بجلی کی لوڈشیڈنگ اور عوامی مظاہرے

ایڈیٹوریل  اتوار 14 جولائی 2013
بعض علاقوں میں تو ان اوقات پر عملدرآمد ہو رہا ہے مگر بجلی کا بحران اس قدر شدید نوعیت کا ہے کہ انتہائی جدوجہد کے باوجود ملک بھرکے اکثر علاقوں میں اس پر عملدرآمد ممکن نہیں ہو سکا۔ فوٹو: ایکسپریس

بعض علاقوں میں تو ان اوقات پر عملدرآمد ہو رہا ہے مگر بجلی کا بحران اس قدر شدید نوعیت کا ہے کہ انتہائی جدوجہد کے باوجود ملک بھرکے اکثر علاقوں میں اس پر عملدرآمد ممکن نہیں ہو سکا۔ فوٹو: ایکسپریس

پاکستان گزشتہ چند برسوں سے توانائی کے بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ گزشتہ حکومتوں نے اس بحران کی شدت  اور اس سے پیدا ہوتے مسائل کو تو محسوس کیا مگر اس پر قابو پانے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہ کی گئی۔ مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی بڑا منصوبہ تک شروع نہ کیا گیا جس کا نتیجہ آج یہ برآمد ہوا  کہ ملک بھر میں توانائی کے بحران نے تجارتی‘ صنعتی اور گھریلو زندگی کو شدید متاثر کیا ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے چند روز میں مکمل نہیں ہو جاتے، منصوبہ بندی سے لے کر اس کی تکمیل تک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اگر سابق حکومتوں نے بجلی کے منصوبے شروع کیے ہوتے تو توانائی کے اس بحران کا آج سامنا نہ کرنا پڑتا۔ موجودہ حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے کے وعدے پر برسراقتدار آئی، اس نے حسب وعدہ توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کر دی ہے۔

وزیراعظم نے دورہ چین کے دوران توانائی کے معاہدے کیے ہیں۔ ملکی صنعت کاروں کے تعاون سے بھی توانائی کے مختلف پیداواری منصوبے شروع کرنے پر بات چیت کی جا رہی ہے۔ اخباری خبر کے مطابق ملک میں بجلی کی مجموعی طلب 17 ہزار میگاواٹ جب کہ پیداوار 13 ہزار پانچ سو میگاواٹ ہے۔ اس طرح بجلی کی طلب اور سپلائی کے درمیان فرق 3500 میگاواٹ ہے۔ بجلی کے پیداواری منصوبے فوری بھی شروع کیے جائیں تو ان کی تکمیل میں ایک عرصہ لگے گا مگر دوسری جانب توانائی کے بحران نے شہریوں کے لیے مسائل پیدا کر دئیے ہیں۔ حکومت نے رمضان شروع ہونے سے قبل اعلان کیا تھا کہ افطاری‘ سحری اور تراویح کے اوقات میں لوڈشیڈنگ نہیں کی جائے گی تاکہ شہریوں کو اس ماہ مقدس میں اپنے دینی فرائض کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

بعض علاقوں میں تو ان اوقات پر عملدرآمد ہو رہا ہے مگر بجلی کا بحران اس قدر شدید نوعیت کا ہے کہ انتہائی جدوجہد کے باوجود ملک بھرکے اکثر علاقوں میں اس پر عملدرآمد ممکن نہیں ہو سکا‘ ایک جانب شدید گرمی اور حبس دوسری جانب رمضان کا مہینہ لہذا کئی مقامات پر غیر علانیہ لوڈشیڈنگ عروج پر پہنچنے سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور انھوں نے مشتعل ہو کر مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ لاہور‘ کراچی‘ ملتان‘ شیخوپورہ‘ میاں چنوں اور کئی شہروں میں لوگوں نے شدید احتجاج کیا۔ بعض علاقوں میں مشتعل مظاہرین نے بجلی کے دفاتر میں توڑ پھوڑ بھی کی۔ہر سال گرمی کے موسم میں بجلی کے ٹرانسفارمرز اور دیگر آلات میں عموماً خرابی پیدا ہو جاتی ہے جس سے بجلی کی فراہمی میں تعطل پیدا ہونا یقینی امر ہے۔ خبر کے مطابق اس سال بھی  لاہور کے اکثر مقامات پر ٹرانسفارمرز خراب ہونے کی شکایات موجود ہیں جس سے بجلی کے تعطل کے دورانیے میں اضافہ ہونے سے شہری مشتعل ہوکراحتجاج پر اتر آئے ہیں۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے بھی طویل لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کی دھمکی دے دی ہے۔ علاوہ ازیں ملک بھر میں بجلی اور گیس چوری بھی عام ہے۔بعض علاقوں میں تاروں پر سر عام کنڈے ڈال کر بجلی چوری کی جا رہی ہے۔ چوری کے اس عمل نے بھی محکمہ بجلی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ بجلی چوری ہونے سے محکمے کے ریونیو میں کمی اور اخراجات میں اضافہ ہونے سے بجلی فراہمی کے نظام میں خلل واقع ہونا یقینی بات ہے۔اس صورتحال کا درست ادراک کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے ہفتہ کوٹاسک فورس برائے انسداد بجلی و گیس چوری کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بجلی اور گیس چوری میں ملوث افراد کے خلاف بھرپور کریک ڈائون کا حکم دے دیا ہے۔ انھوں نے اس مہم کو کامیاب بنانے کے لیے واضح کیا کہ ایسے افراد کے خلاف بلاتفریق سخت ترین کارروائی کی جائے اور کسی بھی دبائو کو خاطر میں نہ لایا جائے۔

وزیراعلیٰ نے ایسے افراد کو قومی مجرم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کسی رعایت کے مستحق نہیں‘ ان کا جرم ناقابل معافی ہے انھیں ہر صورت قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ بجلی اور گیس چوری میں ملوث افراد بجلی کی فراہمی کے نظام کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں جس کا خمیازہ ان شہریوں کو بھی بھگتنا پڑ رہا ہے جو دیانت داری سے اپنے بل ادا کرتے اور قانون پر عمل کرتے ہیں۔ اگر بجلی چوروں کے خلاف مہم کامیابی سے چلائی جائے تواس سے فائدہ تو ہو گا اور حکومت کے ریونیو میں اضافہ ہونے سے بجلی کی فراہمی کے نظام کو بہتر بنانے میں آسانی ہو گی مگر یہ کافی نہیں، اس کے ساتھ ساتھ توانائی کا بحران حل کرنے کے لیے حکومت کو جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ حکومت نے توانائی کے بحران کے حل کو اپنی اولین ترجیح میں شامل کیا ہے کیونکہ اسے حل کیے بغیر معیشت کی ترقی کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔

پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے صائب کہا ہے کہ بڑے پیمانے پر بجلی چوری کے علاوہ بجلی کے بل بھی ادا نہیں کیے جا رہے، متعدد ایسے علاقے ہیں جہاں سے بجلی کے بل وصول ہی نہیں ہوتے لہذا ان علاقوں میں لوڈشیڈنگ بھی زیادہ ہے۔ اب یہ عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ حکومت کو ذمے دار قرار دینے کے بجائے اپنے رویوں پر بھی غور کریں کہ وہ سسٹم تباہ کرنے میں کیا منفی کردار ادا کر رہے ہیں۔بجلی چوری،بل نہ ادا کرنے اور احتجاج کے دوران بجلی کی تنصیبات اور محکموں میں توڑ پھوڑ سے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔عوام کی مشکلات کے پیش نظر حکومت بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ واپڈا ذرائع کے مطابق حکومت کی کوششیں کامیاب ہو رہی ہیں‘ آئی پی پیز کو ادائیگیاں ہونے اور گیس کی فراہمی کی وجہ سے بجلی کی پیداوار بڑھی ہے اور شارٹ فال کم ہو کر 3 ہزار میگاواٹ پر آ گیا ہے۔

عوام اس حقیقت کو مدنظر رکھیں کہ بجلی کے بحران پر قابو پانے میں ایک عرصہ لگے گا۔ احتجاج ان کا حق ہے مگر وہ احتجاج تب کریں اگر حکومت بے حسی کا مظاہرہ کرے، جب حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہے تو عوام کو بھی توڑ پھوڑ کے بجائے صبر سے کام لینا چاہیے۔ یہ ایک مشکل دور ہے‘ سمجھ دار قومیں مشکل اور بحرانی دور میں حکومت کا ہاتھ بٹاتی ہیں نہ کہ توڑ پھوڑ کر کے اس  کی مشکلات اور مسائل میں اضافہ کرتی ہیں۔ حکومت کے خلاف کسی قسم کی احتجاجی مہم شروع کرنے کے بجائے تمام صوبائی حکومتوں کو مرکزی حکومت سے مل کر اس بحران پر قابو پانے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ یہی اس کا واحد حل ہے‘ پر تشدد احتجاج سے مسائل میں اضافہ ہو گا جس سے اجتناب ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔