سموسے کی بغاوت

تنویر قیصر شاہد  اتوار 14 جولائی 2013
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

رمضان المبارک اپنے دامن میں بہت سی رحمتیں اور برکتیں لے کر آتا ہے۔ رحمتوں بھر ے اِس مہینے کی فضیلتوں اور عظمتوں کا کوئی قطار شمار نہیں۔ عادی بے نمازی بھی اِس ماہِ مقدس میں اللہ کے حضور جُھک جاتے ہیں۔ قرآنِ مجید کی تلاوت کا بھی شرف ملتا ہے۔ پورے ماحول میں ایک نظر نہ آنے والا احترام و اکرام محسوس ہوتا ہے۔ سحر اور افطار کے روح پرور اور دل کشا مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جو اپنی جگہ ایک خاص حُسن و جمال کے حامل ہیں۔ صبر و تحمل کے اِس شاندار مہینے میں بدقسمتی سے بے صبری کے مظاہر بھی نظر آتے ہیں۔ خصوصاً وقتِ افطار۔ گزشتہ سال رمضان المبارک کا پہلا روزہ تھا۔ ہمارے دوست رائو تحسین صاحب نے افطاری پر بُلا رکھا تھا۔ افطار سے تقریباً دس منٹ قبل میَں رائو تحسین صاحب سے چند گز کے فاصلے پر موجود تھا۔ ایک چھوٹا سا موڑ کاٹ کر سائیڈ پر گاڑی کھڑی کی تھی، یہ دیکھنے کے لیے کہ پیچھے سے اگر کوئی گاڑی آ رہی ہے تو گزر جائے۔

اِسی لمحے ایک ویگن پوری طاقت سے میری گاڑی سے ٹکرائی۔ جسمانی نقصان بھی ہوا اور مالی بھی۔ دوستوں کو خبر ہوئی تو سب بیک زبان بولے: ’’کس نے کہا تھا کہ روزہ افطاری کے وقت سڑک پر نکلو؟ روزہ دار ویگن ڈرائیور اور سواریاں اُس وقت اپنے ہوش میں کہاں رہتے ہیں؟‘‘روزہ تو ہمیں صبر سکھاتا ہے لیکن عمومی مشاہدے میں آیا ہے کہ صبر کی جگہ بے صبری اور تحمل کی جگہ غصہ و طیش لے لیتا ہے۔ بھلا پابندیاں عائد کر دینے سے کسی کو کیا درس دیا جا سکتا ہے؟ پابندیوں ہی کے حوالے سے ابھی ابھی ایک حیرت انگیز خبر میری نظروں سے گزری ہے۔ مسلمان ملک صومالیہ، جو آجکل اغوا کاروں کا مرکز اور مسکن بن چکا ہے، کی ایک تشدد پسند جہادی تنظیم نے پورے ملک میں سموسہ کھانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اعلان کیا گیا ہے کہ جو دکاندار سموسے بنائے گا اور جو شخص سموسہ کھاتا نظر آئے گا، اُنہیں کوڑوں کی سخت سزا دی جائے گی۔ خبر پڑھ کر تعجب ہوا۔ میَں خود بھی سموسے اور پکوڑے کھانے کا خاصا رسیا واقع ہوا ہوں۔ اِس لیے میری افسردگی قابلِ فہم ہے۔

افطار میں پکوڑوں اور سموسوں کا نہ ہونا؟ تصور ہی محال ہے۔ میرے ڈاکٹر صاحب نے مجھے سموسے کھانے سے منع بھی کر رکھا ہے لیکن رمضان المبارک میں بد پرہیزی ہو جاتی ہے۔ سموسے کے خلاف صومالیہ کے مجاہدین کا فتویٰ پڑھ کر میری حیرت بجا ہے۔ میَں نے سموسے کا نئے سرے سے جائزہ لیا ہے۔ ہر زاویے اور ہر رُخ سے اِس کا مشاہدہ کیا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ اِس بے ضرر خوراک میں کونسا عیب ہے کہ اِسے غیر اسلامی اور غیر شرعی قرار دیتے ہوئے ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ صومالیہ کے عام عوام بھی ہماری طرح کے سموسہ زدہ مسلمان ہیں۔ وہ مجاہدین کے دیگر جبر و تشدد کے سامنے تو بے بس و بے کس ہیں لیکن سموسوں پر پابندی کے فتوے کے خلاف اُنہوں نے بغاوت کر دی ہے، یہ کہہ کر کہ سموسے کے بغیر ہم افطاری کر ہی نہیں سکتے۔

بندوق، خنجر اور اغوا کاری کی زبان میں بات کرنے والے ’’ہمارے‘‘ مجاہدین دراصل ناقابلِ فہم لوگ ہیں۔ اُن کا فقہی تصور بھی اپنا ایجاد کردہ ہے اور وہ اِس کے نفاذ میں آخری حد تک جانے پر ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اُن کے ہاتھ میں کسی محلّے کا اقتدار ہو یا پورا ملک اُن کی خوں آشام گرفت میں آ جائے، وہ پابندیوں کے لایعنی اور بے معنی فتاویٰ صادر کرنے سے باز نہیں آتے۔ مثال کے طور پر ہمارے ہمسائے افغانستان میں مُلّا محمد عمر مجاہد صاحب کی حکومت کا پھریرا لہرانے لگا تو آنجناب نے فتویٰ صادر کیا کہ ملک میں کوئی لڑکا فٹ بال نہیں کھیل سکتا۔ اِس ارشاد نے سب کو ششدر کر دیا۔ افغانی بے چار ے فٹ بال کھیل کے بہت شوقین ہیں، جس طرح پاکستانی کرکٹ اور ہاکی کے۔ اِس حکم سے سب افغان نوجوانوں کے جذبات پر اوس پڑ گئی۔ فٹ بال ٹیمیں اور فٹ بال کھلاڑی ختم ہو گئے۔

ملا عمر صاحب کی دہشت ہی ایسی تھی کہ کسی کی مجال نہ تھی استفسار کرنے اور پوچھنے کی کہ حضورِ والا، اِس فتوے کی وجہ؟ کوئی منطق؟ بھلا فٹ بال کھیلنا غیر شرعی عمل کیسے ٹھہرا؟ البتہ اپنی نجی مجالس میں ذمے دار افغان افسران اِس پابندی کی جو وجہ بیان کرتے، ہم یہاں بوجوہ لکھ نہیں سکتے۔ معروف مغربی تحقیق نگار جین گُڈ وِن اپنی معرکہ آرا تصنیف Price of Honour میں لکھتی ہیں: ’’میَں عین اُنہی دنوں افغانستان میں تھی۔ میَں نے اپنی آنکھوں سے کابل کے ایک کھیل کے میدان میں طالبان کو خواتین کو بندوق سے سنگسار کرتے دیکھا لیکن فٹ بال کے خلاف ملا عمر کی حکومت کے فتوے کے بارے میں جس کسی سے پوچھا، وہ کوئی معقول جواب نہ دے سکا۔ بعض افغان نوجوان اِس سوال کے جواب میں محض ہنس دیتے۔‘‘

کہا جا سکتا ہے کہ جس ذہنیت نے آج سموسوں کے خلاف فتویٰ صادر کیا ہے، اِسی سوچ نے تقریباً ڈیڑھ عشرہ قبل فٹ بال کھیلنے پر بھی پابندی عائد کر دی ہو گی۔ یہ مُلا محمد عمر مجاہد صاحب غفرلہٗ کی حکومت تھی جس نے یہ فتویٰ بھی دیا تھا کہ اُن کے زیرِ نگیں افغانستان میں کوئی عورت اونچی ایڑھی والی جوتی نہیں پہن سکتی۔ کیوں؟ اِس کا جواب بڑا ہی غیر منطقی اور نامعقول تھا لیکن اِس نا معقولیت کے باوجود اِسے نافذ بھی کیا گیا اور عمل نہ کرنے والی افغان خواتین کو تعذیب سے بھی گزرنا پڑا۔ اب پابندیاں عائد کرنے والے یہ فتویٰ فروش مالی بھی پہنچ گئے ہیں۔ اور یوں فساد و عداوت نے وہاں بھی اپنا مخصوص رنگ جمانا شروع کر دیا ہے۔ مالی، جو کبھی اولیائے کرام اور صوفیائے عظام کی پُرامن سرزمین ہوا کرتا تھا، اب اِس سوچ کے حامل گروہوں کی گرفت میں سسک رہا ہے۔

وہاں فتویٰ دیا گیا ہے کہ جو شخص اِن (عظیم مبلغینِ اسلام) کے مزاروں کی زیارت کرنے جائے گا، اُس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔ یہ دراصل وہی سوچ ہے جس نے گزشتہ سے پیوستہ برس سوات، اس کے مضافات اور پورے ملک میں اولیائے کرام کے مقابر کو بموں سے اُڑایا، وہاں خوں ریز دھماکے کیے اور بعض جگہوں پر مدتوں قبل دفن کی گئی میتوں کو قبروں سے نکالا اور اُنہیں درختوں کے ٹہنوں پر سُولی دی گئی۔ پابندیاں لگانے اور فتوے دینے والی اِسی سوچ نے لیبیا میں جو رنگ دکھایا ہے، اُس نے تو رونگھٹے کھڑے کر دیے ہیں۔ وہاں تو اِس سوچ کے حاملین نے مخالف فکر کے لوگوں کے کلیجے سینوں سے نکال کر چبائے ہیں۔ اِس کی فلم بھی بنائی گئی ہے جس نے دلوں کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک اور اسلامی ملک میں دس معروف اشیاء پر پابندیاں عائد ہیں اور اِن کا زیادہ تر ہدف خواتین ہیں۔

پابندیوں جن میں مذہب کو مرکزی کردار بنایا گیا ہے، کے حوالے سے ایک نئی اور افسوسناک خبر چین سے آئی ہے۔ یہ وہی چین ہے جس کا گزشتہ ہفتے ہی ہمارے نو منتخب وزیرِ اعظم جناب محمد نواز شریف نے مبینہ طور پر پانچ روزہ کامیاب دَورہ کیا۔ اِس دورے میں جناب نواز شریف نے چین کے بارے میں کہا تھا: ’’چین سے دوستی شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔‘‘ اِسی دوست ملک سے تیرہ جون 2013ء کو خبر آئی ہے کہ وہاں سنکیانگ کے ایغور مسلمان طلباء پر پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ روزہ نہیں رکھ سکتے، روزہ کی حالت میں اسکول کالج نہیں آ سکتے۔ چین کے تعلیمی بیورو نے یہ بھی کہا ہے کہ گرمیوں کے دنوں میں چینی مسلمان طلباء کسی بھی مذہبی سرگرمی میں شریک نہیں ہو سکتے۔

درست ہے کہ چین ایک لامذہب ملک ہے لیکن اُسے مسلمان طلباء پر روزے کے حوالے سے پابندی عائد کرنے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ اگر ایسا ہی کوئی حکم امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں مسلمان طلباء کے خلاف جاری کیا جاتا تو عالمِ اسلام خصوصاً علمائے پاکستان احتجاج میں آسمان سر پر اُٹھا لیتے، جیسا کہ یہ مولوی حضرات سوویت رُوس کے خلاف احتجاج کیا کرتے تھے۔ حیرت خیز بات یہ ہے کہ چین کے ایغور مسلمانوں کے خلاف عائد کی جانے والی مذکورہ پابندیوں  کے خلاف ابھی تک پاکستان کے کسی عالمِ دین نے کوئی فتویٰ سنایا ہے نہ جماعتِ اسلامی، جماعت الدعوہ، جمعیت ِ علمائے اسلام، جمعیت ِ علمائے پاکستان اور سُنی تحریک و سُنی اتحاد کونسل نے صدائے احتجاج بلند کی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔