مجھے کیوں کسی سرکاری کام پر نہیں لگاتے ؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوذر تم ایک کم زور آدمی ہو اور یہ عہدے قیامت کے دن حسرت و ندامت کا سبب ہوں گے، سوائے اس کے جس نے اسے حق کے ساتھ لیا اور جو ذمے داریاں اس ڈالی گئی تھیں وہ اس نے ادا کردیں۔ ہمارے اسلاف کا یہی طریقہ تھا وہ سرکاری عہدوں سے بچا کرتے تھے۔ امام شافعیؒ نے مامون کے کہنے کے باوجود قاضی کا عہدہ نہیں لیا۔ امام ابوحنیفہؒ نے بھی منصور کی حکومت میں قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول نہیں کیا۔ اس طرح کے اور بھی بہت سے اکابر ہیں۔

عوف بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے عہدے کا آغاز ملامت، پھر ندامت، تیسرا درجہ قیامت کے دن عذاب کا ہے۔ الّا یہ کہ عدل کیا جائے۔ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: اﷲ جس شخص کو بندوں پر حکم ران مقرر فرما دے، چاہے لوگ کم ہوں یا زیادہ قیامت کے دن اس سے پوچھا جائے گا کہ ان میں اﷲ کے احکام نافذ کیے یا نہیں ؟ یہاں تک کہ گھر والوں کے بارے میں بھی (یہی) سوال کیا جائے گا۔

انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: اﷲ ہر اس آدمی سے جسے کسی کا نگہبان و حکم ران مقرر کیا گیا یہ سوال کرے گا کہ اپنے ماتحتوں کا تحفظ کیا یا نہیں ؟ یہاں تک کہ آدمی سے اس کے گھر کے بارے میں بھی سوال ہوگا۔

ابوامامہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں جو بھی آدمی دس یا ان سے زیادہ آدمیوں کا امیر بنتا ہے قیامت کے دن اسے اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کا ہاتھ اس کی گردن میں باندھا گیا ہوگا یا اس کی نیکی اسے چھڑالے گی یا اس کا گناہ اس کو باندھ دے گا۔ ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: قیامت کے دن سب سے سخت عذاب ظالم حکم ران کو ہوگا۔

مسلمان حکم ران کی دوسری خوبی یہ ہے کہ اس کے اور عوام کے درمیان رکاوٹیں اور پردے حائل نہ ہوں بل کہ حکم ران کے دروازے ہر وقت عوام کے لیے کھلے رہیں۔ عمرو بن مرہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا ہے جو بھی امام، حکم ران ضرورت مندوں اور غریبوں کے لیے دروازے بند رکھتا ہے اﷲ اس کے لیے آسمانوں کے دروازے بند کردیتا ہے۔

رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اﷲ جس کو مسلمانوں کے امور کا نگہبان بنا دے اور وہ ان کی ضروریات و شکایات سننے کے بہ جائے درمیان میں رکاوٹیں کھڑی کردے، اﷲ اس کے لیے رکاوٹیں پیدا کر دیتا ہے۔ ایک روایت میں ہے اﷲ جس کو مسلمانوں کا حاکم بنائے پھر وہ مظلوموں اور مساکین کے لیے اپنے دروازے بند کردے اﷲ اس کے لیے اپنی رحمت کے دروازے بند کردیتا ہے ۔ ہمارے لیے رسول اﷲ ﷺ کی ذات گرامی اسوۂ حسنہ ہے۔ آپؐ اﷲ کے رسول تھے اور حکم راں بھی تھے۔ آپؐ خود عوام کے حالات کا جائزہ لیتے، مریضوں کی عیادت کرتے، جنازوں میں جاتے اور عام لوگوں کی دعوت قبول فرماتے تھے۔ ایک عورت نے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے کہا، مجھے آپ سے کچھ کام ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کسی بھی گلی کے ایک طرف بیٹھ جاؤ میں بات کرلیتا ہوں۔ اس نے ایسا ہی کیا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی بات سنی جو اس کی ضرورت تھی وہ پوری کی۔

مسلمان حکم ران کی تیسری ذمے داری عوام کے فائدے کے امور سرانجام دینا، ان سے نرمی و شفقت کرنا، ان کی غلطیوں سے درگزر کرنا، اور جو جس قسم کے فیصلے کا مستحق ہے عدل کے ساتھ وہ فیصلہ کرنا ہے۔

یہ بات اس حدیث سے بھی ثابت ہے جس میں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم میں سے ہر شخص ذمے دار اور اپنی ذمے داری کے لیے جواب دہ ہے۔ امام اپنے عوام کے لیے، آدمی اپنے گھر کے لیے اور نوکر مالک کے مال کے لیے جواب دہ ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے: اے اﷲ جو شخص میری امت میں سے کسی معاملے کا نگہبان بنے اور وہ امت پر سختی کرے تُو بھی اس پر سختی کر اور جو حکم ران نرمی کرے اے اﷲ تُو بھی اس کے ساتھ نرمی کر۔

آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: جو بھی شخص مسلمانوں کا حکم ران بنتا ہے ان کے لیے کوشش نہیں کرتا، خیر خواہی نہیں کرتا، وہ جنّت کی خوش بُو نہیں پائے گا حالاں کہ وہ خوش بُو سو سال کی مسافت تک آتی ہے۔

مسلمان حکم ران کی پانچویں ذمے داری مسلمانوں کے مال کا تحفظ اور عمالِ حکومت کا محاسبہ کرنا ہے۔

اس ذمے داری کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے، جس میں عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا کہ تم میں سے ہر شخص ذمے دار ہے اور اس سے اس کی ذمے داری کے بارے میں سوال ہوگا۔ امام ذمے دار ہے اس سے عوام کے بارے میں پوچھا جائے گا، آدمی اپنے گھر میں ذمہ دار ہے اور اس کے لیے جواب دہ ہے۔ عورت اپنے گھر میں ذمے دار ہے اور اس کے لیے جواب دہ ہے۔ ہر شخص ذمے دار ہے اور ذمے داری کے لیے جواب دہ ہے۔

مسلمان حکم ران کی ساتویں ذمے داری ملک کی حفاظت، دیار اسلام کا دفاع، مال و جان کا تحفظ اور امت کو خطرات سے محفوظ رکھنے کی کوششیں کرنا ہے۔

انس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم  سب سے زیادہ بہادر اور سب سے زیادہ سخی تھے۔ ایک مرتبہ مدینہ والے رات کے وقت کسی آواز کو سن کر گھبرا گئے اور آواز کی سمت چل پڑے تو آگے سے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لارہے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پہلے جاکر آواز کا سبب معلوم کرچکے تھے۔ آپؐ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر تھے اور گلے میں تلوار لٹک رہی تھی۔ نبی کریم ﷺ دنیا کے سب سے بہادر انسان تھے اور اپنی رعایا کا خیال رکھتے تھے۔ لوگ سوئے ہوتے تو آپؐ ان کی حفاظت و نگہبانی کیا کرتے تھے۔

دعا ہے کہ اﷲ ہمارے حکم رانوں کو بھی ان اوصاف سے متصف فرما دے۔ آمین ثم آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔