پاکستان میں کمیشن ردعمل کارخ موڑنے کیلیے بنتے ہیں، بی بی سی

ایکسپریس ڈیسک  پير 15 جولائی 2013
تحقیقاتی کمیٹی یاکمیشن بنانے کا مطلب ہرگز ذمے داروں اوران کی غفلت کا تعین نہیں ہوتا, بی بی سی فوٹو : فائل

تحقیقاتی کمیٹی یاکمیشن بنانے کا مطلب ہرگز ذمے داروں اوران کی غفلت کا تعین نہیں ہوتا, بی بی سی فوٹو : فائل

لندن: ایبٹ آباد کمیشن کی مبینہ رپورٹ افشاہونے کے بارے میں ایک تبصرے میں بی بی سی نے کہاہے کہ پاکستان میں کسی بھی معاملے پرتحقیقاتی کمیٹی یا کمیشن کی تشکیل کایہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ ذمے داروں اور ان کی غفلتوں کاتعین کر کے جزاو سزا کے ذریعے آئندہ ڈھانچہ ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے بلکہ اس کا مقصد کسی بھی فوری ردعمل کارخ موڑنا ہوتاہے جیسے کسی بھی معاملے کوسر سے ٹالنے کے لیے قومی اتفاقِ رائے کاکرتب یا کسی لاک اپ میں ملزم کی موت پر عوامی غصہ ٹھنڈاکرنے کیلیے متعلقہ ایس ایچ اوکی معطلی یا تبادلہ یاکچی ایف آئی آر کادرج کیا جانا ہے۔

لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیقات سے لے کرآج تک جو بھی حساس کمیشن قائم ہوئے ان کی رپورٹ یا تواہم قومی مفاد کے ’بلیک ہول‘میں غائب ہوگئی یادشمنوں نے کسی غیرملک میں اسمگل کر کے شائع کردی یاپھرریٹائرڈپالیسی سازوں اورجرنیلوں کے منہ سے کتابی شکل میں قطرہ قطرہ ٹپکتی رہی لیکن حکومتوں کوتب بھی اصلی اورباتصویررپورٹ شائع کرنے کا حوصلہ نہیں پڑا حالانکہ کسی بھی کمیشن نے اپنی سفارشات میں یہ قدغن نہیں لگائی کہ اس کی رپورٹ مفاد عامہ میں شائع نہیں ہوسکتی اور اب توفریڈم آف انفارمیشن ایکٹ بھی نافذہے۔

اصل مسئلہ یہ نہیں کہ1971 میں بنگالیوں کو بیلٹ کے بدلے بلٹ سے کیوں روکا گیا بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بھارتی فوجیں مشرقی پاکستان میں گھسیں کیسے؟لہٰذا بھارت مردہ باد۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی ناک کے نیچے9سال تک کیسے قیام پذیر رہابلکہ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ امریکیوں نے اسامہ کی تلاش میں پاکستان کے اقتدارِ اعلی اور حدود کو پامال کیوں کیا۔چنانچہ امریکامردہ باد۔ لہٰذا ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ باضابطہ طورپرشائع کرنے اوراس کی سفارشات پر عملدرآمدسے کہیں زیادہ اہم قومی مسئلہ یہ ہے کہ یہ رپورٹ کس غدار نے اصل کاپی سمجھ کر افشاکی۔ اصل مجرم وہی ہے۔اس لیے اس پر ’چھتر‘‘ پھیرناضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔