احتساب کی ناگزیریت

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 12 جنوری 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ احتساب پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کیا جا رہا ہے چونکہ جس طبقے کی وجہ سے کرپشن سر سے اونچی ہوگئی، منطقی طور پر احتساب کا رخ اسی طبقے کی طرف ہے۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں اربوں کھربوں کی کرپشن سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان نہ پسماندہ ملک ہے نہ غریب، اس کی پسماندگی کی وجہ یہ ہے کہ دولت عوام کے ہاتھوں سے نکل کر اشرافیہ کے ہاتھوں میں چلی گئی،  دولت  اشرافیہ کے ہاتھوں میں جانے کی وجہ سے عوام پسماندہ بھی ہیں اور غریب تر بھی۔ ہمارے جیسے پسماندہ ملکوں میں سب سے بڑی ناانصافی یہ ہے کہ محنت کرنے والا عموماً بھوک اور غربت میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے اور عوام کی غربت کی قبر پر خواص اپنی امارت کی عمارت تعمیرکرتے ہیں۔

پاکستان میں اربوں کی دولت کے چند ہاتھوں میں جمع ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ دولت کے جمع کرنے میں سیاست بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور سیاست پر ایک چھوٹا سا طبقہ قابض ہے اس قبضے اور اختیارات کی لامحدودیت کی وجہ سے ملک کی دولت سمٹ کر چند خاندانوں میں محبوس ہوگئی ، اس برے کام میں بھی کوئی اعتدال نہ تھا سو دولت کی ایک چھوٹے سے طبقے کے ہاتھوں میں آنے اور بے دریغ استعمال کی وجہ عوام اور بااختیار لوگوں کی نظروں میں آگئی ، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کرپشن کے خلاف جو احتساب کا عمل شروع ہوگیا۔ اس کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس احتساب کا آغاز ایسے بااختیار لوگوں کی طرف سے ہوا یا ایسے بااختیار لوگوں کی سرپرستی میں ہوا کہ بڑے بڑے طرم خان اس کی زد میں آگئے اور سخت احتسابی اقدامات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ سرمایہ دار سیاست کار بے حد خوفزدہ ہوگئے۔

پاکستان جیسے انتہائی پسماندہ ملک میں جہاں غریب کے لیے دو وقت کی روٹی حاصل کرنا مشکل ہے چند قوم و ملک کے غداروں کے ہاتھوں میں اربوں کی دولت جمع ہوجانا ایک ایسا المیہ اور ظلم ہے کہ احتساب عوام کا پسندیدہ اقدام بن گیا۔ احتساب کوئی نیا عمل نہیں یہ انسانی معاشروں میں کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا ہے۔ احتساب کا بنیادی مقصد معاشرے کوکرپٹ عناصر سے پاک کرنا ہوتا ہے۔ یہ مقصد بڑا نیک ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی موجودگی میں کرپشن سے مکمل طور پر نجات خیال است و محال است و جنوں کے علاوہ کچھ نہیں احتساب کا بنیادی مقصد عوام کے معیار زندگی میں اضافہ نہ ہو تو ایسا احتساب بے مقصد ہی کہلاتا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ احتساب مکمل عموماً نہیں، احتساب سے کرپٹ عناصر ختم نہیں ہوسکتے۔ یہ ایک ایسی متعدی بیماری ہے جو ایک خاص طبقے میں پیدا ہوتی ہے اور جرائم اور بددیانتی کی فضا میں پرورش پاتی ہے کسی بھی سرمایہ دارانہ ملک میں بددیانتی اور جرائم کو مکمل ختم کرنا ممکن نہیں۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں 71 سال سے بے لگام کرپشن کا راج ہے اور ملک کا کوئی شعبہ اس سرطان سے بچا ہوا نہ ہو ایسے حالات میں کرپشن کی کتنی شدید مزاحمت ہوسکتی ہے غالباً اسی کا اندازہ لگا کر ایسے سخت انتظامات اور اقدامات کیے گئے ہیں کہ احتساب کی مزاحمت بہت مشکل ہوگئی ہے لیکن ایک مسئلہ ایسا ہے جو احتساب کی کوششوں کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے، نئی حکومت نئے اور ناتجربہ کار لوگوں پر مشتمل ہے اس پر ستم یہ کہ حکومتی ارکان میں نہ یہ احساس ہے کہ اس انتہائی نازک مرحلے میں کتنی احتیاط سے کام کیا جانا چاہیے۔ حکومتی اراکین میں اس حوالے سے ذمے داری کا فقدان نظر آتا ہے۔

خاص طور پر 36 معاملات میں غیر معمولی احتیاط کی ضرورت ہے لیکن حکومت اراکین میں اس قسم کی ذمے داری اور احساس ذمے داری کا فقدان نظر آتا ہے۔ حکومت کو ہر قیمت پر ختم کرنے کی منصوبہ بندیاں اب بھی باقی ہیں اور ملک کے مختلف شعبوں میں حالات خراب کرنے کی ہر ممکن کوشش ہو رہی ہے۔ ایسے نازک ترین وقت میں ہمارے انتہائی غیر ذمے دار وزرا کی حماقتوں سے 12 ارب روپے کا نقصان ہوگیا۔ اس مجرمانہ لاپرواہی یا غیر ذمے داری کو اپوزیشن بھرپور طریقے سے استعمال کر رہی ہے اور وزیر اعظم عمران خان بجا طور پر غیر ذمے دار وزرا سے سخت ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔

یہ ایسی مجرمانہ غفلت ہے کہ حکومت کے مخالفین اس کو عوام کو ورغلانے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔71 سال سے اس ملک کے غریب عوام کو اندھا دھند لوٹ کر لوٹی ہوئی دولت کو چند ہاتھوں میں جمع کردیا گیا ہے اسی حرام کی دولت کو قومی قصائیوں کے ہاتھوں سے نکالنے کے لیے احتساب کا آغاز کیا گیا ہے۔ احتساب کسی سے دشمنی نہیں ہے بلکہ عوام دشمنی کا جواب ہے لیکن یہ ملک دشمن عناصر ابھی تک مزاحمت کے نئے نئے طریقے سوچ رہے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ حکومت کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے مخالفین کو اس کے خلاف پروپیگنڈے کے مواقعے حاصل ہو رہے ہیں اور منظم اور منصوبہ بند پروپیگنڈے سے عوام میں تشویش اور غیر یقینیت کی فضا پیدا ہونا فطری ہے۔ احتساب کو کسی کی حمایت کسی کی مخالفت کہنا ایک بچکانہ حماقت ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب بھی جب کہ کھربوں کی قومی دولت کو لوٹ لیا گیا احتساب کی ضرورت تھی؟ اس سوال کا جواب عوام کی بدترین معاشی بدحالی ہے۔ کیا  ہزاروں عوام کو دو وقت کی روٹی سے محروم رکھنا اور اس معاشی بدحالی کو جو لوٹ مار کی وجہ سے ملک پر مسلط ہے ہمیشہ غربت اور امارت خدا کی مرضی ہے کہنا کیا عوام کو دھوکا دینا نہیں ہے؟ اگر احتساب مکمل ہوتا ہے اور لوٹی ہوئی کھربوں کی دولت واپس لے کر عوام کے معیار زندگی کو بڑھانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے تو نہ صرف عوام کی زندگی میں خوشحالی آئے گی بلکہ یہ دھوکا بھی اپنی موت آپ مر جائے گا کہ غربت خدا کی مرضی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔