دہرا معیار کیوں؟

عثمان دموہی  ہفتہ 12 جنوری 2019
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

ملک ایک عرصے سے پانی اور بجلی کی قلت کا شکار چلا آرہا ہے لیکن تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد ملک میں کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں ہوا۔ اس ڈیم کی تعمیر ایوب خان کے دور اقتدار میں شروع ہوئی تھی۔ اس سے قبل منگلا ڈیم بھی ایوب خان نے ہی تعمیر کرایا تھا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ جس دور کو ہم بڑی حقارت سے آمرانہ دورکہتے ہیں وہ حقیقتاً ملک کی تعمیر و ترقی کا دور تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ملک میں بجلی اتنی وافر مقدار میں دستیاب تھی کہ گھروں اور صنعتوں کو بجلی مہیا کرنے کے علاوہ ٹرینیں بھی بجلی سے چلا کرتی تھیں۔اب یہ بات ہمارے لیے خواب وخیال بن کر رہ گئی ہے۔

ایوب خان کی حکومت اپریل 1969ء میں یحییٰ خان کے مارشل لا کے بعد ختم ہوگئی تھی۔ اس کے بعد پھر ضیا الحق کے دور میں کالا باغ ڈیم تعمیرکرنے کا پلان بنایا گیا۔ وہ اس کام کو آگے بڑھانا چاہتے تھے مگر ولی خان اس راہ میں دیوار بن کر سامنے آگئے سندھ کے قوم پرست بھی کھل کر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جس کی وجہ سے یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ اس کے بعد پرویز مشرف کے دور میں اس کام کو آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی۔

شاید پرویز مشرف سندھ کے قوم پرستوں کے احتجاج کو نظرانداز کرکے ڈیم کی تعمیر شروع کردیتے مگر جب پیپلز پارٹی نے کھل کر اس ڈیم کی مخالفت شروع کردی کہ اس کی تعمیر سے سندھ بنجر بن جائے گا اور اس کا فائدہ صرف پنجاب کو ہوگا تو مشرف نے صوبوں کے مابین محاذ آرائی کو روکنے کے لیے اس منصوبے پر کام روک دیا۔ اس ڈیم پر ولی خان کو یہ اعتراض تھا کہ اس سے نوشہرہ شہر ڈوب سکتا ہے۔ بعد میں انجینئرز نے ڈیم کے ڈیزائن میں تبدیلی کرکے ان کے اور پیپلز پارٹی کے تحفظات کو دور کردیا تھا جس کے بعد ولی خان کو تو ڈیم کی تعمیر پر کوئی اعتراض نہیں رہا تھا البتہ پیپلز پارٹی کا احتجاج جاری رہا اور اب بھی ہے۔

اس وقت ملک پانی اور بجلی کے قحط سے گزر رہا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے اس سنگین صورتحال کو دیکھتے ہوئے خود کو ڈیموں کی تعمیرکے لیے وقف کردیا ہے۔انھوں نے بھاشا اور مہمند ڈیموں کی تعمیر کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا ہے۔ چونکہ بھاشا ڈیم کی تعمیرکے لیے کثیر رقم درکار ہے اور ملک کی موجودہ معاشی صورتحال اس کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے، چنانچہ انھوں نے اس منصوبے کی تعمیرکے لیے چندہ جمع کرنا شروع کردیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ایسا نہیں ہے کہ چندے کی رقم سے تعمیر ہوسکے۔ اس کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کی مدد لینا ضروری ہے مگر بد قسمتی سے اس وقت ملکی معاشی خستہ حالی کی بنا پر کوئی بھی عالمی ادارہ اس ضمن میں ہماری مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

عالمی ادارے اس ڈیم کی تعمیر میں اس لیے بھی ہماری مدد کرنے سے گریزکررہے ہیں کیونکہ بھارت اس کی مخالفت کررہا ہے۔اس منصوبے کے آزاد کشمیر میں واقع ہونے کی وجہ سے بھارت اس پر اپنے تحفظات ظاہر کررہا ہے۔ اس نے آزاد کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دے کر اس ڈیم کی تعمیرکو بھی متنازعہ بنادیا ہے۔ حالانکہ وہ کشمیر کو متنازعہ قرار دے کر خود اپنے اٹوٹ انگ کے موقف کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ بہرحال یہ سراسر کشمیریوں اور پاکستان کے موقف کی فتح ہے۔ تاہم بھارت کے رویے سے بھاشا ڈیم کی تعمیر کو ضرور نقصان پہنچ رہا ہے۔ فنڈ کی کمی کی وجہ سے فی الحال بھاشا ڈیم کی تعمیر کو روک کر اب مہمند ڈیم کی تعمیر کے رکے ہوئے کام کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

یہ منصوبہ چونکہ بھاشا ڈیم کی طرح نہ تو زیادہ مہنگا ہے اور نہ ہی زیادہ وقت لینے والا ہے اس منصوبے پر خرچ کا تخمینہ کل 309 ارب روپے ہے اور اس کی تعمیر کل چار سال میں مکمل ہوجائے گی۔ یہ 2023 کے شروع میں ہی بجلی پیدا کرنا شروع کردے گا۔ یہ دریائے سوات پر مہمند ایجنسی میں تعمیرکیا جا رہا ہے، اس منصوبے سے جہاں پانی کے ملکی ذخیرے میں بہتری آئے گی وہاں بجلی کی پیداوار میں بھی خاصا اضافہ ہوگا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ منصوبہ شروع ہونے سے قبل ہی تنازعے کا شکار ہوگیا ہے۔ ہمارے آئین کی رو سے ملک میں کسی بھی بڑے منصوبے کی تعمیر کا ٹھیکہ دینے میں شفافیت کو ملحوظ خاطر رکھا جانا اور قوم کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ ملکی مفادات کا تقاضا ہے کہ حزب اختلاف سمیت تمام متعلقہ اداروں کو اس کی شفافیت سے متعلق اطمینان دلایا جائے۔

حزب اختلاف نے اس منصوبے کا ٹھیکہ وزیر اعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد کی مبینہ کمپنی کو دیے جانے کے سلسلے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ہمارے قومی معاملات کے سلسلے میں یہ ایک قسم کی بڑی بدقسمتی ہے کہ بڑے منصوبوں کے سلسلے میں کوئی نہ کوئی ایسا معاملہ نکل آتا ہے جس کی وجہ سے وہ سوالات کی زد میں آجاتے ہیں اور ان کی شفافیت پر شکوک و شبہات کے سائے منڈلانے لگتے ہیں۔ چونکہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے چنانچہ حزب اختلاف کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ قومی معاملات پر نظر رکھے اور قوم کی پوری رہنمائی کرے۔ حکومت کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ بھی اپنی جمہوری ذمے داری کو پورا کرتے ہوئے حزب اختلاف کے ہر سوال کا پورے اطمینان کے ساتھ جواب دے تاکہ کسی بھی قسم کا کوئی ابہام باقی نہ رہے اور بعد میں کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔

نئی حکومت نے تبدیلی کا نعرہ لگا کر انتخابات میں کامیابی تو حاصل کرلی ہے مگر اس وقت سخت امتحان سے گزر رہی ہے۔ اس نے ملک کوکرپشن سے پاک کرنے کی زبردست مہم چلا رکھی ہے۔ اس کا واضح اعلان ہے کہ وہ ملک میں کسی بھی کرپٹ شخص کو نہیں چھوڑے گی اور اسے جیل کی ہوا کھلا کر رہے گی۔ ایسی صورتحال میں نئی حکومت کو خود اپنے معاملات میں انتہائی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ اسے قومی نوعیت کے تعمیراتی کاموں میں شفافیت کو بہر طور ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے۔ مہمند ڈیم کی تعمیر کے لیے دیے جانے والے ٹھیکے کے سلسلے میں بندربانٹ اور کرپشن کے تبصرے آنے لگے ہیں حکومت نے وزیر اعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد کی مبینہ ڈیسکون کمپنی کو ٹھیکہ دے کر خود کو مشکل میں پھنسا لیا ہے۔

اس ٹھیکے کو آئین کے قواعدوضوابط کی خلاف ورزی کہا جا رہا ہے۔ اس سے قومی مفادات کے ٹکراؤ کا حکومت پر الزام لگایا جا رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے وفاقی وزیر پانی و بجلی فیصل واوڈا نے ڈیسکون کمپنی کو ٹھیکہ دیے جانے کی حمایت کی ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ واپڈا نے یہ ٹھیکہ 23 نومبر 2017 کو بین الاقوامی مسابقتی بولیوں پر مروجہ طریقہ کار اختیار کرکے دیا تھا۔

اس وقت نہ ہی پی ٹی آئی حکومت تھی اور نہ ہی عبدالرزاق داؤد حکومتی مشیر تھے۔ حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ اگر وہ اس وقت مشیر نہیں تھے مگر اب تو وہ حکومت کا حصہ ہیں۔ خود عبدالرزاق داؤد کا کہنا ہے کہ وہ بہت پہلے اس کمپنی کو چھوڑ چکے ہیں مگر اطلاع کے مطابق ان کا بیٹا فیصل داؤد اب بھی ڈیسکون کا چیف ایگزیکٹیو ہے۔

عمران خان خود ایسے معاملات پر سابقہ حکومت پر سخت تنقید کرچکے تھے چنانچہ موجودہ حکومت کو دہرا معیار اختیار کرنے اور خود پر کسی قسم کے کرپشن کے دھبے کے آنے سے احتیاط کرنی چاہیے ورنہ سابقہ حکومت کے عہدیداران کا آج جو حشر ہو رہا ہے کل اس کے عہدیداران کو بھی اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان محاذ آرائی سے عوام کو خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر بھی کہیں کھٹائی میں نہ پڑ جائے۔ کاش کہ دونوں جلد مسئلے کا کوئی قابل قبول حل نکال لیں تاکہ ملک کو ریگستان بننے سے بچایا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔