میڈیا کے ڈرامے اور بے گناہ ٹیکس

ایچ ایم کالامی  منگل 15 جنوری 2019
نیوز میڈیا کا شکریہ کہ جس نے ہمیں ڈراموں کی جگہ سیاسی ڈرامے بازی دیکھنے کا عادی بنادیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

نیوز میڈیا کا شکریہ کہ جس نے ہمیں ڈراموں کی جگہ سیاسی ڈرامے بازی دیکھنے کا عادی بنادیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پچھلے کئی سال سے ملکی سیاست جس شدت سے کشمکش، ہلڑبازی اور کھینچا تانی کا شکار ہے اسی طرح اپنے مزاحیہ ترین دور سے بھی گزر رہی ہے۔ اس سے قبل زرداری دور میں سیاسی تفریح بلوچستان اور سندھ تک محدود تھی جہاں نواب اسلم رئیسانی اور سائیں قائم علی شاہ نے پاکستانی سیاست کو کبھی بوریت کا احساس ہونے نہیں دیا۔

دیکھئے! جس طرح فلمیں اور ڈرامے تجسس، ڈر، ہاتھا پائی اور طنز و مزاح کے بغیر نہیں چل سکتے ٹھیک اسی طرح پاکستانی سیاست کا بھی ان خصوصیات کے بغیر چلنا ممکن نہیں، کیونکہ یہاں سیاست نہیں، سیاسی ڈرامے بازی چلتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست، ڈرامے بازی میں ایسا کمال رکھتی ہے کہ باقی ممالک میں رات نو بجے لوگ ٹی وی پر خبریں دیکھ رہے ہوتے ہیں تو ہم نو بجے کے ڈراموں سے لطف اٹھارہےہوتے ہیں۔ اور ان سیاسی ڈراموں کی نشریات کےلیے ہمارے ہاں ایسے ایسے ’’پروفیشنل‘‘ نیوز چینلز موجود ہیں کہ جن کے ہوتے ہوئے مسٹر بین کے ڈرامے بھی بے مزہ دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ اگر ایک چینل پر جس کا کردار ہیرو کا دکھایا جاتا ہے تو دوسرا چینل اسی کردار کو ولن کے روپ میں پیش کرتا ہے۔ اس سے نہ سے ہم نہ صرف بیک وقت کئی ٹی وی چینلوں کے چکر کاٹنے کا مزا لیتے ہیں، بلکہ ملک میں ’’ریموٹ‘‘ کے کاروبار کو بھی فروغ ملتا ہے۔

ریموٹ سے یاد آیا، ہمارے ہاں ’’ریموٹ‘‘ سے چلنے والے سیاست دان بھی مل سکتے ہیں، جن کے ’’ریموٹ کنٹرول‘‘ ڈائیلاگز ٹی وی مالکان کو بھی الجھا کر رکھ دیتے ہیں کہ کونسا ڈائیلاگ یوٹرن لے سکتا ہے، جسے حذف کیا جاسکے۔ اور ہاں! یوٹرن سے یاد آیا کہ اسلام آباد سے سوات جاتے ہوئے منڈی موڑ پر بہت بڑا لیڈر بننا پڑ رہا ہے جو شدید اذیت کا باعث ہے۔ یہاں پر کم از کم ایک فلائی اور بننا چاہیے۔ اسی طرح پشاور، مردان اور سوات میں بھی مزید فلائی اورز بنائے جائیں تو بہت سے ’’لیڈروں‘‘ کا فاصلہ ختم ہوسکتا ہے۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی! ہم نے تو سیاسی مزاح کو چھیڑا تھا اور الجھ گئے ریموٹ اور یوٹرن میں!

حالیہ سیاسی ڈراموں میں سب سے بڑا مزاح بلکہ مذاق تو یہ تھا کہ حکومت نے سو روزہ پلان کا اعلان کیا تھا۔ پھر ہم عوام کی لاچاری اور مجبوری کا علم دیکھیے کہ جس طرح ہم عامل بابے کو کالی مرغی کھلا کر جادو ٹونے کے بُرے اثرات دُور کرنے کا انتظار کرتے ہیں، اسی طرح ووٹ کی پرچی تھما کر سیاسی بابے کے جادو کا انتظار کرتے ہیں۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ عامل بابے کالی مرغی کھا کر بھی کالا جادو نہیں بھگا سکتے اور سیاسی بابے جادو پھونک کر مرغیاں کھلاتے ہیں… اور کھانا بھی پڑتا ہے کیونکہ ’’جب دال زیادہ مہنگی ہو تو مرغی پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔‘‘

بات پھر عاملوں اور مرغیوں کی طرف نکل پڑی ہے تو چلیں ایک سیاسی مرغی اور غیر سیاسی انڈوں والے ڈرامے پر بھی تھوڑی سی بحث کرتے ہیں۔

دراصل ہوا یہ تھا کہ حکومت نے سو دنوں میں درجن بھر اعلی یونیورسٹیوں کی تعمیر، خزانے سے چوری شدہ اربوں ڈالرز کی واپسی اور پھر اسے امریکا کے منہ پر دے مار کر جنگ سے نکل جانا، اسی طرح جنگ پر مزید خرچ ہونے والی کو منظور شدہ ان یونیورسٹیز پر لگانا، ملک میں اعلی صنعتوں کو چین اور چاپان کے برابر لا کر کھڑا کرنا، ایک کروڑ نوکریوں کےلیے نوکروں کی تلاش کے خواب دکھائے تھے لیکن کیا کریں ان دیہاتی خواتین کا جن کی وجہ سے یہ سارے خواب انڈوں کی طرح ٹوٹ کر بکھر گئے۔

چند دیہاتی خواتین عمران خان کے پاس مرغیاں لینے آئی تھیں۔ جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا ہے کہ ایک کروڑ نوکریوں کےلیے ایک کروڑ نوکر چاہیے ہوتے ہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ دیہاتی خواتین یا تو مرغیاں پالنا جانتی ہیں یا شوہر کا غم پالنا، اس کے علاوہ نوکریاں ان کے تصور میں بھی نہیں۔ ملک کے وزیراعظم ان کے تجربے اور اہلیت کو سمجھ چکے تھے اور چند انڈوں سے ڈربے بھرنے اور کٹوں سے بھینس تک کی پیدارار کے تمام آزمودہ نسخے بتادیئے (اور ہاں! ان نسخوں کا سو روزہ پلان سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا) مگر ان ریلو کٹے دانشوروں اور ماہرین معاشیات کے پلے کچھ بھی پڑنے والا نہیں اور یوں سب نے اپنی ناکامی چھپانے کےلیے ملک کے وزیراعظم کا تمسخر اڑانا شروع کردیا؛ اور ادھر ٹی وی چینلوں کے پھر سے وارے نیارے ہوگئے۔

دوسری طرف ہم سیاسی مزاح کے عادی ہیں اس لیے نئے پاکستان کے وہ سارے سنجیدہ خواب دھرے کے دھرے رہ گئے۔ سوشل میڈیا پر جیسے مرغیوں اور انڈوں کی حکومت قائم ہوگئی۔

بھئی حکومت سنجیدہ ہوچکی ہے، اس لیے میڈیا کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوامی رائے کو ہموار کرنا ہوگا۔ اگر معیشت پر ڈرامے چلاتے رہیں گے تو حکومت کو متبادل سوچنا ہوگا۔ جس طرح سگریٹ پر گناہ ٹیکس لگانا پڑا اسی طرح عوام پر بے گناہ ٹیکس لگانا پڑے گا۔

کیا سمجھے! نہیں سمجھے؟ سمجھ بھی نہیں سکتے!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایچ ایم کالامی

ایچ ایم کالامی

ایچ ایم کالامی،خیبر پختونخوا, سوات کوہستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے کالم لکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔