فٹبال میں کروڑوں روپے کی کرپشن کا حساب لیا جائے گا، صدر پاکستان فٹبال فیڈریشن

زبیر نذیر خان  ہفتہ 12 جنوری 2019
ہاکی کو کروڑوں روپے دینے والی حکومت فٹبال کی بھی اعانت کرے، صدر پی ایف ایف، فوٹو: ایکسپریس

ہاکی کو کروڑوں روپے دینے والی حکومت فٹبال کی بھی اعانت کرے، صدر پی ایف ایف، فوٹو: ایکسپریس

 کراچی: پاکستان فٹبال فیڈریشن کے  صدر  سید اشفاق حسین نے کہا ہے کہ   فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا کی جانب سے رکن ممالک پر پابندی لگانا کوئی نئی بات نہیں، فیفا کو قائل کرنے کی کوشش کی جائے گی، اگر پھر بھی فیفا نے پاکستان کو معطل کیا تو لائحہ عمل بنائیں گے، فٹبال میں کروڑوں روپے کی کرپشن کا حساب لیا جائے گا، ہاکی کو کروڑوں روپے دینے والی حکومت فٹبال کی بھی اعانت کرے۔

مقامی ہوٹل میں میڈیا  اور بعدازاں ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے  سید اشفاق حسین  نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے حکم پر ہونے والے انتخابات میں منتخب ہوئے، کوشش کی جائے گی کہ پاکستان پر فیفا کی جانب سے پابندی عائد نہ ہو، اس ضمن میں ایک وفد بھیج کر  فٹبال کی عالمی تنظیم اور ایشائی باڈی  اے ایف سی کو  حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے اصل صورتحال بتائی جائے گی،ہم اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے، تاہم اگر فیفا کی جانب سے پاکستان  کو  وقتی طور پر معطل بھی کر دیا جائے گا تو اس سے نبٹنے کے لیے اقدامات کریں گے۔

پی ایف ایف کےصدر نے  کہا کہ پاکستان میں فٹبال کا اسٹرکچرتباہ حال ہے، سابقہ فیڈریشن کےعہدیدران ہمارے لیے مشکلات چھوڑ کر گئے ہیں، انہوں نے دل کھول کر لوٹ مار کی،پاکستان میں  فٹبال کا فروغ چاہتے ہیں، فٹبال کی بہترین کیلیے کام نہ کر سکے توخود ہی عہدہ چھوڑ دوں گا،فٹبال شیڈول میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے،میچز، کوچنگ اسٹاف کے تربیتی کیمپ میں تبدیلی نہیں ہوگی،نوجوان کھلاڑیوں کیلیےٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کا انعقاد کریں گے، سابق قومی کپتان کلیم اللہ سمیت کسی سے بھی زیادتی نہیں کی جائے گی۔

سید اشفاق حسین  نےالزام  عاائد کیا کہ سابق صدرفیصل صالح حیات نے  سپریم کورٹ کے منع کرنے کے باجودفیفا کی جانب سے فراہم کردہ رقم واپس کردی جبکہ فیصل صالح حیات نےاے ایف سی اجلاس میں غیر قانونی طور پر شرکت کی اور8ماہ میں 23 کروڑ روپے خرچ کر ڈالے، یہ رقم کہاں خرچ ہوئی کسی کو کچھ نہیں پتا، پاکستان میں گول پروجیکٹ کے منصوبوں کے لیے ملنے والے  کروڑوں روپے کا حساب دینے والا کوئی نہیں ہے، ذمہ داران کو احتساب کے کٹہرے میں لانا ہوگا، بد عنوانی کو برداشت نہیں کیا جائے گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔