اِک نظر اِدھر بھی

حمید احمد سیٹھی  ہفتہ 12 جنوری 2019
h.sethi@hotmail.com

[email protected]

میں ایک وکیل دوست کے ہمراہ عدالتی کارروائی کے نظارے سے فیضیاب ہونے صبح سویرے چل نکلا۔ اسے صوبائی دارالحکومت کے جوڈیشل کمپلیکس جانا تھا۔ ہم عدالتی وقت سے کچھ پہلے کمپلیکس کی پارکنگ جو Basement میں تھی پہنچے وہاں کاروں اور گرد کی بھرمار تھی۔

وکیل نے بمشکل کار کی جگہ پاکر گاڑی پارک کی اور ہم اینٹوں کے ٹکڑوں، گرد کی تہوں میں سے گزر کر سیڑھیوں تک پہنچے اور مٹی سے آلودہ سیڑھیوں سے چڑھ کر دوسری منزل پر اس عدالت تک پہنچے جہاں وکیل صاحب کو پیش ہونا تھا۔ ایک گھنٹہ انتظار تک جج صاحب کی آمد نہ ہوئی تو میں وکیل دوست سے اجازت لے کر کمپلیکس کا راؤنڈ لینے نکل گیا۔ پہلے گراؤنڈ فلور اور پھر اوپر والی دو منزلوں کا چکر لگایا، برآمدے ملزموں، موکلوں اور وکلاء سے بھرے ہوئے تھے۔

عدالتوں کے باہر لگے جج صاحبان کے بورڈوں پر نظر دوڑائی، جج صاحبان کے ناموں کے نیچے لکھے عدالتوں کے نام پڑھنے شروع کیے۔ یہ ڈرگ کورٹ، انسداد منشیات، کسٹم ٹیکسیشن و اینٹی اسمگلنگ، احتساب کی کئی عدالتیں، بینکنگ جرائم کی عدالتیں، فیملی گارڈین، اسپیشل کورٹ سینٹرل، مصالحتی مرکز، چائلڈ کورٹ Intellectual Property Tribunal اور Consumer Court نام کی عدالتیں تھیں۔ ان سب کے نام پڑھ کر خوشی ہوئی کہ ہمارے یہاں انصاف کا بول بالا ہو رہا ہے۔ قریباً تمام کمرہ ہائے عدالت میں جھانک کر دیکھا تو حیرت ہوئی کہ دو گھنٹے گزرنے کے باوجود ماسوائے دو تین عدالتوں کے سائل اور وکیل منتظر پائے۔

ہر تین فلورز پر کمرہ ہائے عدالت کے باہر برآمدے گرد اور کونے کچرے سے اٹے تھے۔ ایک فلور پر صرف ایک شخص صفائی کی کوشش کرتا دیکھا، وہ بھی بددلی سے۔ کئی عدالتوں کے اندر Prosecution سے متعلقہ سو سو دو سو صفحوں کے بنڈل پڑے تھے۔ اگر ہر عدالت کے اندر Unattended ریکارڈ کے ڈھیر اکٹھے اٹھانے ہوتے تو دو تین بڑی ویگنیں درکار ہوتیں، ان ریکارڈ کے ڈھیروں پر کئی کئی کلو مٹی جمی تھی۔ اکثر کمرہ ہائے عدالت کے اندر لوگ کرسیوں پر نیم دراز برآمدوں میں موکل وکیل اور پولیس اہلکار ادھر ادھر چائے سگریٹ پیتے کیفیت انتظار میں بے مقصد ایک جگہ کھڑے یا چل پھر رہے تھے۔

امریکا میں انھیں Rest Room اور برطانیہ میں Toilet کہتے ہیں۔ کمپلیکس کی ہر منزل پر دائیں اور بائیں کونوں پر ٹائیلٹ تھے۔ اندر جھانکا تو انھیں غلاظت سے بھرا پایا۔ کموڈ نہایت گندے، لوٹے ٹوٹے پائے۔ ٹائلیٹس کے کئی دروازے اندر سے بند نہیں ہوتے تھے۔ ان ٹائیلٹس کو گند خانے کہا جا سکتا تھا۔

لیگل پریکٹس شروع کرنے والے کو اپنی قابلیت، شہرت اور پس منظر کے ساتھ کسی حد تک Establish ہونے کے لیے کم از کم پانچ سال درکار ہوتے ہیں۔ لاء کر کے وکالت شروع کرنے والے اکثر وکلاء خوش حال گھرانوں سے نہ ہونے کی وجہ سے فوری روزگار کے طالب ہوتے ہیں جو اس پروفیشن میں ممکن نہیں اور پانچ سال تک انتظار ان کے بس میں نہیں ہوتا۔ یوں بھی پرائیویٹ کالج بے تحاشہ لاء گریجویٹ پیدا کر رہے ہیں جس ڈسٹرکٹ یا تحصیل میں ایک سو وکلاء کی گنجائش ہوتی ہے وہاں تین تین چار چار سو وکیل کالا کوٹ پہنے نظر آتے ہیں۔

Breaf Less وکلاء مقدمہ نہ ملنے کی وجہ سے بیکاری کے سبب Frustration کا شکار ہوکر لاقانونیت پر اتر آتے ہیں۔ وکیل معاشرے کا وہ فرد ہوتا ہے جس کے فرائض میں قانون کی عملداری اور انصاف میں معاونت ہوتی ہے لیکن جو نوجوان روزی روٹی سے محروم ہو، چاہے وہ معتبر اور محترم سیاہ کوٹ میں ملبوس ہو اپنی Frustration ایک قلاش جاہل کی طرح نکالتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کئی سال پہلے ضلع کچہری میں کچھ وکلاء نے عدالت پر حملہ آور ہو کر جج پر دست درازی کر دی۔ میں نے اس پورے واقعے کا احاطہ کر کے کالم لکھا تو صبح سویرے چیف جسٹس کا تعریفی ٹیلیفون آ گیا اور ساتھ ہی چائے کی دعوت ملی۔

لوگوں کو وکلاء کو یاد کرنے پر محمد علی جناح، سر محمد اقبال، سر ظفر اللہ خاں، اے کے بروہی، حاجی غیاث، منظور قادر، ایس ایم ظفر، عابد حسن منٹو اور اعتزاز احسن تو نہ بھولے ہوں گے لیکن گزشتہ کافی عرصہ سے کالے کوٹ والوں نے اپنے Conduct سے جو عزت و احترام کا حشر کیا ہے اس پر نام اور مقام کمانے والے وکلاء شرمسار ہیں۔ وکلاء کے ساتھ عدلیہ کا نام جڑا ہونے کی وجہ سے معتبر و محترم افراد کے دلوں میں فیصلوں کے غیر معمولی طوالت پکڑے جانے کی وجہ سے منصفوں کے بارے میں بھی سوال اٹھنے لگے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے ذمے دار وکلاء اور منصف دونوں ہیں۔ کئی مقدمات کے زیر سماعت رہنے کی طوالت تو مدعی یا سائل کی طبعی عمر سے بھی زیادہ ہونے پر مقدمہ اگلی نسل کو منتقل ہو جاتا ہے اور اگر اس کے بعد بھی Remand ہو جائے تو تیسری نسل بھی استفادہ کرتی دیکھی گئی ہے۔

عدالتوں میں پیش ہونے والے وکلاء کے چیمبر ہوتے ہیں جہاں ان کی فائلیں رکھنے، تیاری و انتظار کی عرض سے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے۔ جوڈیشل کمپلیکس میں بھی نئی تعمیر کی گئی عمارت میں وکلاء کو چیمبر الاٹ ہوئے لیکن وہی کہ سینئر وکلاء کو تو چیمبر مل گئے لاتعداد جونیئر اور Breafless وکلاء کے لیے چیمبر کم پڑ گئے۔ اس پر لوگوں نے وہی منظر دیکھا جو ہم کئی دوسرے شہروں کے بار ممبرز سے سرزد ہوتا دیکھنے کے عادی ہو چلے ہیں۔ ان جونیئر اور نوجوان وکلاء نے زبردستی چیمبرز والی جگہوں پر قبضے کیے اور سیاہ برش سے اپنے اپنے نام لکھے۔

مذکورہ کمپلیکس میں داخل ہونے کے دو تنگ اور تجاوزات و گندگی سے بھر پور راستے ہیں۔ عمارت میں وسیع کار پارکنگ کی جگہ ہے جو ہر وقت مٹی اور گندگی سے بھری رہتی ہے۔ جب کوئی کار پارک کر کے کسی عدالت تک پہنچتا ہے تو ساتھ مٹی یا کیچڑ سے بھرے جوتے لے کر جاتا ہے۔ روزانہ ہزاروں وکیل مدعی گواہ اور ملزم اس کمپلیکس کی پارکنگ سیڑھیاں، لفٹ، برآمدے، کورٹ روم اور ٹائیلٹ استعمال کرتے اور وہاں کی گندگی سے استفادہ کرتے ہیں۔ جو ملزم وہاں ایک بار چلا جائے کئی سال جاتا ہی رہتا ہے۔ ملزم اور وکلاء فیصلے سننے کم اور Adjournments لینے زیادہ جاتے اور جاتے ہی رہتے ہیں۔ اگر محترم چیف جسٹس صاحب سترہ جنوری سے پہلے ادھر کا بھی چکر لگائیں تو بہت سوں کا بھلا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔