- قومی و صوبائی اسمبلی کی 21 نشستوں کیلیے ضمنی انتخابات21 اپریل کو ہوں گے
- انٹرنیٹ بندش کا اتنا نقصان نہیں ہوتا مگر واویلا مچا دیا جاتا ہے، وزیر مملکت
- پی ٹی آئی کی لیاقت باغ میں جلسہ کی درخواست مسترد
- پشاور میں صحت کارڈ پر دوائیں نہ ملنے کا معاملہ؛ 15 ڈاکٹرز معطل
- پہلا ٹی20؛ عماد کو پلئینگ الیون میں کیوں شامل نہیں کیا؟ سابق کرکٹرز کی تنقید
- 9 مئی کیسز؛ فواد چوہدری کی 14 مقدمات میں عبوری ضمانت منظور
- بیوی کو آگ لگا کر قتل کرنے والا اشتہاری ملزم بہن اور بہنوئی سمیت گرفتار
- پی ٹی آئی حکومت نے دہشتگردوں کو واپس ملک میں آباد کیا، وفاقی وزیر قانون
- وزیر داخلہ کا کچے کے علاقے میں مشترکہ آپریشن کرنے کا فیصلہ
- فلسطین کواقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کا وقت آ گیا ہے، پاکستان
- مصباح الحق نے غیرملکی کوچز کی حمایت کردی
- پنجاب؛ کسانوں سے گندم سستی خرید کر گوداموں میں ذخیرہ کیے جانے کا انکشاف
- اسموگ تدارک کیس: ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات لاہور، ڈپٹی ڈائریکٹر شیخوپورہ کو فوری تبدیل کرنیکا حکم
- سابق آسٹریلوی کرکٹر امریکی ٹیم کو ہیڈکوچ مقرر
- ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کے صوابدیدی اختیارات سپریم کورٹ میں چیلنج
- راولپنڈٰی میں بیک وقت 6 بچوں کی پیدائش
- سعودی معاون وزیر دفاع کی آرمی چیف سے ملاقات، باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو
- پختونخوا؛ دریاؤں میں سیلابی صورتحال، مقامی لوگوں اور انتظامیہ کو الرٹ جاری
- بھارت میں عام انتخابات کے پہلے مرحلے کا آغاز،21 ریاستوں میں ووٹنگ
- پاکستانی مصنوعات خریدیں، معیشت کو مستحکم بنائیں
سنگاپور کا تعلیمی نظام اور پاکستان میں تعلیم کی زبوں حالی (قسط دوم)
سنگاپور کے تعلیمی معیار کے بارے میں یہ چشم کشا مگر سبق آموز اعداد وشمار ملاحظہ فرمائیے۔ اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم (OECD) کے ماتحت ادارہ ’’پروگرام جانچ قابلیت برائے طلباء‘‘ نے 2015ء میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر 76 ممالک کے اسکول طلباء کی قابلیت جانچی تو سنگاپور کے طلباء سائنس و ریاضی میں سرفہرست تھے۔ ہانگ کانگ، جنوبی کوریا، جاپان، اور تائیوان بالترتیب بعد میں آئے۔ حیرت انگیز طور پر برطانیہ کا نمبر بیسواں، جبکہ امریکہ کا اٹھائیسواں تھا۔
پروگرام کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جب بھی ریاستوں کے تعلیمی وزراء کا عالمی اجلاس منعقد ہوتا ہے تو سامعین سنگاپور کے وزیر تعلیم کی تقریر کو انہماک سے سنتے ہیں۔ سبھی اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ وہ کون سی جادوائی چھڑی ہے جس کے استعمال سے سنگاپور کے طلباء سائنس اور ریاضی کے ہر مقابلہ میں ہمیشہ نمایاں پوزیشن لیتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک بھی ’’سنگاپور تعلیمی ماڈل‘‘ کے ممتنی ہیں۔ سائنسی جدت اور اختراع کا دور ہے، ان علوم کی قدر وقیمت بڑھ رہی ہے جو ان ایجادات میں معاون ہوسکیں۔ بوسیدہ معاشی ماڈل جو کبھی زراعت و ابتدائی صنعت و حرفت پر استوار تھے، متروک ہوچکے۔ مینوئل لیبر سے کیپٹل لیبر یعنی سرمایہ اور مشینی دور کی جانب سفر گامزن ہے۔ معیشت کی ڈیجٹلائزیشن اور آٹومیشن ہو رہی ہے۔ وہی معیشتیں ظفرمند ہیں جہاں کی لیبر زیادہ تعلیم یافتہ، ہنرمند اور سائنسی طریقہ پیداوار سے آراستہ ہے۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ دنیا ’’آرٹیفیشل انٹیلیجنس‘‘ یعنی مصنوعی ذہانت کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ایسی معیشت جو بنیادی ضروریات اور تعیشات پر نہیں بلکہ انسانی سوچ، نفسیات اور مقابلہ پر مبنی ہوگی۔ مصنوعی ذہانت یا مشینی استعداد پیچیدہ اعداد وشمار اور کمپیوٹر پروگرامنگ کی مرہون منت ہے، جس کی بنیاد سائنس و ریاضی ہیں۔ رہا یہ سوال کہ کونسا ملک عالمی پس منظر پر چھایا ہوگا، تعین معیشت کرے گی؛ اور معیشت کا دارومدار سانئس و ٹیکنالوجی پر ہوگا۔ موجودہ مقابلیاتی فضا میں دونوں عالمی معاشی طاقتیں بشمول ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور چین اس بات پر نبردآزما ہیں کہ کون پہلے مصنوعی ذہانت پر کمند ڈالتا، اور معیشت کا محور بناتا ہے۔ اس مقصد میں کامیابی کے لیے دونوں ممالک پرکشش معاوضوں پر دنیا بھر کے باصلاحیت نوجوانوں کو راغب کر رہے ہیں۔ مرکز نگاہ وہ ہیں جن کا تعلیمی پس منظر سائنس، ریاضی، اور ٹکنالوجی ہو۔
اب آئیے اس نکتہ کی طرف جو سنگاپور کے طلباء کی سانئس و ریاضی میں مہارت دیگر ممالک سے ممتاز کرتی ہے۔ قدرتی امر ہے کہ سوالات جنم لیتے ہیں کیا ان مضامین کا نصاب مختلف ہے؟ مندرجات یعنی کونٹینٹس کا معیار بلند ہے؟ اساتذہ زیادہ ماہر، باصلاحیت، اور تربیت یافتہ ہیں؟ یا پھر طریقہ تعلیم میں جوہری فرق ہے؟ تو ان سبھی سوالات کے جوابات مثبت ہیں۔ لیکن اس سے پہلے یہ جاننا ضروری کہ تعلیمی معجزہ بپا کیسے ہوا؟ ارتقائی سفر دلچسپ بھی ہے اور قابل غور بھی۔
1980ء کی دہائی کے اوائل میں سنگاپور کے ماہرین تعلیم پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ ذمہ داری یہ عائد ہوئی کہ ایک ایسا نصاب تیار کیا جائے جس کا معیار بہت بلند ہو۔ اس سلسلہ میں وفد مؤثرطریقہ تعلیم کا جائزہ لینے کئی ترقی یافتہ ممالک بشمول کنیڈا اور جاپان بھی گیا۔ مقصد رائج دقیانوسی طریقہ کار جس میں طالبعلم کو رسمی تعلیم دی جاتی ہے، کا خاتمہ تھا۔ اور سیکھنے کے ایسے پراسس سے گزارنا تھا جس میں طالبعلم مسئلہ کی تہہ تک پہنچے، تجزیہ کرے، اور حل کشید کرے۔ ایسے نظام کو وضع کرنا تھا جو زبانی یاد کرنے کی بجائے طالبعلم کی شعوری صلاحیتوں میں اضافہ کرے۔
امریکی ماہر نفسیات جیروم برونر کی پیش کردہ تھیوری کہتی ہے کہ لوگ تین مختلف مراحل میں سیکھتے ہیں: اول، اشیاء کے ذریعے اگر وضاحت کی جائے۔ دوم، تصاویر کے ذریعے بیان کیا جائے۔ اور سوم، علامات کو ذریعہ وضاحت بنایا جائے۔ برونر کے اسی نظریہ پر سنگاپور کے تعلیمی نظام کی عمارت استوار ہوئی۔ ایسا نصاب تشکیل دیا گیا جس میں ماڈل کی ساخت وبناوٹ رنگوں اور نسبت تناسب کے کلیوں سے کی جا سکے۔
مزید برآں سنگاپور کا تعلیمی نصاب مرتکز اور گہرا ہے۔ امریکی تعلیمی محقق سلائیچر کے مطابق اگر آپ امریکی اور برطانوی اسکول کے نصاب کا سنگاپور کی درسی کتب سے موازنہ کریں تو امریکی و برطانوی نصاب ایک انچ گہرا اور دریا کے پاٹ جتنا وسیع ہے، جبکہ سنگاپور کا نصاب نہایت گہرا اور چوڑائی میں بہت کم ہے۔
اس بات کی وضاحت ریاضی مضمون میں الجبرا کے ابواب سے دی جا سکتی ہے۔ امریکی و برطانوی اسکولوں کے نصاب میں جہاں الجبرا پر تعارفی باب ہے، سنگاپور میں اس کے برعکس کئی ابواب ہیں جن کا معیار ہمارے ہاں بی ایس سی کے نصاب برابر ہوتا ہے۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو اس کا فائدہ طلبا کو یہ ہوتا ہے کہ چند ہی مندرجات میں انہیں مہارت مل جاتی ہے۔ سلائیچر نے سنگاپور کے ریاضی کے نصاب کا یوں خلاصہ کیا:
سنگاپور میں ریاضی سب کچھ جاننا نہیں، بلکہ ریاضی دان کی طرح سوچنے کا نام ہے!!!
جاری ہے…
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔