خبر کے اِدھر اُدھر ؛ ڈونلڈ ٹرمپی ۔۔۔۔ کیڑا

محمد عثمان جامعی  اتوار 13 جنوری 2019
امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ میں منسوب ہونے کے لیے ایک کیڑا آیا ہے

امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ میں منسوب ہونے کے لیے ایک کیڑا آیا ہے

بڑے لوگوں کے نام پر شہر بسائے جاتے ہیں، ان سے سڑکیں اور عمارتیں منسوب کی جاتی ہیں، اداروں کو ان سے نسبت دی جاتی ہے، مگر امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ میں منسوب ہونے کے لیے ایک کیڑا آیا ہے۔ نہیں نہیں دماغ کا معروف کیڑا نہیں، یہ زیرزمین خشکی اور تَری دونوں پر رہنے والی ایک کیڑے نما مخلوق ہے، جسے حال ہی میں دریافت کیا گیا ہے اور اسے ’’ڈرموفس ڈونلڈ ٹرمپی‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اینویرو بلڈ نامی کمپنی نے اس مخلوق کو یہ نام دینے کے لیے ایک موسمیاتی گروپ رین فورسٹ کو 25 ہزار ڈالر دیے ہیں۔ اس کیڑے کو خبر بھی نہیں کہ اسے نام دینے کے لیے کتنی بھاری رقم ادا کی گئی ہے۔

اینویرو بلڈ کے شریک بانی ایڈن بیل کا کہنا ہے کہ اس مخلوق کا نام ڈونلڈ ٹرمپ کے نام پر اس لیے رکھا گیا ہے کیوںکہ یہ کیڑا ریت میں منہ چھپا کر خود کو اردگرد کے حقائق سے روپوش سمجھتا ہے اور امریکی صدر بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کے سائنسی حقائق سے گریز کے لیے یہی رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔

بے چارے کیڑے کو خبر ہی نہیں کہ اسے کیا نام دے دیا گیا ہے، اگر اس سے پوچھ لیا جاتا کہ میاں کیڑے تمھارا نام کیا ہے؟ تو شاید وہ یہ تو کہہ دیتا ’’تم کوئی اچھا سا رکھ دو اپنے دیوانے کا نام‘‘ مگر یہ کبھی نہ چاہتا کہ اسے کسی ’’دیوانے کا نام‘‘ دے دیا جائے۔ البتہ اگر اس کی سوچ یہ ہوتی کہ ’’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘‘ تو یقیناً اسے یہ ’’بدنام وری‘‘ بُری نہ لگتی۔

ویسے اگر رویوں کی بنیاد پر بہت سی مخلوقات کو مختلف حکم رانوں اور سیاست دانوں کے نام دیے جاسکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ مخلوق نودریافت شدہ ہونے کی وجہ سے بے نام ہو، کسی معروف مخلوق کو موزوں ترین نام دینے میں کیا حرج ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اپنے ٹرمپ صاحب سے جانے کتنی مخلوقات منسوب ہوجائیں، جیسے شترمُرغ، جو خطرہ دیکھ کر ریت میں سَر چُھپا لیتا ہے، کَٹ کھنا بیل بھی اس اعزاز کا مستحق ہے، لڑاکا مُرغے کے لیے تو یہ نام مناسب ترین ہے۔ یوں ہوجائے تو ٹرمپ صاحب بڑے فخر سے ان جانوروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہیں گے:

تو مجھے اپنا بنا یا نہ بنا تیری خوشی

تو زمانے میں مِرے نام سے بدنام تو ہے

اور بھی بہت سے ایسے حکم راں اور سیاست داں ہیں جن سے کسی مخلوق کو نسبت دی جاسکتی ہے۔ مثلاً کسی کا نام چالاک لومڑی کو مل سکتا ہے تو کسی کا آستین کے سانپ کو، کسی سے کَوا منسوب ہوسکتا ہے تو کسی سے طوطاچشمی کرنے والا طوطا، ایسے بھی ہیں جن کی پہچان سرکس کے شیر کو عطا ہوسکتی ہے، اور ایسے بھی جن کی شناخت مداری کے بندر کے حصے میں آسکتی ہے۔

جس طرح ایک بے نام کیڑے کو امریکی صدر کا نام دیا گیا ہے، اسی طرح ہمارے یہاں بھی نودریات شدہ اموال اور بے نام جائیدادوں کے لیے بھی نام کی تلاش جاری ہے، جو دراصل ’’باپ کے نام‘‘ کی کھوج ہے، جس دن بھی ان بے ناموں کو ولدیت اور نام مل گیا، اس دن بڑے بڑے نام ور نام نہاد زردار سے بدنام زمانہ لوٹ مار کے ماہر قرار پائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔