اکیسویں صدی کے نئے صحافتی اصول

خضر حیات  ہفتہ 12 جنوری 2019
اب خبر ایک ہے مگر اسے رپورٹ کرنے والے منہ 100 سے زائد؛ اور پھر ایک ہی خبر کے درجن بھر ورژنز دستیاب ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اب خبر ایک ہے مگر اسے رپورٹ کرنے والے منہ 100 سے زائد؛ اور پھر ایک ہی خبر کے درجن بھر ورژنز دستیاب ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بھلے وقتوں کی بات ہے جب صحافت مشن ہوا کرتی تھی۔ کئی کئی لوگ خبر ڈھونڈنے میں مصروف ہوتے تھے۔ خبر ملنے کے بعد پھر کئی کئی لوگ اس کی نوک پلک سنوارنے اور اسے خبریت کے سنگھاسن پر بٹھانے کے قابل بناتے تھے۔

خبروں کا ایسا معیار قائم تھا کہ اس نے سننے اور دیکھنے والوں کی بھی تربیت کر رکھی تھی۔ کوئی خبر تھوڑی سی بھی ڈھیلی ڈھالی ہوتی تو سننے/ دیکھنے والوں کو فوراً پتا چل جاتا کہ ادارے سے یہ خبر اچھی طرح نہیں بنی یا یہ کہ یہ خبر، خبر بنتی ہی نہیں؛ اسے تو بس خالی جگہ بھرنے کےلیے ڈال لیا گیا ہے۔ پھر کمرشلزم کا دور آیا، ایشوز اور نان ایشوز جیسی اصطلاحات ایجاد ہوئیں، صحافت مشن سے ہٹ کر کاروبار بنی، صحافی ہونا کیریئر بن گیا۔ جس نے اس کاروبار میں پیسے لگائے وہ خود ہی ایڈیٹر بن گیا۔ اب کیا خبر ہے اور کیا غیر خبر، ہر دو کے درمیان کھینچی گئی لکیر تحلیل ہونے لگی۔ خبر تجزیہ بھی بن گئی، تاثر بھی، جائزہ بھی اور ردعمل بھی۔

کہاں وہ دن کہ خبر پڑھتے ہوئے لہجے کا بھی خیال رکھا جاتا کہ کہیں سننے والے اسے خبر دینے والے شخص یا ادارے کی طرف داری، پسندیدگی یا ناپسندیدگی نہ سمجھ لیں، غیر جانب دار رہنا ایک اصول تھا۔ اور کہاں آج خبر لہک لہک کر، منہ چڑا کر، تمسخر اڑاتے ہوئے اور اسی طرح کے دیگر ڈراموں کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔

صحافت کو انڈسٹری بنانے کا معاشرے کو بہت نقصان ہوا۔ انٹرٹینمنٹ کو پیچھے دھکیل کر خبر کو ہی سب سے بڑی جنسِ تجارت کے طور پر بازار میں چھوڑا گیا۔ دیکھنے سننے والوں کی تربیت اس طرح سے کی گئی کہ انسانی معاملات میں سب سے اہم موضوع سیاست ہی ہے۔ بہتر ہے کہ ہر لمحہ سیاست سنیں، سیاست بولیں، سیاست سوچیں، سیاست دیکھیں، سیاست پہنیں، سیاست کھائیں، سیاست پئیں، سیاست نگلیں اور سیاست ہی اُگلتے پھریں۔

اب خبر ایک ہے مگر اسے رپورٹ کرنے والے منہ 100 سے زائد؛ اور پھر ایک ہی خبر کے درجن بھر ورژنز دستیاب ہیں۔ معلومات دینے سے زیادہ سننے اور دیکھنے والوں کو کنفیوز کرنا نیا ایجنڈا بنا ہوا ہے۔ اب کسی ایک ہی ذریعے (ٹی وی چینل یا اخبار) سے پوری خبر ملنا مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہوتا جارہا ہے۔

شروع میں دیکھنے/ سننے والوں کو یہ نیا طریقہ بہت بیہودہ، فضول اور بھونڈا لگا۔ ان میں سے اکثر لوگ خبروں کی دنیا سے کوچ کرگئے مگر جو بچ رہے اور جو نئے اذہان خبروں کے اس دیس میں آئے، خبروں سے متعلق ان کی ٹیوننگ ہی ایسی ہوئی کہ انہیں اب وہی خبر لگتی ہے جو دن رات چیختی چنگھاڑتی، ہلڑ مچاتی نظر آتی ہے۔

خبر دینے والے کا سینس بدل گیا، یا یوں کہیے کہ بدل دیا گیا تو دیکھنے والے کا سینس بھی بدل چکا ہے۔ اب دیکھنے والا یہ فرق شاذ و نادر ہی سمجھتا ہے کہ خبر کے پیکٹ میں اسے خبر ہی ڈال کر دی جا رہی ہے یا تبصرہ، تجزیہ، تاثر، ذاتی عناد اور ردعمل بھی ساتھ ہی چپکایا جارہا ہے۔

پھر خبر دینے والے اس سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے۔ عوام کی ایک خاص طرح کی تربیت کے بعد اب وہ کھلم کھلا من مرضی کرنے لگے۔

اب کسی اخبار یا ٹیلی ویژن چینل کےلیے یہ بات بالکل باعث شرم نہیں رہ گئی کہ وہ ایک خاص سیاسی یا مذہبی جماعت کا ماؤتھ آرگن بن گیا ہے۔ اب خبر معروضی طور پر دینے کا رواج متروک ہو چکا ہے اور خبر ایک خاص نقطہ نظر سے دی جاتی ہے۔ دیکھنے اور سننے والے بھی اس تقسیم پر راضی نظر آتے ہیں۔ انہیں آسانی ہوگئی ہے کہ وہ جس بھی طرف والے ہیں، انہیں اس طرف والی خبریں، تجزیئے، تبصرے، مزاح، ایشوز، نان ایشوز، دلائل وغیرہ بہم پہنچانے کےلیے پورے کا پورا ادارہ قائم ہو گیا ہے۔ اسے خبر کے معروضی ابلاغ میں سے اپنی پسند کا زاویہ ڈھونڈنے کی کھکھیڑ میں اب پڑنے کی ضرورت ہی نہیں کہ یہ کام اب صحافتی اداروں کے مالکان نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔

کیسا سنہری دور تھا کہ جب جج میڈیا پر آنے سے کتراتے تھے، صحافی یا صحافتی ادارے کے مالک کا حکومتی نمائندگان کے ساتھ پیشہ ورانہ سے زیادہ تعلق معیوب سمجھا جاتا تھا اور صحافی خود بھی ایسی باتوں پر شرمندہ ہوتے تھے کہ جن سے متعلق خبریں لکھنی ہیں انہی کے ساتھ یاریاں کیسے گانٹھ سکتے ہیں۔ لیکن اب تو ایسی کایا پلٹی ہے کہ پنجابی مثل کے مصداق ’’کُتّی چوراں نال رُل گئی اے۔‘‘ ججز پریس کانفرنسز کررہے ہیں، ہر سرکاری ادارہ ہر ملکی و غیر ملکی ایشو اور نان ایشو پر اظہار خیال کی لائٹ پکڑے کھڑا ہے اور خبر کو سب سے پہلے بریک کرنے کی دوڑ میں بازی لے جانے پر کمربستہ ہے۔

اب آنے والا دور اس سے بھی مختلف ہے۔ صحافتی اداروں کے مالکان، کہ جو سرمایہ کار بھی ہیں اور حکومتی و غیر حکومتی اہلکاروں و دیگر کرداروں (جنہیں نان اسٹیٹ ایکٹرز کہا جاتا ہے) سے جن کی گاڑھی چھننے لگی ہے اور خبر ہی جن کے پاس جنس کے طور پر موجود ہے، وہ اس جنس کو طوائف بنا دیں گے اور صحافی کو دلاّل۔ اب بھلے طوائف جیسی بھی ہے، دلال کی تو یہی ذمہ داری ہوگی کہ وہ طوائف کی عزت کو زیادہ سے زیادہ غیر محفوظ بنا کر زیادہ سے زیادہ بزنس اپنے آقاؤں کی جھولی میں ڈال سکے۔

دوسرا کام یہ ہوگا کہ خبر کا تنور ہمہ وقت گرم رکھنے کےلیے مالکان اب بااثر شخصیات کے ساتھ مل کر خبریں پیدا کرواتے رہیں گے۔ خبر نہ ہونے کا مطلب ہے دھندے کا ماند پڑنا؛ تو جہاں ایسا خطرہ ہوگا، وہاں کاروبار تو ایسے ہی چلے گا کہ خبریں بنتی بنائی جاتی رہیں۔ میڈیا مالکان اتنے مضبوط ہوجائیں گے کہ کسی بھی نان ایشو کو کھڑا کرسکیں اور کسی دوسرے ضروری ایشو کو نظر انداز کر سکیں۔

عالمی میڈیا عالمی رہنماؤں کو کہیں نہ کہیں جنگ جاری رکھنے پر اکساتا رہے گا تاکہ ٹی وی اسکرین کی بھٹی متواتر جلتی رہے۔

یمن، شام، افغانستان، فلسطین، اسرائیل وغیرہ میں حالات پرامن ہوگئے تو قطر جیسے کسی نئے ملک کو کھدیڑنے کی ضرورت کو اجاگر کیا جائے گا۔ ایسی جنگوں کے اسٹریٹیجک پہلو کے ساتھ ساتھ صحافتی پہلو کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔

پھر اگر میڈیا کہیں محسوس کرے گا تو پناہ گزینوں والا ایشو پیدا کرنے کےلیے دو چار ملکوں کے سربراہان پر زور ڈالے گا۔

بہت دن ہو گئے اور کہیں کوئی توڑ پھوڑ نہیں دکھائی گئی تو یہ کام بھی صحافتی ادارے خود سے کرنے لگیں گے۔ اپنے ہی لوگوں کو کسی جگہ پہنچ کر مظاہرہ کرنے کا کہیں گے اور توڑ پھوڑ کروا کر اس خبر کو ریٹنگ کے فیتے پر چڑھا دیں گے۔

نیا صحافتی اصول یہ ٹھہرے گا کہ جب خبر ہی ایک جنسِ تجارت ہے تو کیوں نہ اس کی پیداوار میں بھی صحافتی ادارے خودکفیل ہو جائیں تاکہ خبر کےلیے باقی اداروں پر میڈیا کے انحصار کو کم سے کم کیا جا سکے۔ ’’خود بنائیں، پیش کریں اور بیچیں‘‘ کے زریں اصول کے تحت جب کاروبار چلے گا تو اس انڈسٹری سے جڑے لوگوں کے اور بھی وارے نیارے ہوجائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔