بدلتی دنیا اور صحافت

عبدالقادر حسن  ہفتہ 12 جنوری 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

عمر کا یہ حصہ یعنی بڑھاپا جسے عام طور پر آرام سے گزارا جاتا ہے نہ معلوم کیا وجہ ہے کہ میں عمر کے اس حصے میں دن رات سفر میں روزوشب کر رہا ہوں۔ تیزی سے گزرتی عمر خود پریشان ہو تی ہو یا مزے میں ہومگر میں اپنی حد تک ہر طرح سے مطمئن اور سکون سے ہوں۔

میرے چھوٹے میری آنکھوں کے سامنے بڑے اور پھر جوان ہوگئے اور یوں پورے گھر کا ماحول ہی بدل گیا۔ ان کی باتیں اور فرمائشیں بدل گئیں ان کے لباس بدل گئے اور ان کے دوست بھی بدل گئے۔ ان کی محفل میں نئے چہرے بھی دکھائی دینے لگے اور ان کے روز وشب ہم بوڑھوں اور نیم بوڑھوں سے دور ہو گئے کہ ان کی گپ شپ کے موضوع ہم معمر لوگوں کی سمجھ اور پسند سے ماورا ہوگئے۔

ہماری تحریریں جو کبھی ان کے ہم عمر شوق سے پڑھ لیتے تھے اب کسی مضمون کا عنوان دیکھ کر اخباراور رسالے کو اپنے سے دوررکھ دیتے ہیں کہ اگر پڑھنے کے لیے کچھ اور نہ ملا تو پھر یہی سہی۔ نئی نسل کی یہ بدلتی پسند قطعاً تعجب خیز نہیں ہے کہ وہ جن محفلوں میں روز وشب کر رہے ہیں ان میں یہ تحریریں بار نہیں پاتیں یا سامنے آ بھی جائیں تو ان پر وقت ضایع نہیں کیا جاتا۔ زیادہ سے زیادہ کوئی سرخی اچھی لگی یا کوئی لطیفہ اور شعر پسند کا مل گیا تو اسے ذرا غور سے پڑھا اور زیادہ پسند آیا تو نقل بھی کر لیا۔

نئی تحریروں کے لیے نئی نسل کے پاس اب بس اتنا سا وقت ہی باقی رہ گیا ہے اور یہ نئی نسل بھی کیا کرے اپنے وقت سے کٹ کر اپنے آپ کو نئے زمانے کے حوالے کون کرے اور نیا زمانہ بھی ایسا جو نئے زمانوں میں پرانا لگتا ہے۔ نئی نسل کو پرانی تحریریں پڑھانا یوں کچھ بے سود بھی نظر آتا ہے کہ جدید دور نئی نسل کو بہت کچھ دے رہا ہے ۔نئے زمانے نے معلومات اور دلچسپ موضوعات کی بھر مار کر دی ہے ذہن ان کو سمیٹ نہیں پاتے اور ہم اپنے ذہنوں میں ایسے کاغذ اور قلم دوات وافر سہی لیکن ان معلومات کو پرانے ہوجانے والے کسی کاغذ میں بند کرنا ان کی عزت افزائی نہیں جس کے وہ حقدار ہیں اور جن کی مدد سے یہ دنیا آگے بڑھ رہی ہے۔

دنیا زمانے اور حالات کا سلسلہ بہر حال ایسا نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایک جگہ پہنچ کر رک جائے ۔یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور قدم بقدم آگے کی طرف بڑھتا رہتا ہے ۔دنیا یہی چاہتی ہے کہ وہ اپنے عہدکے ساتھ گامزن رہے۔وہ زمانے کے ساتھ اور زمانہ اس کے ساتھ چلتا اور آگے بڑھتا رہے ۔زندگی کا یہی تقاضا ہے اور اسی سفر کانام زندگی ہے یہ زندگی اور اس کا یہ سفر افراد اور قوموں کے ساتھ رواں دواں رہتا ہے کیونکہ یہ سفر اس کی تخلیق کا ایک حصہ ہے جس وقت یہ سفر ختم ہوجاتا ہے زندگی بھی اسی کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے کیونکہ زندگی بھی ایک سفر کا نام ہے جو انسان کی پیدائش کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور اپنے وقت اور زمانے کے ساتھ رواں دواں رہتا ہے ۔ انسان بڑھاپے سے اس لیے گھبراتے یا اسے ناپسند کرتے ہیں کہ اس میں زندگی کا یہ سفر سست اور کم رفتار ہوجاتا ہے۔

جس سے زندگی کی نئی اور تازہ لذتیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارے شاعروں نے اپنے بڑھاپے پر اس لیے بار بار ماتم کیا کہ زندگی کا یہ سفر عام سفر کی رفتار کو سست کر دیتا ہے اور زندگی بھی سست ہو جاتی ہے جب کہ زندگی وہی قابل قبول ہے جو رواں دواں ہو اور وقت اور زمانے کے ساتھ آگے بڑھتی رہے۔ اسی زندگی میں بچپن کے بے خوف زمانے کے بعد جوانی دیوانی کا زمانہ آتا ہے اور پھر بڑھاپے میں پرانی یادوں کو تازہ کرنے کا زمانہ آجاتا ہے جس کی ایک الگ دنیا ہے اور بوڑھوں کو ان کی یادوں کے سہارے زندہ رکھتا ہے اور اس طرح بچپن سے لے کر بڑھاپے تک انسان کو ایک خاص رفتار سے آگے لے جاتا ہے اور زندگی کو قابل برداشت بنا دیتا ہے۔

بس زندگی کے ساتھ جب تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے وہ اس کے سہارے اپنی رفتار کے ساتھ چلتی رہتی رہتی ہے ۔ بات یوں ہے کہ زندگی کو گزارنا نہیں اسے چلانا پڑتا ہے اور وہ چلنے کے لیے جس ایندھن کا تقاضا کرتی ہے وہ اے فراہم کرنا پڑتا ہے اور پھر وہ اس کی طاقت سے اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔

زندگی خودبخود گزرتی کم ہے گزارنا پڑتا ہے اور اس کا گزارنا ایک آرٹ ہے جس کے بارے میں شاعروں نے بہت کچھ کہا ہے اور کہتے چلے جارہے ہیں ۔ ہماری صحافت اسی زندگی کی ایک روداد ہے جو اس کے مختلف گوشوں کو سامنے لاتی ہے اور زندگی کا یہ اظہار جس قدر خوبصورت ہو زندگی بھی اس کا عکس ہوتی ہے ۔یہی عکس ہم صحافت میں مسلسل دکھا رہے ہیں اور دکھاتے چلے جاتے ہیں۔

آج کا قاری بھی یہی چاہتا ہے وہ اپنی عمر کے ساتھ بڑھتی اور زندہ رہنے والی یادوں کو ماند نہیں پڑنے دیتا ۔ سچ تو یہ ہے کہ یادیں پرانی ہوں یا نئی اور تازہ یہی زندگی کا رنگ و روپ ہیں اور زندگی کو ’’بوڑھا‘‘نہیں ہونے دیتیں۔ ان یادوں کو زندگی کے بڑھتے ہوئے سفر زندگی کا ایک پر لطف پہلو سمجھیے جو زندگی کو قابل برداشت بنائے رکھتا ہے ۔ زندگی کو ناقابل برداشت سمجھنے اور اس سے شکست کھا جانے کی ایک دردناک مثال انسانوں کی خودکشی کی وہ وارداتیں ہیں جو زندگی کے کسی دردناک لمحے میں انسان پر وارد ہوتی ہیںاور ان لمحوں سے شکست کھا کر کوئی انسان زندگی سے بھاگ جاتا ہے۔

اسی بھاگ جانے کا نام ہے خود کشی یعنی کسی انسان کا اپنے آپ کو ختم کر لینا یا یوں کہئے کہ خود کشی کر لینا اور اپنے آپ کو دکھوں بھری زندگی سے نجات دے دینا یعنی زندگی زندگی سے بھاگ جانا کیونکہ زندگی بعض اوقات ناقابل برداشت بن جاتی ہے اور زندگی سے بھاگ کر ہی اس سے نجات مل سکتی ہے۔ انسانوں کی زندگی میں بعض اوقات ایسے لمحے اور سانحے آتے ہیں کہ وہ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور ان سے بھاگ جانے میں ہی اپنی نجات سمجھتا ہے۔

یہ بھاگ جانا عموماً خود کشی کی صورت میں سامنے آتا ہے جو زندگی کے مقابلے میں انسان کی آخری کوشش ہوتی ہے۔ جو انسان حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور زندہ رہتے ہیں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ صحیح معنوں میں بہادر انسان ہوتے ہیں جو ناگوار زندگی کو شکست دینے کی ہمت اور جرات پاتے ہیں۔ بہر کیف زندگی کی یہی جدوجہد ایک زندہ زندگی کی علامت ہے اور بہادر انسان اس مقابلے میں زندگی سے جیت جاتے ہیں اور زندگی اپنا قدرتی وقت پورا کر لیتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔